کے پی بلدیاتی الیکشن میں بیچے گئے پیغمبروں کے خواب اور نتائج


خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں جے یو آئی نے میدان مار لیا ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی نے دل پہ پتھر رکھ کر اس جیت کو تسلیم کر لیا ہے کہ جے یو آئی کے نمبر پورے ہیں۔

ہمارا سیاسی شعور اب تک اتنا ہی جان پایا ہے کہ نمبر پورے ہوں تو جیت آپ کی ہوتی ہے اور یہ کہ جبر و استبداد کا مکمل حق آپ کو حاصل ہو جاتا ہے۔ ہندوستان کے گزشتہ انتخابات کے بعد کانگریس کی قیادت نے کہا تھا، ”ہم اپنی شکست تسلیم کرتے ہیں اور بی جے پی کو جیت پر مبارک دیتے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ انتخابات میں کسی قسم کی دھاندلی ہوئی۔ یہ ضرور کہتے ہیں کہ انتخابات کے لیے بی جے پی نے جو مہم چلائی وہ غیر سیاسی تھی۔ (یہ بھی ایک طرح کی دھاندلی ہی ہوتی ہے)۔‘‘

کانگریس کا اشارہ بی جے پی کے اُس بیانیے کی طرف تھا، جو پاکستان کی مخالفت، حب الوطنی اور مذہب پسندی پر مبنی تھا۔ اس بیانیے نے اُن بنیادی مسائل کو مکمل طور پر دبا دیا، جن کا تعلق شہریوں کے بنیادی حقوق اور بنیادی ضرورتوں کے ساتھ تھا۔

پاکستان کی ایک بڑی کمبختی یہ ہے کہ یہاں سیاسی مقابلے سیاسی جماعتوں کے بیچ نہیں ہوتے۔ جو ہوتے ہیں وہ سیاسی بنیادوں پر نہیں ہوتے۔ ایک طرف سیاسی قوتیں ہوتی ہیں دوسری طرف ریاستی دھڑے ہوتے ہیں۔ ریاستی دھڑے اُن سیاست دانوں پر مشتمل ہوتے ہیں، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کا کعبہ کبھی ایک نہیں رہتا۔

 سچ حالانکہ یہ ہےکہ ان لوگوں کا کعبہ ہمیشہ ایک ہی رہتا ہے۔ یہ ہمیشہ اُس جماعت کے ساتھ ہوتے ہیں، جسے کعبے سے پاسبانی کی سند ملی ہوتی ہے۔ یہ سند اسی دھڑے کو ملتی ہے، جو یقین دہانی کراتا ہے کہ ہم سیاست کے میدان میں غیر سیاسی سوچ کے ساتھ اتریں گے۔ اس ریاستی دھڑے کا کوئی عوامی حلقہ نہیں ہوتا۔ ان کا کوئی سیاسی ایجنڈا بھی نہیں ہوتا۔ ان کے پاس صرف دشنام، الزام اور فتوے جیسے ہتھیار ہوتے ہیں، جن سے انہوں نے طاقت کے غیر جمہوری مراکز کے مفادات کا دفاع کرنا ہوتا ہے۔

ہوتا یہ ہے کہ طاقت کے غیر جمہوری مراکز اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے پہلے ایک بیانیہ مرتب کرتے ہیں۔ بازار میں پھر اس بیانیے کے خریدار ڈھونڈتے ہیں۔ خریدار مل جائیں تو سوداگروں کو خبر کر دی جاتی ہے کہ مارکیٹ میں ہماری ایجنسی یہ ہے۔ جو اس سے جڑا رہے گا فلاح پائے گا، جو دور رہے گا وہ دنیا و آخرت میں رسوا ہوجائے گا۔

دیکھتے ہی دیکھتے مانے جانے سمگلر، لینڈ مافیاز، قبضہ گیر، جرائم پیشہ پیر، انتہا پسند مولوی، کالعدم تنظیمیں اور کالموجود سکیمیں اس ایجنسی کے گرد جمع ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ ان کے ایک ہاتھ میں پاکستان کا جھنڈا ہوتا ہے دوسرے ہاتھ میں اسلام کی سند ہوتی ہے۔ میڈیا ان کے تابع ہوتا ہے اور منبر ومحراب ان کے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔ ان کے خوابوں میں کبھی پیغمبر آتے ہیں کبھی کوئی صحابی آتاہے۔ اولیا کا آنا جانا تو معمول کی بات ہوتی ہے۔ ضرورت پڑ جائے تو قائد اعظم محمد علی جناح بھی آجاتے ہیں۔ یہ خوابوں میں انہیں بتاتے ہیں کہ اس بار سیدھا راولپنڈی سکیم تھری کو جانے والی صراطِ مستقیم کون سی ہے۔ یہ انبیاء، صحابہ کرام، اولیائے عظام اور بانیانِ پاکستان انہی بے وضو ہستیوں کے ذریعے محب وطن شہریوں کے لیے ہدایات بھی جاری کرتے ہیں۔

ان کے مقابلے میں آنا براہ راست پاکستان، خدا اور رسول کے مقابلے میں آنے والی بات ہوتی ہے۔ ان کی ذات سے اور ان کے بیانیوں سے فائدہ اٹھانے کا حق سیاست کے صرف غیر سیاسی دھڑے کو حاصل ہوتا ہے۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے سوداگروں کا تعارف دہشت گردانہ سا رکھا جاتا ہے، مگر اپنی سرگرمیوں کے لیے یہ آزاد ہوتے ہیں۔

 جب سیاسی دھڑا ان سے حمایت لینے کی کوشش کرتا ہے تو میڈیا کے ذریعے بتایا جاتا ہے کہ دیکھیے ان کے دہشت گردوں سے مراسم ہیں۔ جب غیر سیاسی دھڑا حمایت حاصل کرے تو میڈیا کی آنکھ میں موتیا اتر آتا ہے۔ کوئی سوال اٹھا دے کہ بھئی اب دہشت گردوں سے یہ مراسم کیسے، تو جواب دینے کے لیے خود ریاست آگے آ جاتی ہے۔ بہت معصومیت سے کہہ دیتی ہے، ہم انہیں مین سٹریم میں لے کر آرہے ہیں۔ اس مین سٹریم فارمولے پر ریاست سال ڈیڑھ سال آرام سے نکال لیتی ہے۔ اچانک سے جب وہ کالعدم ہو جاتے ہیں تو اس کے دو مطلب ہوتے ہیں۔ یا تو سوداگر ریاست کے گلے پڑ گئے ہیں یا سوداگروں کے بیانیے حالات بدلنے کی وجہ سے سیاسی دھڑوں کی حمایت میں جانے لگے ہیں۔

ہر پانچ سال بعد ریاست ایک نیا غیر سیاسی تجربہ کرتی ہے۔ ہر بار اس تجربے کے نتائج خون ریز ہوتے ہیں۔ ہر بار ریاست ان خون ریز نتائج کی ذمہ داری سیاست دان اور عوام پر ڈال کر پتلی گلی سے نکل جاتی ہے۔ لوگ پچھلے تجربات کے نتائج بھگت رہے ہوتے ہیں اور کوزہ گر چپ چاپ ایک کونے میں بیٹھ کر اگلے غیر سیاسی چہرے کے لیے چاک گھما رہا ہوتا ہے۔

غیر سیاسی نعروں کا علم نوے کی دہائی میں میاں نواز شریف کے ہاتھ میں تھا۔ آج یہ جھنڈا عمران خان اٹھائے غیر سیاسی دھڑے کی قیادت کر رہے ہیں۔ وہ سارے پیر فقیر اور ملا و مفتی جو نواز شریف کو میسر تھے، اب عمران خان کے دفاع پر مامور ہیں۔ جن نعروں پر میاں صاحب نے بی بی کا تعاقب کیا تھا، وہی نعرے دو ہزار اٹھارہ کے انتخاب میں میاں صاحب کی بساط کھا گئے۔ ان نعروں میں حب الوطنی اور مذہب پسندی کے نعرے سب سے بلند تھے۔

 ان انتخابات سے جس ماحول نے جنم لیا، وہ آگے چل کر ہمارے قومی سیاسی مباحثوں، ضمنی انتخابات میں چلنے والی سرگرمیوں کا حصہ بن گئے۔ موجودہ حکومت سے جب جب اس کی سیاسی کارکردگی کا سوال کیا گیا، تب تب اس نے ریاستِ مدینہ، اقبال، تصوف، اسلامو فوبیا، نصاب میں عربی لازم اور رحمۃ اللعالمین اتھارٹی جیسے غیر سیاسی جوابات سامنے رکھ کر دامن چھڑایا ہے۔ اندازہ کیجیے کہ شہباز گِل، شبلی فراز اور فردوس عاشق اعوان جیسی ہستیاں بھی ریاستِ مدینہ کا خواب آنکھوں میں لیے لیے پھر رہی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ شفقت محمود نصابِ تعلیم میں اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لیے اپنا چین سکون غارت کیے ہوئے ہیں۔

صورتِ حال یہ ہے تو سیاسی دھڑے کے لیے سب سے اہم سوال یہ ہوتا ہے کہ اب مقابلہ کیسے کریں؟ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ریاستی دھڑے کے غیر سیاسی بیانیے کو مسترد کر دیا جائے، یہ ممکن نہیں ہوتا۔ بھلا صحیفوں کو کون مسترد کر سکتا ہے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ غیر سیاسی بیانیے کے اندر ہی کھڑے ہو کر کھیلا جائے تاکہ لوہے کو لوہے سے کاٹا جا سکے۔ ایک سیاست دان اسی طریقہ واردات کو اختیار کر سکتا ہے اور کرتا بھی ہے۔ اس طریقہ واردات سے دلِ ناتواں مقابلہ تو خوب کر لیتا ہے، مگر اس کے دور رس نتائج بھی فرقہ واریت کی صورت میں ہی نکلتے ہیں۔

مذہب کے سارے سکے چلا کر بھی حکمران جماعت پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں بازی ہار گئی ہے۔ سیاست کے ایک بڑے حصے کے لیے یہ خوشی کی خبر ہو سکتی ہے، مگر خوشی سے بڑھ کر المیہ یہ ہے کہ دوسری جماعت نے غیر سیاسی نعروں کا سہارا لے کر ہی میدان مارا ہے۔ جے یو آئی نے کسی کی کارکردگی پر بات کی اور نہ اپنی کارکردگی یا منشور کو بنیاد بنایا۔

وہ کفر اور اور اسلام کی خونی لکیر کھینچ کر میدان میں اترے۔ ہر حلقے میں دو مولوی ایسے ضرور موجود رہے، جن کے خوابوں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم آتے تھے اور انتخابی مہم میں حصہ لیتے تھے۔ اپنے انتخابی نشان کتاب کو لہرا لہرا کر بتاتے رہے کہ یہ دراصل خدا کی آخری کتاب ہے۔ جو کسی بھی مخالف کو ووٹ دے گا، گویا اس نے قرآن کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ جے یو آئی کے جھنڈے کو پیغمبرِ اسلام کا جھنڈا بتایا گیا۔ اس جھنڈے کی تصدیق کرنے میں پیغمبرِ اسلام دوچار مولویوں کے خوابوں میں آئے۔ ایک بڑے جرگے میں علمائے کرام نے بیٹھ کر فیصلہ کیا کہ جو گاوں ہمیں ووٹ نہیں دے گا ہم اسے لامذہب ڈیکلئیر کر دیں گے۔ لوگ بھی کیا سادہ ہیں، جو سمجھتے ہیں کہ جن مولویوں سے چار سدہ مردان کی ایک مسجد ٹھیک سے نہیں چلتی، خدا نے انہیں سات براعظموں کا نظم چلانے کے لیے مشیر رکھا ہوا ہے۔

کسی بھی مذہبی سیاسی جماعت کی طرح جے یو آئی نے مساجد کو انتخابی دنگل کے لیے اکھاڑا بنایا ہوا ہے۔ کھیل کے میدان، تعلیمی اداروں اور شفا گاہوں کی طرح عبادت گاہیں بھی پورے علاقے کی مشترکہ املاک ہوتی ہیں۔ ہوتا مگر یہ ہے کہ مسجدوں کا منبر اور لاوڈ سپیکر پیش نماز کے ذاتی نظریات کا ترجمان ہوتا ہے۔ آئین و قانون اور نصاب کی طرح جمعے کا خطبہ بھی ایک کثیر القومی اور مختلف العقائد سماج کا نمائندہ ہوتا ہے، مگر یہاں جمعے کے خطبوں میں کسی ایک ہی سیاسی جماعت کی فضیلت بیان کر کے ووٹ ڈالنے کی اپیلیں کی جاتی ہیں۔ ووٹ نہ ڈالنے والوں کے لیے سخت وعیدیں بھی بیان کی جاتی ہیں۔

انتخابی مہم میں ہونے والی ایسی ساری بداخلاقیوں کو دھاندلی تصور کیا جانا چاہیے تھا، مگر ہمارے ہاں یہ کارِ ثواب ہے۔ توہین رسالت کے واقعات کوئی حقیقت ہیں، تو یہ واقعات سب سے زیادہ جے یو آئی کی انتخابی مہم میں پیش آئے ہیں۔ مساجد کے منبر و محراب اور لاوڈسپیکر اس میں پیش پیش تھے۔ اگر کوئی سیاسی قوت لاوڈ سپیکر اور منبر کے اس ناجائز استعمال کی طرف توجہ دلائے تو اسے اسلام پر براہِ راست حملہ تصور کیا جاتا ہے۔

 مشکل یہ نہیں ہوتی کہ مولوی اسے اپنی حق تلفی سمجھ کر فتووں کے ہتھیار تیز کر لیتا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ پوری ریاستی مشینری مولوی کے زیر انتظام چلنے والے ان فتوی ساز کارخانوں کا دفاع کرنے چلی آتی ہے۔ کسی کے لیے یہ عبادت گاہیں ہوں گی، ریاست کے لیے تو یہ پروپیگنڈا ہاوسز ہیں۔ اس طرح کی صورت حال میں طریقہ یہی رہ جاتا ہے کہ اپنے حلقے بچانے کے لیے سیاسی طاقتیں بھی غیر سیاسی پناہ گاہیں تعمیر کرنا شروع کر دیں۔ جزوی طور پر ایسی خیمہ بستیاں قائم بھی ہو چکی ہیں۔ سلسلے یہی رہے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ گلستان کا انجام آخر کار کیا ہو گا؟

کسی بھی بھیانک انجام سے بچنے کے لیے ہمیں کچھ دیر رک کر سانس لینا ہو گا اور ٹھنڈے دل دماغ کے ساتھ تین باتوں کو اپنے شعور میں جگہ دینی ہوگی۔ پہلی بات، ہر بار سیاست دانوں کے ظاہری کردار اور عوام کی عقل پر چار حرف بھیج کر دامن جھاڑ لینے سے کچھ نہیں ہو گا۔ دوسری بات، نفرت کے اس بیوپار میں براہِ راست حصہ خود ریاست کا ہے۔ تیسری بات، نفرت کا یہ بیوپار ختم بھی تب ہو گا، جب ریاست دو قدم پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کرے گی۔

بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments