ماضی میں مستقبل کے مثبت چہرے


بزرگ ایک مثال بیان فرماتے ہیں کہ ( کر مزدوری تے کھا چوری) ہماری زندگی میں اس محاورے کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے۔ لیکن کچھ لوگ اس محاورے کو فقط لفظ مزدوری ہی سے تشبیہ دیتے ہیں۔ مطلب جیسے میں اپنے کزن کے ساتھ مزدوری کرتا تھا۔ وہ جسمانی مزدوری تھی۔ ہر وہ کام مزدوری و مشقت ہے جس سے ہماری زندگی میں آ سانی پیدا ہو سکے ہمارے کردار و گفتار میں اچھائی آ سکے۔ اور ہم اپنی زندگی کو اچھے سے اچھا بنا سکے اسے ہی مزدوری کہتے ہیں۔

فقط پیٹ کو پال لینا ہی مزدوری نہیں۔ مزدوری زندگی کے کسی محاذ پر کی جائے اس کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ جیسے اس گزرے سال میں ہمارے طلبہ و طالبات نے اپنے امتحانات میں کی یہ پاکستان کی تاریخ میں سب سے بڑی محنت تھی جو ان طلباء نے کی اور یہ زندگی کے میدان میں مو بولتا سچ ہی نہیں بلکہ حق بن گیا۔ میرے لحاظ سے میں یہ ہی بات کرنا چاہتا تھا۔ جو کر رہا ہوں۔ گزرے سال بچوں کے نمبر سن کر ایسے لگتا تھا کہ جابر بن حیان سر آ ہیزن نیوٹن خود بچوں کو ٹیوشن پڑھانے آئے ہوئے تھے۔

جو ان بچوں میں دماغ و ذہانت ہے وہ کسی اور میں ہو ہی نہیں سکتی۔ کسی کے گیارہ سو میں سے دس سو اسی تو کسی کے گیارہ سو میں سے گیارہ سو ہی آ گے۔ ویسے میٹرک کا یہ پہلا رزلٹ تھا میری زندگی میں جس کے لیے مجھے بے تابی نہیں تھی۔ وگرنہ ہر بار میں اپنے بچوں کے نتائج کا بری بے صبری سے انتظار کرتا تھا۔ یہ ہی رزلٹ تھا جو مجھے میرے بچپن کے دن یاد آ گئے تب ہی میں نے سوچا کہ کیوں نہ اچھی یادیں اچھے دوستوں سے شعر کی جائے۔

میں 2001 کی بات کرتا ہو جب میں چھوٹا سا تھا مگر اتنا سمجھدار تھا کہ معاشرے میں ہونے والی سرگرمیوں کو دیکھ سکوں اور یاد رکھ سکوں۔ میں اس وقت پرائمری سکول میں پڑھتا تھا۔ مجھے پڑھنے کا شوق تھا مگر ان دنوں ایک تو شعوری لاپرواہی اور تعلیمی ماحول کی عدم فراہمی تھی جس کی بنیاد پر ہم اپنی تعلیمی سرگرمیوں میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ ہم سب کبھی (دریا راوی) کے کنارے تو کبھی (لوہر باری دوآب نہر) پر نہانے چلے جاتے تھے۔

اگر ان دونوں جگہوں پر نہ جاتے تو گاؤں کے ساتھ ہی ایک ٹینڈر تھا وہاں کھیلتے خیر یہ ایک وقت تھا جس میں ہم نے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا تھا کہ ہم نے تعلیمی میدان میں کیا کرنا ہے۔ خیر یہ فیصلہ کر نے کی عمر تو نہ تھی۔ مگر یہ بات بھی غلط نہ ہوگی کہ زندگی کی ابتداء یہیں سے تھی۔ انہی دنوں سے انسان اپنے آپ کو کچھ بنانے کی فکر کرتا ہے۔ چھوٹی کلاسوں کے پیپر جیسے ہوتے ہیں ہم سب جانتے ہیں۔ ہم تو ان دنوں فری تھے مگر میٹرک کے طلباء اپنے ایگزام دے رہے تھے۔

ہم یہ بات اس وقت خوب جانتے تھے کہ بھائی دسویں کلاس پاس کرنا بہت مشکل ہے اور اوپر سے ملتان بورڈ سے پاس ہونا تو میدان جنگ فتح کرنے کے برابر ہے۔ جب امتحانات ہو  گئے تو کچھ دنوں بعد رزلٹ آ نا تھا سب طلبہ ایک دوسرے کے گھروں پر جاتے سنا کوئی پتا لگا کہ نہیں ہمارے لیے یہ بہت ایک الگ سا خوف اور ساتھ میں خوشی بھی تھی کہ یار یہ کیا ہے۔ خیر رزلٹ آؤٹ ہوا تو پتا چلا کہ اس دفعہ لڑکوں نے ریکارڈ نمبر لیے ہیں۔ ان میرے میرے بابا کے منہ بولے بھائی کا بیٹا تھا جن کا نام محمد سہیل سہو ہے اور دوسرے دوست کے بیٹے کا نام کلیم اللہ کیفی چشتی ہے۔

اس وقت کے یہ روشن ستارے تھے جنہوں نے تاریخ رقم کر دی اور میٹرک میں مثالی نمبر لے کر علاقے بھر میں اپنا اور سکول کا نام روشن کیا۔ سہیل بھائی نے 850 میں سے 726 نمبر لیے جبکہ کیفی بھائی نے 850 میں سے 716 نمبر لیے۔ یہ وہ روشن باب تھے جن کو ہمارے مستقبل کے لیے ایک مشعل راہ ثابت ہونے تھا۔ ان کی محبت و محنت اور گفتار و کردار کی وجہ سے ہم جیسے نااہل طلبا بھی اپنی زندگی میں کامیابی کی شمع جلانے میں کامیاب ہونے لگے اور آہستہ آہستہ میرے شفیق طبیعت اساتذہ کرام نے اس خواب کو عملی جامہ پہنایا۔

میرا بات کرنے کا مقصد یہ کہ اس وقت کا تعلیمی نصاب آج کل کے بچوں کے سامنے رکھ دیا جائے تو نمبر کیا پاس ہونا بھی نہ ممکن ہے۔ اور اب تو چند باب ہیں جو پہلی کلاس کے قاعدہ کی طرح ہے۔ اور ساتھ میں ( کرونا) کی بھیڑ میں اگر نمبر آ بھی گے تو کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ یہ ہی وہ روشن ستارے ہیں جنہوں نے ایک بھائی اور ایک استاد کی طرح ماضی میں زندگی کے مسائل سے لڑنا سکھایا۔ ان بھائیوں کی محنت تھی جو اتنے لوگوں میں شعور کو زندہ کر گی اور مسلسل چراغ روشن ہوا جو اپنی مثال آپ ہے۔

ان کی ہمت و حوصلہ یہی رک نہ سکا بلکہ کالج، یونیورسٹی میں اعلی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ایک اچھی زندگی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ ماشاءاللہ دونوں بھائی آج بہت بڑے انجینئر ہیں یہ بات تو سچ ہے کہ معاشرہ ایک بہت بڑی درس گاہ ہے جس سے ہم ہر روز زندگی میں ہر طرح کے معاملات سے واقف ہوتے ہیں۔ اور سیکھتے ہیں۔ اسی لیے اگر معاشرے میں مثبت کردار کو فروغ دیا جائے تو کافی مسائل حل ہو جائے گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments