کیا آپ بھی پری زاد ہیں؟


ہاشم ندیم صاحب کے قلم سے لکھے گئے ڈرامہ سیریل پری زاد کی بے حد پذیرائی کی وجوہات اور منفی پہلوؤں کا جائزہ لینے سے قبل اس کے مثبت پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں۔

پری زاد میں خود میں کھوئی (Introvert) پرسنیلٹی ٹائپ کو جس خوبصورتی سے لکھا اور فلمایا گیا ہے، اس کی جتنی داد دی جائے کم ہے۔

احمد علی اکبر کی لاجواب اداکاری نے کردار کو چار چاند لگا دیے ہیں۔ مجھے تو لگتا ہے کہ اس ڈرامے کے لکھاری ہاشم ندیم صاحب خود بھی انٹرو ورٹ انسان ہیں۔

ایسی شخصیت کے افراد، خاموش طبع، شرمیلے، تنہائی پسند، حساس، اور مضبوط قوت برداشت کے حامل ہونے کے ساتھ ساتھ زندگی اور چیزوں کو گہرائی اور مختلف انداز میں سوچنے کے عادی ہوتے ہیں۔ آسان الفاظ میں کہوں تو اپنے گردونواح میں موجود افراد، ہم جنہیں ”میسنا“ یا ”بے ایمان“ کہہ رہے ہوتے ہیں وہ اصل میں انٹرو ورٹ افراد ہوتے ہیں۔

میری نظر میں ڈرامہ سیریل پری زاد کی پذیرائی کی وجوہات میں پہلی وجہ ہمارا معاشرتی و سماجی ڈھانچہ ہے۔ پاکستان میں آبادی کی اکثریت غریب یا متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہے اور غریب یا متوسط طبقے میں پیدا ہوا، ہر انٹرو ورٹ انسان اپنے آپ میں ایک چھوٹا موٹا پری زاد ہوتا ہے۔

بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں رنگ، نسل اور ذات برادری کی بنیاد پر تقسیم بہت گہری ہے۔ انہیں بنیادوں استوار ہمارے سماجی رویوں میں، اپنے ہی جیسے دوسرے انسانوں کو کم تر یا حقیر سمجھنا معمول کی بات ہے۔ اس سے بھی بڑا سانحہ مگر یہ ہے کہ ہم میں سے اکثریت کو اس تقسیم کے اپنے ہی معاشرے کے لوگوں کی ذہنی صحت پر ہونے والے منفی اثرات کا اندازہ تک نہیں ہے۔

ہمارے ہاں جب کوئی غریب یا متوسط طبقے کا انٹرو ورٹ انسان اس طرح کے دقیانوسی معاشرے میں زندگی گزار رہا ہوتا ہے تو اسے لوگوں کے تحقیر آمیز رویوں، طعنوں، گالیوں، اور دشنام تراشی کا سامنا رہتا ہے۔ جیسا کہ ڈرامے میں بھی پری زاد کو بہروز کریم کے ملنے تک ان تمام رویوں کا سامنا رہا ہے۔

میری نظر میں پری زاد کے انتہائی ڈرامائی اور غیر حقیقی انداز میں امیر ہونے سے پہلے تک، یہ ڈرامہ انٹرو ورٹ انسان کی زندگی سوچ اور احساسات کی حقیقت کے قریب ترین ترجمانی کر رہا ہے۔

پری زاد کی پذیرائی کی دوسری وجہ ہمارے اندر چھپی ہوئی شمار مال و دولت اور شان و شوکت کی خواہش ہے۔ ہمارے حقیقی زندگی کے پری زاد جب خود یہ سب کچھ حاصل نہیں کر سکتے تو ڈرامے میں اپنے ہی جیسے کردار کو کامیاب ہوتا دیکھ نفسیاتی تسکین حاصل کرلیتے ہیں۔ نفسیات کی زبان میں کہیں تو ڈرامہ دیکھ کر ان کا کتھارسس ہو جاتا ہے۔

میرا خدشہ فقط ایک ہے کہ کہیں یہ ڈرامہ، ہمارے پہلے سے ہڈ حرام اور آرام طلب پری زادوں کو شارٹ کٹ کے پیچھے نا لگا دے۔ ہماری آدھی قوم تو پہلے ہی کسی ”جگاڑ“ کے چکر میں رہتی ہے۔

ہمارے حقیقی زندگی کے پری زادوں کو ایک بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ حقیقی زندگی میں آپ کو کوئی ایسا پاگل اور لاوارث بہروز کریم نہیں ملنے والا، جو سب کچھ آپ کے نام کر کے خودکشی کر لے۔ اور نا ہی کوئی نابینا عینی آپ کی زندگی میں آنے والی ہے جو آپ کی ظاہری شکل و صورت سماجی مرتبے کو دیکھے بغیر آپ کے اندر کی خوبصورتی کو سمجھے یا محبت کرے گی۔ حقیقی زندگی کے ہزاروں پری زاد جاگیر داروں کے جرائم اپنے سر لے کر جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔ اگر یہ جاگیر دار بہت ”رحم دل“ ہو تو بدلے میں ان کے خاندان کو شاید کچھ پیسے مل جاتے ہوں۔ اور حقیقی زندگی کی ”عینیاں“ بھی آپ کی ذات برادری، شکل و صورت اور مال و دولت دیکھ کر محبت کرتیں ہیں۔

لہذا میرے پیارے پری زاد و حقیقی زندگی میں آپ کے پاس دو ہی رستے ہیں، پہلا رستہ یہ ہے کہ خود پر ترس کھاتے رہو، دنیا کے تلخ رویوں پر شکوہ کناں رہو اور گھٹ گھٹ کر مرتے رہو، اور لوگوں سے ہمدردی کی بھیک مانگتے رہو۔ دوسرا رستہ یہ ہے کہ اپنے خوابوں خیالوں کی دنیا سے باہر نکل کر زندگی کی حقیقت کا سامنا کرو۔ حقیقت یہ ہے کہ یہاں کوئی کسی کی پرواہ نہیں کرتا۔ آپ بھی خود رحمی اور اپنے ہی خیالوں میں اپنے آپ کو مظلوم بنا کر خود ہی اپنے اوپر ترس کھانا بند کرو۔ اپنے حالات سے لڑ جاؤ۔ زندگی کو بالوں سے پکڑ کر لمبا لٹا دو۔

اپنا بہروز کریم، اپنے اندر کی آگ کو بناؤ، اپنی محنت اور لگن کو بناؤ، میری ایک بات اچھی طرح ذہن نشین کر لیں صرف ایک ہی انسان آپ کی زندگی بدل سکتا ہے اور وہ انسان، آپ خود ہیں۔ اور یقین کریں یہ کتابی باتیں نہیں ہیں میں ذاتی طور پر ایسے سیلف میڈ دوستوں کو جانتا ہوں کہ جنہوں نے ہمارے ہی معاشرے میں رہ کر، اپنی محنت اور لگن سے بے مثال کامیابی حاصل کی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments