خواتین کے لیے ناممکن سے ممکن تک کا سفر


ثریا اعوان، تین بچوں کی ماں ہیں اور ان کا شوہر ایک موٹر میکینک ہے، جبکہ خود وہ آج ایک نامور ایکسپورٹ کمپنی میں بطور مرچنڈائزر کام کر رہی ہیں۔ ثریا اعوان 2005 میں شادی کے بعد رخصت ہو کر ابراہیم حیدری کے علاقے میں آئیں جہاں ایک مشکل زندگی ان کی منتظر تھی۔ تین بچوں کی پیدائش نے گھر کے خرچوں میں اضافہ کیا۔ دوسری طرف علاقے میں بدامنی کی وجہ سے شوہر کو کبھی کام ملتا اور کبھی نہیں۔ جس کی وجہ سے ثریا اندر ہی اندر گھلتیں اور کسی نہ کسی طرح اپنے شوہر کا ہاتھ بٹانے کا سوچتی رہتیں۔

2018 میں معاشی حالات سے تنگ آ کر ثریا اعوان نے ایک فلاحی ادارے سے سلائی مشین آپریٹر کا کورس کرنے کا سوچا جس کے لئے انہیں اپنے شوہر کو راضی کرنے کے لئے بہت وقت لگا۔ شوہر انہیں گھر سے باہر بھیجنے پر راضی نہ تھا مگر انہوں نے اپنے شوہر کو بڑی مشکل سے قائل کیا اور داخلہ لے لیا۔ کورس مکمل ہونے کے بعد فلاحی ادارے نے ہی ثریا کو ایک گارمنٹس فیکٹری میں جاب کے لئے منتخب کیا، جب گارمنٹس فیکٹری میں کام کرنے کی بات ثریا نے گھر میں کی تو ان کے شوہر نے خاصی ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا کہ میں نے تمہاری سلائی مشین سیکھنے کے لئے اس لئے حمایت کی تھی کہ تم گھر میں کوئی کام کاج کر سکو، فیکٹری میں بھیجنے کے لئے نہیں۔ اسی دوران بات اتنی بڑھی کہ شوہر نے ثریا کے گھر والوں کو بلوالیا اور ان کے بھائیوں نے بھی انہیں فیکٹری میں جانے کی حمایت نہیں کی اور انہیں برا بھلا کہا جس پر وہ دل برداشتہ ہو کر فیکٹری میں نوکری شروع نہیں کی۔ مگر اس دوران ہمت نہیں ہاری اور وقتاً فوقتاً اپنے شوہر کا ذہن بناتی رہیں کہ ابراہیم حیدری کے علاقے میں سلائی کا اتنا کام نہیں ملے گا ہم ایسا کرتے ہیں کہ کسی اور علاقے میں بوتیک جیسی دکان کھول لیتے ہیں مگر ثریا یہ بھی جانتی تھیں کہ اس کے لئے مشین خریدنا ہوگی اور دکان کی ڈیکوریشن وغیر ہ کے لئے سرمایہ چاہیے ہو گا جبکہ وہ اور ان کا شوہر سرمائے کا انتظام نہیں کر سکتے۔ موقع غنیمت جان کر انہوں نے شوہر کو مشورہ دیا کہ وہ کچھ مہینے فیکٹری میں کام کریں اور پیسے جمع کر کے اپنی دکان کھول سکتیں ہیں۔ اگر قطرہ قطرہ پانی بھی پتھر پر گرے تو پتھر میں بھی سوراخ ہوجاتا ہے یہ تو پھر اپنے بچوں کی زندگی ضروریات زندگی پوری کرنے کی جستجو میں تھی اور دو ماہ بعد ہی ثریا نے اپنے شوہر کو راضی کر لیا۔ ایک گارمنٹس فیکٹری میں بطور مشین آپریٹر کام شروع کیا۔ ثریا نے پہلے ہی دن اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے۔ ان کے کام سے جہاں لوگ خوش تھے وہیں کچھ لوگوں نے جیلیسی میں ان کے کام میں کیڑے نکالنا شروع کر دیے۔ ثریا کو احساس ہوا کہ ہاہر نکل کر کام کرنا آسان نہیں۔ دو دن بعد ہی ثریا نے تمام صورتحا ل فلاحی ادارے کی سینئر خاتون اور ٹرینر میڈم منگلیتا کو بتائی جس پر خاتون نے انہیں حوصلہ دیا ان کی ہمت بندھائی۔ کہ ہر مشکل کے بعد آسانی ہوتی ہے۔ انہوں نے مدد کی یقین دہانی بھی کرائی۔ اسی دوران تین ہفتے گزر گئے اور پریشانیوں میں اضافہ ہونے لگا پھر ایک دن میڈم منگلیتا نے اسے اپنے آفس میں بلایا اور مرچنڈائزنگ کے بارے میں بتانا شروع کیا، یہ ثریا کے لئے نیا نہیں تھا کیونکہ انہوں نے بہت کچھ اس بارے میں اپنے کورس کے دوران پڑھا تھا اس لیے جلد ہی اس بارے میں سیکھ کر ایک ماہ بعد ہی ثریا مشین آپریٹر سے مرچنڈائزر بن گئیں۔ تین مہینے گزر گئے اور اب اس کے شوہر نے تقاضا کرنا شروع کر دیا کہ اب تم یہ جاب چھوڑ دو اور اپنا کوئی کام شروع کرتے ہیں۔ ثریا نے میڈم منگلیتا سے عرض کی وہ کسی دن اس کے گھر آئیں اور شوہر سے بات کریں کہ وہ مجھے یہ نوکری کرنے دیں کیونکہ اس میں آگے بڑھنے کے بہت مواقع ہیں۔ میڈم منگلیتا کے بات کرنے کے بعد ثریا کے شوہر نے انہیں کام کرنے کی حمایت کردی۔

اب ثریا کو جاب کرتے تین سال سے زائد کا عرصہ گزر چکاہے اس دوران انہوں نے کمپنی کی طرف سے ہونے والی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لیا اور جس سے اس کی ذہن سازی اور فیصلہ کرنے کی صلاحیتوں میں کئی گنا اضافہ ہوا۔ اس کی جیتی جاگتی مثال ان کے اپنے شوہر ہیں جو اب خواتین کے کام کرنے کو اچھا سمجھتے ہیں بلکہ وہ اپنی بیوی پر فخر کرتے ہیں کیونکہ اب دونوں ہی روزگار میں مصروف ہیں، ان کے تینوں بچے اچھے اسکول میں پڑھ رہے ہیں اور اب وہ ایک خوشحال خاندان کی طرح آسودہ زندگی گزار رہے ہیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments