ہیرے جڑی چین کی گھٹن


”سنیں محترمہ“ مجھے پیچھے سے آواز آئی پلٹ کے دیکھا تو ایک عام سے لباس میں ملبوس نسبتاً پختہ عمر عورت کھڑی تھی۔ میں نے سوالیہ نظروں سے اس کی جانب دیکھا۔

”آپ کی چین (chain) پیچھے سے آپ کی گردن پہ زخم ڈال رہی ہے۔“

میں نے غیر ارادی طور پہ ہاتھ پیچھے لے جاکر چین سمیت گردن پہ ہاتھ پھیرا۔ ایک جگہ جلد سے انگلی مس ہوتے ہی شدید ٹھیس اٹھی۔ میں ہاتھ آہستہ سے آگے لے آئی جہاں اس سونے کی چین میں خوبصورت اور نازک سا ہیرا سجا ہوا تھا۔ میں نے تحقیر جتاتی نظروں سے معمولی لباس والی عورت کو گھورا اور آگے بڑھ گئی۔

میں جب سے اس شاپنگ مال میں آئی تھی یہی مشاہدہ کر رہی تھی کہ یہاں کا ماحول عجیب گھٹن زدہ سا تھا۔ کچھ عجیب بوجھل سی فضا تھی کہ سانس لینے میں دشواری ہو رہی تھی یا شاید یہ گھٹن اردگرد موجود لوگوں کی نظروں کی تھی۔ ہر آتا جاتا میری قیمتی چین اور اس میں سجے ہیرے کو گھور رہا تھا۔

سب کی طرح اس خاتون کو بھی نظر انداز کر کے کے برانڈیڈ پرسز کے آؤٹ لیٹ پہ داخل ہو گئی۔ میں نے نزدیک کھڑی ایک سیلز گرل کو اشارے سے قریب بلایا تاکہ سامنے سجے خوبصورت پرس کے حوالے سے کچھ معلومات لے سکوں۔ مگر سیلز گرل کی نظریں بھی میری چین پہ ہی تھیں۔ مجھے مزید الجھن ہونے لگی سانس مزید گھٹتا محسوس ہوا۔

”وہ میڈم۔ آپ کی چین“ اس نے ہچکچاتے ہوئے بات شروع کی ہی تھی کہ پیچھے سے دکان کی مینیجر آ گئی۔
”نورین آپ پلیز انہیں ڈیل کریں۔“ اس نے دکان میں ابھی ابھی داخل ہونے والی دو خواتین کی طرف اشارہ کیا۔
” وہ میری چین کے لیے کچھ کہہ رہی تھی۔“ میں نے ناگواریت اور تجسس کے ملے جلے احساس سے کہا۔

”جی جی میڈم آپ کی چین بہت نفیس اور خوبصورت ہے۔ ایسی چینز اکثر یہاں نظر نہیں آتیں۔ اصل میں وہ نئی سیلز گرل ہے اسے اندازہ نہیں کہ کسٹمر کو کس لہجے میں کمپلیمنٹ کرنا چاہیے۔ میں اس کی جانب سے معذرت خواہ ہوں۔“

میرے چہرے پہ غرور کی مبہم سی مسکان سج گئی۔ لیکن سانس میں ابھی بھی گھٹن ہو رہی تھی۔ تھوک نگلتے میں تکلیف ہو رہی تھی۔

”میڈم پانی!“ دکان کے اسٹاف کے یونیفارم میں ملبوس وہ لڑکا پتا نہیں کہاں سے ایک دم سامنے سے نمودار ہوا تھا۔ میں کسی قدر چونک گئی۔ اس کے چہرے پہ واضح پریشانی تھی۔ میں نے گلاس لے کے ایک ہی سانس میں سارا پانی پی لیا۔ کوشش کی کہ ایک دو گہرے سانس لوں تاکہ سانس بحال ہو سکے لیکن گھٹن مزید بڑھتی ہوئی محسوس ہوئی۔

”میڈم یہ چین اتار دیں۔“ لڑکے نے گلاس لے کر عجلت اور پریشانی سے کہا اور دوبارہ جیسے نمودار ہوا تھا اسی طرح سامان کے پیچھے کہیں غائب ہو گیا۔

مینیجر کسی قدر غصے میں اسی سمت بڑھ گئی جہاں لڑکا گیا تھا۔ میں نے چند لمحے کسی اور فارغ سیلز مین یا سیلز گرل کے لیے نظریں دوڑائیں اور کسی قدر جھنجھلاہٹ میں دکان سے نکل آئی۔ مجھے اب قدم اٹھانا مشکل لگ رہا تھا سانس اٹک اٹک کے آ رہا تھا۔ گردن کے گرد دکھن محسوس ہو رہی تھی۔ میں نے چین اور گردن کے بیچ انگلی ڈال کے چین کو گردن سے تھوڑا دور کرنے کی کوشش کی لیکن وہ عین میری گردن کے ناپ کی تھی۔ یا شاید تھوڑی تنگ، کیا فرق پڑتا ہے۔ میں نے سر جھٹکا اور دھوپ کے چشموں کی دکان میں داخل ہو گئی گئی۔

کچھ دیر تک مناسب چشمہ دیکھتی رہی پھر ایک چشمہ پسند آنے پہ اسے چہرے پہ سجا لیا اور آئینے کے سامنے آ گئی۔ چشمہ تو ٹھیک ٹھاک ہی لگ رہا تھا مگر چہرے کے نقوش بگڑے ہوئے سے لگ رہے تھے مجھے لگا شاید سیاہ لینز کا مسئلہ ہے۔ میں نے فوراً چشمہ اتار دیا۔ آئینے میں موجود میرا عکس اب بھی عجیب و غریب ہی تھا۔ رنگت نیلی ہو رہی تھی اور آنکھیں حلقوں سے باہر آ رہی تھیں۔ میں نے کانپتے ہاتھوں سے پرس سے فیس پاؤڈر نکال کے کئی بار چہرے پہ لگایا۔ گہرے رنگ کی لپ اسٹک کی دو تین تہیں دوبارہ لگائیں اور جلدی سے چشمے کی قیمت ادا کی اور آنکھوں پہ لگا لیا۔

دکان سے نکلتے ہوئے میرے قدم واضح لڑکھڑا رہے تھے۔ آنکھیں دھندلا رہی تھیں اور رہی سہی کسر تاریک چشمے نے پوری کردی تھی۔ میں نے دکان کا دروازہ تھام لیا۔ میری حالت دیکھ کر اردگرد کے کچھ دکان دار اور وہاں سے گزرتے خریدار قریب آ گئے۔

”محترمہ آپ کی چین آپ کی گردن پہ بہت تنگ ہے۔ شاید اس سے آپ کا سانس گھٹ رہا ہے۔“ ایک خریدار نے شائستہ لہجے میں آگاہ کیا۔

” ہاں بہن، یہ بھائی صاحب ٹھیک کہہ رہے ہیں، یہ چین اتار دو، ہم سب تمہاری مدد کریں گے۔“ قریب کھڑی ایک اور نفیس سی خاتون نے کہا۔ مجھے ان کی شکل جانی پہچانی لگی۔ یہ شاید وہی خاتون تھیں جنہوں نے پہلے بھی مجھے تنبیہ کی تھی۔ مگر اس وقت مجھے ان کی شخصیت کی نفاست نظر نہیں آ سکی تھی۔ حیرت یہ ہے کہ دھندلائی انکھوں سے یہ نفاست و ہمدردی واضح نظر آ رہی تھی۔ انہوں نے ہاتھ بڑھا کر گردن سے چین کھولنے کی کوشش کی۔ میں نے کمزور ہاتھوں سے ان کا ہاتھ پکڑ کے روکنے کی کوشش کی لیکن اب ہاتھوں سمیت جسم میں جان ختم ہوتی جا رہی تھی۔ میں نیچے بیٹھتی چلی گئی۔ وہ خاتون بھی میرے ساتھ نیچے بیٹھ گئیں۔ اردگرد موجود تمام نظروں میں موجود ہمدردی واضح نظر آ رہی تھی۔ انہوں نے چین کا ہک کھول کر ہٹانے کی کوشش کی تو اندازہ ہوا کہ چین کے سنہری پنجے میری گردن میں گڑے ہوئے تھے۔ میں تکلیف سے تڑپنے لگی۔ چین تھوڑی ڈھیلی ہوئی تو میرا سانس تیزی سے بحال ہونے لگا۔ مجھے پہلے بار احساس ہوا کہ گہری سانس لینے کا لطف کیا ہوتا ہے۔ قریب کھڑا ایک اور شخص اب اس خاتون کے ساتھ چین اتارنے میں مدد کرنے لگا لیکن وہ چین بری طرح گردن پہ پنجے گاڑے ہوئے تھے۔ وہ جتنا کوشش کرتے میں اور تڑپنے لگتی۔ میں نے ایک دم ان دونوں کو روک دیا اور چین کو دونوں ہاتھوں سے سختی سے تھام لیا اور زور سے جھٹکا دیا۔ چین میری گردن کی جلد ادھیڑتی ہوئی الگ ہو گئی۔ میں نے خوف زدہ ہو کر وہ چین دور پھینک دی۔ زمین پہ گرتے ہی وہ چین کسی کنکھجورے کی طرح لہراتی قریب پڑے ایک کوڑے دان کے پیچھے رینگ گئی۔

ابصار فاطمہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔ اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

absar-fatima has 115 posts and counting.See all posts by absar-fatima

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments