تندی باد مخالف (6)


مشیر صحت کے دورے کے بعد چوتھے روز ڈاکٹر مظہر، جنہیں ان وارڈوں کا سربراہ بتایا گیا گیا تھا، وارڈ راؤنڈ کے لئے آن پہنچے۔ ایک وارڈ کا راؤنڈ کیا تو حقیقت آشکار ہوئی کہ مریضوں کو ادویات تو کیا مناسب غذا بھی نہیں ملتی۔ وارڈ راؤنڈ کی تپسیا کے بعد وہ مجھے ساتھ لیے ہوئے ایم ایس کے دفتر جا دھمکے۔ میرے ساتھ ایم ایس کی چھوٹی چھوٹی سرحدی جھڑپیں ہوتیں تھیں لیکن آج تو گھمسان کا رن پڑ گیا۔ بھاری توپوں کے دہانے کھل گئے۔

بڑی شدید گولہ باری ہوئی۔ مجھے خطرہ تھا کہ کہیں اس گولہ باری کی زد میں آ کر میرا تیا پانچا نہ ہو جائے۔ جنگ کے نقصانات میں ضمنی نقصان (Collateral Damage) ایک لازمہ ہے۔ جب جنگ بندی ہوئی تو ایم ایس نے فرمایا کہ ہمارے پاس اتنے فنڈز نہیں ہیں کہ ہم مریض کی ادویات مہیا کر سکیں البتہ غذا کے بارے میں آپ ہسپتال کے باورچی خانہ میں جا کر بذات خود ہدایات دے سکتے ہیں۔ ہم دونوں کچن میں گئے، مگر ماہر غذائیات یعنی ڈائی ٹیشن (Dietician) ، میرا مطلب ہے ہیڈ باورچی (رکاب دار اعلیٰ) وہاں موجود نہیں تھا۔ چناں چہ ہم اپنی ہدایات سمیت واپس آ گئے۔ ڈاکٹر مظہر اس کے بعد ٹی بی وارڈز کے نزدیک بھی نہ پھٹکے۔

اگست 1979 ء کے وسط میں ایک اور میڈیکل افسر ان وارڈوں میں تعینات کر دیا گیا۔ مریضوں کو اس کا کوئی فائدہ ہوا یا نہیں البتہ میرا کام قدرے آسان ہو گیا۔ اس سے پہلے جو غلطیاں میں اکیلے میں کرتا تھا، اب ہم دونوں مل کر کرنے لگے۔ یکم ستمبر کو مجھے نیور و سرجری کے شعبہ میں بھیج دیا گیا۔ میں اگر چہ جنرل سرجری میں جانا چاہتا تھا لیکن میرے لئے یہ بھی غنیمت تھا۔ میرا گمان تھا کہ چار چھے ماہ یہاں کام کرنے بعد شاید میری باری جنرل سرجری میں آہی جائے۔

یہاں پروفیسر بشیر احمد سربراہ شعبہ تھے۔ پہلے اسسٹنٹ پروفیسر افتخار راجہ نشتر میڈیکل کالج ملتان چلے گئے تھے۔ ان کی جگہ اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر جاوید آ گئے تھے۔ سینیئر رجسٹرار ڈاکٹر عرفان تھے جو کراچی سے تھے۔ رجسٹرار، پروفیسر بشیر کے بھتیجے ڈاکٹر نذیر تھے، جنہوں نے میرے ساتھ ہی اسی ہسپتال میں ہاؤس جاب کیا تھا۔ میرے علاوہ ایک اور میڈیکل افسر ڈاکٹر اقبال اور دو ہاؤس سرجنز تھے۔ پروفیسر بشیر بہت اچھے منتظم اور نہایت سلجھے ہوئے متین شخص تھے۔

ڈاکٹر جاوید کم گو اور شریف النفس اور ڈاکٹر عرفان شرافت اور رکھ رکھاؤ کے پیکر تھے۔ نذیر سے تو پہلے سے واقفیت تھی لہذا اس ڈیپارٹمنٹ میں مجھے کسی قسم کی اجنبیت کا احساس نہ ہوا اور میں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کام کرنے لگ پڑا۔ میرا خیال تھا کہ میں اب سیدھی پٹری پر چڑھ گیا ہوں، منزل کو پا لینا مشکل نہیں ہو گا۔ مگر اے بسا آرزو کہ خاک شد۔

میں جب سے اس ہسپتال میں آیا تھا، ایم ایس سے بار بار کہہ چکا تھا کہ مجھے ہسپتال میں رہائش چاہیے تا کہ میں یکسوئی سے اپنے فرائض انجام دے سکوں۔ ایم ایس کا ایک ہی گھڑا گھڑایا جواب ہوتا کہ کوئی بھی رہائش گاہ خالی نہیں۔ ستمبر کے پہلے ہفتے میں ہی میں نے اپنا مطالبہ دہرایا تو فرمایا اگلے ہفتے ایک فلیٹ خالی ہو رہا ہے، مجھے یاد دہانی کرا دینا۔ اگلے ہفتے انہوں نے واقعی ایک فلیٹ مجھے الاٹ کر دیا۔ میں خوشی خوشی سارا دن کام کرتا رہا۔ شام کو جب فلیٹ دیکھنے گیا تو وہاں کوئی اور صاحب پہلے سے براجمان تھے۔ میں نے حیرت کا اظہار کیا اور انہیں کہا کہ یہ فلیٹ تو مجھے الاٹ کیا گیا ہے اور ساتھ ہی اپنا الاٹمنٹ لیٹر ان کے آگے کر دیا۔ وہ صاحب اندر گئے اور اسی فلیٹ کا اپنے نام کا تفویض نامہ مجھے دکھا کر کہنے لگے یہ مکان تو آپ سے پہلے مجھے الاٹ ہو چکا ہے۔ میں منہ لٹکائے واپس آ گیا۔ دو دن بعد ایم ایس سے ملاقات ہوئی تو عرض کیا، شاید آپ کو مغالطہ ہوا ہے، وہ فلیٹ تو پہلے ہی کسی اور کو دیا جا چکا ہے۔

نہیں، نہیں، اس ڈاکٹر نے مکان پر زبردستی قبضہ کر رکھا ہے۔ تم اس کا سامان اٹھا کر باہر سڑک پر پھینک دو اور مکان پر قبضہ کر لو، انہوں نے فرمایا۔ میرے پاس ایسا کون سا اختیار ہے کہ میں اس کا سامان اٹھا کر باہر پھینک دوں؟ میں کہہ رہا ہوں، میری طرف سے تمہیں اس کا اختیار ہے۔ “آپ ہسپتال کی سکیورٹی یا پولیس سے یہ کام کیوں نہیں کرواتے؟” یہاں سکیورٹی یا پولیس کی مداخلت کی ضرورت نہیں۔”
میں ماوس ہو کر وہاں سے چلا آیا۔ دو ہفتے بعد پھر ایم ایس کے دفتر میں گیا اور اسے بتایا کہ وہ ڈاکٹر ابھی تک وہیں ہے۔

تمہیں میں نے کہا تھا کہ اسے اٹھا کر باہر پھینکو اور مکان پر قابض ہو جاؤ مگر تم میری بات مانتے ہی نہیں۔

کسی کے گھر کا سامان اٹھا کر باہر پھینکنا میری ذمہ داری نہیں۔ یہ تو آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ مجھے فلیٹ خالی کروا کر دیں۔

اگر تم اسے باہر نہیں نکال سکتے تو اسے اپنے ساتھ رکھ لو۔
میں اسے اپنے ساتھ کیسے رکھ سکتا ہوں۔ یہ دو کمروں کا فلیٹ ہے، میرے ساتھ میری بیوی اور دو بچے ہیں۔

تم میری کوئی بات بھی نہیں مانتے۔ نہ تو تم اسے باہر نکالتے ہو اور نہ ہی اسے اپنے ساتھ رکھنے کے لئے تیار ہو۔ ایسے میں، میں کیا کر سکتا ہوں؟

میں ایم ایس سے مایوس ہو کر ہسپتال کے آفس میں چلا گیا۔ اس کلرک سے، جس نے مجھے الاٹمنٹ لیٹر دیا تھا، سے جا کر پوچھا کہ اس فلیٹ میں پہلے سے موجود ڈاکٹر کے پاس الاٹمنٹ لیٹر کہاں سے آ گیا؟

میں نے وہ ایم ایس کے کہنے پر جاری کیا تھا۔
اگر وہ فلیٹ آپ کسی اور کو الاٹ کر چکے تھے تو پھر اسے میرے نام کیوں الاٹ کیا؟
میں اپنی مرضی سے یہ کام نہیں کر سکتا۔ مجھے ایم ایس نے جیسے کہا، میں نے ویسے ہی کر دیا۔

وارڈ میں کام ٹھیک چل رہا تھا، بس یہ الجھن درد سر نبی ہوئی تھی۔ چند دن بعد پھر ایم ایس سے بات ہوئی۔ میں نے کہا کہ آپ اس ڈاکٹر سے فلیٹ خالی کروائیں یا مجھے کوئی اور مکان الاٹ کر دیں۔ فرمایا، یا تو تم اس ڈاکٹر سے قبضہ لو یا پھر اسے اپنے ساتھ رکھ لو۔

میں ان دونوں میں سے کوئی کام نہیں کر سکتا۔ تو پھر اس ماہ سے تمہاری تنخواہ سے مکان کا کرایہ کاٹ لیا جائے گا۔

یہ جانتے ہوئے کہ مکان مجھے ملا ہی نہیں تو کرایہ کیسے کاٹ لیا جائے گا، میں ایم ایس کی بات کو محض دھمکی سمجھا۔ لیکن ان صاحب کے اصول نرالے تھے۔ اکتوبر کے پہلے ہفتے میں تنخواہ ملی تو اس میں واقعی پچھلے ماہ کا کرایہ منہا کر لیا گیا تھا۔

پروفیسر بشیر کے وارڈ میں کام اور ان کے ساتھ تعلقات اچھے چل رہے تھے۔ لیکن ایم ایس کے رویے کی سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ اس صورت حال سے نبٹنے کے لئے مجھے کچھ بھی سوجھ نہیں رہا تھا۔ اکتوبر کے وسط میں پروفیسر بشیر سے پوری ٹیم کے سامنے اپنی مشکلات کا ذکر کیا اور کہا کہ ایم ایس میرے لئے روز بروز مشکلات میں اضافہ ہی کرتے چلے جا رہے ہیں۔ آپ ان سے بات کریں تاکہ وہ بلا وجہ مجھے پریشان نہ کریں۔

یہ تو بہت مشکل کام ہے، پروفیسر صاحب نے کہا۔ اس شخص سے کوئی منطقی بات نہیں ہو سکتی۔ اس کے اپنے ہی طور طریقے اور اصول ہیں، جنہیں کوئی بھی سمجھ نہیں سکتا۔

میں آپ کے ساتھ کام کر کے بہت خوش تھا۔ میں چاہتا تھا کہ آپ کے ساتھ رہ کر کچھ سیکھوں اور اس کے بعد جنرل سرجری میں چلا جاؤں لیکن مجھے ایسے ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ میں معذرت خواہ ہوں کہ میرے لئے اب اس ہسپتال میں کام جاری رکھنا ناممکن ہو گیا ہے۔ مجھے آگے بڑھنے کے لئے کسی اور راستے کا انتخاب کرنا پڑے گا۔ مجھے امید ہے کہ آپ میرے اس فیصلے پر آپ ناخوش نہیں ہوں گے۔

بھئی مجھے افسوس ہے کہ ایم ایس نے تمہارے ساتھ اس طرح کا رویہ اختیار کیا کہ تم دلبرداشتہ ہو کر ملازمت چھوڑنے کا سوچ رہے ہو۔ مجھے خوشی ہوتی اگر تم ہمارے ساتھ ہی کام کرتے رہتے۔ اگر تم جانا چاہتے ہو تو میں تمہیں بخوشی اجازت دیتا ہوں۔ جب بھی میری ضرورت پڑے تو رابطہ کر لینا۔ یوں میں نے اس ملازمت کو خیر باد کہہ دیا۔

اپنے ایک ہم جماعت، ڈاکٹر یونس شیخ جو گنگا رام ہسپتال میں کام کر رہا تھا، سے بات ہوئی۔ ہم پہلے سے ہی ایف آر سی ایس کرنے کے لئے آئرلینڈ جانے کا پروگرام بنا رہے تھے۔ اب اسے حتمی شکل دے ڈالی۔ روانگی کی تاریخ غالباً پچیس اکتوبر طے ہوئی۔ میں منگلا اپنے گھر آ گیا۔ میرے لئے ہفتہ عشرہ میں روانگی کے سارے لوازمات پورے کرنا ممکن نہ ہو سکا۔ چناں چہ یونس اکیلا ہی آئر لینڈ چلا گیا البتہ میرے ساتھ اس کا رابطے میں رہا۔ میں گھر میں فارغ تو نہیں بیٹھ سکتا تھا۔ راولپنڈی میں لال کڑتی کے ایک کونے میں بوسیدہ سی ایک عمارت میں بیٹھے بریگیڈیئر حیات سے ملاقات ہوئی۔ بریگیڈیئر صاحب آزاد کشمیر کے محکمہ صحت کے کرتا دھرتا تھے۔ میں نے اپنی خدمات انہیں پیش کر دیں۔ کہنے لگے آپ کی پوسٹنگ کہاں کی جائے؟

آزاد کشمیر میں محکمہ صحت پاکستان فوج کے زیر انتظام تھا۔ پورے آزاد کشمیر میں تین سی ایم ایچ مظفر آباد، راولاکوٹ اور میرپور میں تھے۔ ان ہسپتالوں میں آزاد کشمیر کے سویلین ڈاکٹر بھی کام کرتے تھے۔ اس کے علاوہ کچھ دیہی مراکز صحت تھے۔ میں کسی سی ایم ایچ، میں جانا نہیں چاہتا تھا کہ فوج کی اسیری کا اڑھائی سالہ تلخ تجربہ ہو چکا تھا۔ لہذا انہیں کہا کہ جہاں جی چاہے آپ مجھے بھیج دیں لیکن ایک شرط ہے کہ جہاں بھی آپ مجھے بھیجیں وہاں فیملی کے لئے رہائش ہونی چاہیے۔

بریگیڈیئر صاحب نے مجھے اس طرح داد دی گویا میں نے انہیں کوئی بر محل شعر سنا دیا ہے۔ کہنے لگے، میرے پاس جو بھی ڈاکٹر آتا ہے وہ یہ رپھڑ ڈال دیتا ہے کہ مجھے اپنی مرضی کے ہسپتال میں ہی جانا ہے۔ آپ پہلے ڈاکٹر ہیں جس نے اس طرح کا کوئی مسئلہ پیدا نہیں کیا۔ خدمت خلق اور حب الوطنی کا جذبہ ہو تو ایسا ہو۔ دوسرے ڈاکٹر آپ کی طرح کا جذبہ کیوں نہیں رکھتے۔ میں بالکل آپ کی شرط کا خیال رکھوں گا۔ ان کے الفاظ تھے : مجھ پر اعتماد کریں یہ ایک شریف آدمی کا وعدہ ہے (Take my words۔

This is a gentleman ’s promise) ۔ آپ ایسا کریں کہ ایک ہفتے بعد آجائیں، آپ کا پروانہ تقرری تیار ہو گا۔ میرے دل میں خدمت خلق کاجذبہ تھا یا نہیں، یہ میں نہیں جانتا البتہ میں جذبہ حب الوطنی کی تعریف سے ہی ناواقف تھا۔ میں ہفتے بعد پھر ان کے دربار میں حاضر ہوا تو انہوں نے پروانہ تقرری مجھے پکڑاتے ہوئے کہا، آپ تراڑ کھل چلے جائیں۔ وہاں اطلاع دی جا چکی ہے کہ آپ کہ آرہے ہیں۔

وہاں پر کیا ہے؟ میں نے پو چھا۔
ایک ایم ڈی ایس (Main Dressing Station) ہے۔
کیا وہاں فیملی کے لئے رہائش گاہ ہے۔

دیکھیں بھائی آپ نے فیملی کی رہائش گاہ کو کیا کرنا ہے۔ تین چار ماہ تو برف کی وجہ سے ادھر آمد و رفت کے راستے ہی بند رہتے ہیں۔

لیکن سر آپ نے تو کہا تھا کہ (Take my words۔ This is a gentleman ’s promise)
اگر ایسی بات ہے تو وہاں قریب ہی ایک ریسٹ ہاؤس ہے۔ آپ وہاں جاتے ہی اس پر قبضہ کر لیں۔
کیا یہ ریسٹ ہاؤس آپ کے زیر انتظام ہے؟
نہیں ہمارے زیر انتظام نہیں۔ یہ کسی اور محکمے کا ہے، مگر آپ جا کر اس پر قبضہ کر لیں۔

ایم ڈی ایس میرے لئے سی ایم ایچ سے بھی بد تر جگہ تھی۔ گویا میں جہاں سے جان چھڑا کر بھاگا تھا، فوج کا وہی اسی پونڈ کا خیمہ میرا پھر سے منتظر تھا۔ لاہور میں بھی تو ایک فلیٹ پر قبضہ نہ کر سکنے پر مجھے ملازمت چھوڑنی پڑی تھی۔ اب پھر اسی طرح کی صورت حال سامنے تھی۔ میں اتنے بڑے افسر کی چرب زبانی، خوشامدانہ گفتگو، چالاکی، چالبازی اور حیلہ سازی پر دم بخود رہ گیا۔ میں وہاں سے اٹھ کر آ گیا۔ پروانہ تقرری کے پرزے پرزے کر کے ایک نالی میں بہا دیے اور راولپنڈی میڈیکل کالج میں چلا گیا۔ اتفاق سے فزیالوجی کے شعبہ میں ڈیمانسٹریٹر کی جاب خالی تھی اور پروفیسر نواز صاحب بھی مجھے کالج کے زمانے سے جانتے تھے۔ انہوں نے جھٹ سے میری تقرری اپنے ڈیپارٹمنٹ میں کروا دی۔ میں نے دوسرے دن سے کام شروع کر دیا۔

کام چل نکلا۔ البتہ میں اب بھی برطانیہ سے ایف آر سی ایس (فیلو آف رائل کالج آف سرجنز) کرنے کا خواہش مند تھا۔ میں ہر روز برطانیہ جانے کے ارادے باندھتا اور توڑتا تھا۔ یعنی ہر روز روزہ رکھتا اور عصر کے وقت اسے توڑ دیتا۔ شب و روز گزرتے رہے، برطانیہ جانے کے ارادے متزلزل ہوتے رہے۔ مارچ 1980 ء کے دوسرے ہفتے کے اختتام پر گھر آیا ہوا تھا۔ میرپور سے دو نوجوان مجھے تلاش کرتے ہوئے وہاں آن پہنچے۔ ان کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ عبدالحمید دیوانی لاہور میں گرفتار ہو چکے ہیں اور دوسرے ساتھیوں کے گرفتار ہونے کا خطرہہے۔ لہذا آپ جلد سے جلد برطانیہ روانہ ہو جائیں۔

سید عبدالحمید دیونی کا تعلق مقبوضہ کشمیر کی وادی سے تھا وہ اپنے چھ ساتھیوں محمد رفیق مفتی ’خواجہ غلام نبی، غلام رسول، عبد الرشید ملک اور محمد احسن راتھر کے ساتھ 10 ستمبر 1976 ء کو بھارت کا ایک طیارہ اغوا کر کے لاہور لائے تھے۔ یہ سبھی کشمیر کی آزادی کی تحریک کو دنیا سے روشناس کرانا چاہتے تھے مگر لاہور ائر پورٹ پر گرفتار کر لئے گئے۔ تقریباً دو سال تک پاکستان کی جیلوں میں پڑے رہے۔ غالباً گلگت بلتستان کی چلاس جیل سے رہائی پا کر میرپور آئے تھے اور بے یار و مدد گار تھے۔

ہم چند دوستوں نے انہیں بے آسرا جان کر پناہ دی تھی۔ ان کے لئے کھانے پینے اور دو خیموں کا بندو بست کیا تھا۔ آزادی کا جذبہ ہم بھی رکھتے تھے مگر حقائق سے بے خبر ہونے کی وجہ سے اس خام خیالی میں مبتلاء تھے کہ مسئلہ کشمیر، کشمیریوں کے حق خود ارادیت کا مسئلہ ہے۔ چوں کہ ہندوستان کشمیر پر ایک غاصب قوت ہے، لہذا اس سے آزادی حاصل کرنا ہمارا اولیں فریضہ ہے۔ اس سے آزادی کے بعد ہمارے سارے دلدر دور ہو جائیں گے۔

دیوانی اور ان کے رفقاء سال بھر سے ہماری کفالت میں تھے۔ کچھ دوستوں نے تین ماہ قبل مجھ سے عبدالحمید دیوانی کو واپس مقبوضہ کشمیر بھیجنے کی بات کی تھی۔ میں نے انہیں سختی سے ایسا کرنے سے منع کیا تھا۔ میرے دوستوں اور خود عبدالحمید دیوانی کو بھی یہ احساس نہیں تھا کہ وہ دونوں اطراف میں نگرانی کے اداروں کے ریڈار پر ہیں اور اب ان کے لئے واپس جا کر عملی طور پر کچھ کرنا ممکن نہیں۔ ویسے بھی بندوق اٹھانے کے لئے مضبوط کندھے کی ہی ضرورت نہیں ہوتی، اس کی باز جست (دھکے ) کو برداشت کرنے کے لئے سکت اور ہمت بھی درکار ہوتی ہے۔

ہم تو بندوق کی صدائے باز گشت یا رد عمل کا سامنا کرنے کے قابل نہیں تھے۔ میں اپنی جگہ مطمئن تھا کہ میرا مشورہ مان لیا گیا ہے لیکن یہ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ کچھ جذباتی دوست دیوانی کو واپس بھیجنے کی منصوبہ بندی کر چکے ہیں۔ اب اس کا نتیجہ لاہور میں دیوانی کی گرفتاری کی صورت میں ظاہر ہوا تھا۔ اس کے اثرات سب پر پڑنے کا امکان تھا۔

اس صورت حال پر میں بہت پریشان ہوا۔ ناکردہ گناہ میں دھر لیے جانے امکان تھا۔ میں برطانیہ جا سکتا تھا لیکن آج تک اس سلسلے میں مصمم ارادہ نہیں کر سکا تھا۔ جب بھی ارادہ کرتا، میرے دونوں بیٹے میرے راستے کی دیوار بن جاتے۔ میں آج بھی اسی شش و پنج میں مبتلاء اپنے گھر کے پچھواڑے کی کھڑکی کھولے، بظاہر باہر کھیتوں میں لہلہاتی فصل کو دیکھ رہا تھا، لیکن میرا ذہن وہاں سے کوسوں دور تھا۔ مجھے پتہ بھی نہ چلا کہ کب میرے پھوپھی زاد بھائی کمرے میں آئے اور آ کر میرے پیچھے کھڑے ہو گئے۔ وہ دیر تک مجھے خیالوں میں گم حیرت سے دیکھتے رہے۔ آخر ہلکے سے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور پوچھا، کن خیالوں میں گم ہو؟ میں نے چونک کر پیچھے دیکھا اور کہا:

اسی تذبذب کا شکار ہوں کہ برطانیہ جاؤں یا نہ جاؤں۔ جانا چاہتا ہوں لیکن بیوی بچوں کا سوچ کر ہمت جواب سے جاتی ہے۔

کیا ہم مر گئے ہیں جو تم اس طرح سوچتے ہو۔ یہاں میں ہوں، تمہارے ماں باپ اور دو بھائی ہیں۔ برطانیہ میں تمہارے بڑے بھائی ہیں۔ تمہیں فکر کس بات کی ہے؟ جاؤ اور ضرور جاؤ۔ اگر تم نہ گئے تو تمہیں ساری عمر اس کا قلق

رہے گا۔ اگر جاؤ اور ناکام لوٹ آؤ، تب بھی تمہارے دل میں اس کی حسرت نہیں رہے گی۔

بھائی صاحب سابقہ فوجی تھے، کوئی بہت پڑھے لکھے نہیں تھے لیکن ان کی باتوں نے میری ڈھارس بندھائی۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے یہ الفاظ ’کیا ہم مر گئے ہے‘ میرے لئے فیصلہ کن ثابت ہوئے۔ میں ٹھیک بارہ دن بعد یعنی 27 مارچ 1980 ء کو برطانیہ پہنچ گیا۔ لیکن بھلا ہو دیوانی صاحب کا کہ انہوں نے ساری بلا اپنے سر لے لی اور اس طرح ’ستون دار پہ رکھتے چلو سروں کے چراغ‘ کی نوبت ہی نہ آئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments