جو دسترس میں ہے اس کو الزام دینا


ڈھائی سال پہلے کی بات ہے۔ جب میں نے بارہویں پاس کی تو مجھے زندگی کا ایک اور قدم اٹھانا تھا، لیکن اسی قدم کے لئے میں نے خود کو کسی بھی طرح سے تیار نہیں کیا تھا۔ بارہویں تک میں نے پڑھائی، لکھائی کو کوئی وقت نہیں دیا ہے اب افسوس ہو رہا ہے کہ کاش شروع سے ہی پڑھ لیتے، اچھا تو مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اب کرنا ہے تو کیا کرنا ہے؟ آخر کار بنا کچھ تیاری اور منصوبہ بندی کے میں نے قریب فاصلے میں پڑتی یونیورسٹی میں ایڈمشن لے لیا، جو فیلڈ میں نے خود کے لیے چار سال کے لئے چنا اس کے بارے میں انتہائی کم میں جانتا تھا۔

یونیورسٹی میں ایڈمشن کے بعد میرا رجحان دھیرے دھیرے پڑھائی کی طرف بڑھتا چلا گیا، اور اب مجھ پر ایک ایسا وقت آ پہنچا ہے کہ میں ہر چیز میں علم ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہوں۔

ہماری چھوٹی سی یونیورسٹی نے مجھے اس قابل بنا دیا ہے کہ ہم بہن بھائی ماں کے گرد جب شام کے بعد کچھ لمحات باتوں کے لئے بیٹھتے ہیں تو میں کبھی کبھار اپنی ماں سے کہتا ہوں کہ اگر میں باہر کی کسی اچھی یونیورسٹی میں ایڈمیشن لیتا تو اب میں بہت آگے چکا ہوتا، اب کے مقابلے میں بہت کچھ سیکھا ہوتا۔ لیکن پھر بعد میں مجھے احساس ہوتا ہے کہ یہ اب آپ نا شکری کر رہے تھے، تو میری ماں بغیر پڑھی لکھی ہوئی مجھے کہتی ہے۔ کہ آپ کے گاؤں میں جو ڈاکٹر ہے انہوں نے باہر نہیں پڑھا ہے بلکہ گاؤں کے یہ گورنمنٹ سکولوں سے پڑھ کر اس مقام تک جا پہنچے ہیں۔

اگر کسی نے پڑھنا ہوتا ہے تو وہ سخت سردی اور دھوپ میں بھی پڑھ لیتے ہیں۔ اگر کسی نے نہیں پڑھنا ہوتا ہے تو وہ اے سی والے کمروں میں ریشم کی پلنگ پر بیٹھ کر بھی نہیں پڑھ سکتے، سو وہ مجھے کہتی کہ آپ چھوٹی بڑی، اچھے برے کی فرق سے نکلے جو آپ کو میسر ہے اس میں سے پڑھے، اور ایسا پڑھے کہ کل آپ جس جگہ پڑھنا چاہتے ہو وہ جگہ آپ کے دسترس میں ہوں۔

ہمارا ایک کلاس فیلو ہے۔ جو خود سے زیادہ میسر سہولیات کو الزام دیتا ہے۔ مثال لے لیجیے کہ اس کو اخبار اور کتابیں ہر وقت میسر ہو وہ کہے گا کہ یہ انٹرنیٹ سلو کیوں ہے؟ میں تو انٹرنیٹ سے پڑھتا ہوں۔ ایک استاد تفصیل اور گہرائی کی مفید چیزیں ان کے سامنے رکھتا ہوں یہ کہے گا کہ یہ سر کیا کچھ پڑھ رہا ہے۔ ہمیں ضرورت ہی نہیں اتنی گہرائی کے ساتھ پڑھنے کی، سو اس نے ہمیشہ میسر سہولیات کو الزام دیا ہے۔

چونکہ ہم کمیونیکیشن والے ہیں۔ تقریباً تمام اساتذہ کے ساتھ کلاس کے آخیر حصے میں مختلف موضوعات پر باتیں ہوتی رہتی ہے۔ تو ہمارا وہ کلاس فیلو ہمارے ایک استاد کو کہتا ہے کہ ہم اگر اسلام آباد یا لاہور میں ہوتے اور وہاں پڑھتے تو ہم اس طرح نہیں ہوتے، تو ہمارا وہ استاد ہم سب کو کہتا ہے کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ ہم ازل سے ہی چیزوں کو الزام دیتے آ رہے ہیں۔ ہماری جو چیزیں دسترس میں ہوتی ہیں جس سے ہم سیکھ سکتے ہیں۔

اس سے ہم سیکھتے کیوں نہیں ہے؟ اور ہم ان چیزوں کا رونا کیوں روتے ہیں؟ جو ہمارے رسائی میں نہیں ہوتیں، میں یہ نہیں کہتا کہ آپ کو سیکھنے کے لئے جو چیزیں درکار ہوتی ہے وہ آپ کو میسر نہ ہو بلکہ میں یہ کہتا ہوں کہ اگر آپ کی ایک چیز پہنچ میں نہیں تو آپ ساری عمر اس چیز کی رونا دھونا نہ کرے بلکہ اس کی متبادل راستہ سیکھنے کی اختیار کرے

مثال کے طور پر اگر آپ لوگ کہتے ہیں کہ انٹرنیٹ آپ لوگوں کی پہنچ میں نہیں تو لائبریری جا کر اخبارات پڑھیں، کتابیں پڑھیں وہ تو آپ کی پہنچ میں ہے تو آپ لوگ کیوں نہیں پڑھتے؟ دوسری طرف آپ لوگ دعویٰ کر رہے ہیں کہ پڑھنا ہمارا مقصود ہے یا یہ سمجھا جائے کہ آپ کوئی شوق نہیں رکھتے پڑھنے کا بلکہ آپ لوگ نہ پڑھنے کے بہانے ڈھونڈتے ہیں۔ انٹرنیٹ سے صحافت کے طالب ہو کر آپ لوگ حالت حاضرہ پر نظر رکھیں گے، تاریخ کو ٹچ دیں گے، اسلامی سکالر کو دیکھیں گے، تو اس کے لیے آپ کے پاس ایک ایسا راستہ جس سے آپ جو کچھ سیکھ سکتے ہیں کہیں اور سے نہیں سیکھ سکتے، یعنی اخبارات جو حالت حاضرہ پر مبنی ہوتے ہیں۔ کتابیں ہر قسم کی آپ کو مل سکتی ہے۔ کتابوں سے جتنا ایک انسان سیکھ سکتا ہے اس سے بہتر اور سادہ طریقہ کوئی نہیں ہے۔

کچھ لوگ تو میسر کو یہ الزام بھی دیتے ہیں کہ یہ انسانی فطرت ہے۔ کہ وہ ہمیشہ اپنے دسترس کی چیزوں کو الزام دے کر جان بچائے گا۔ پر یہ انسانی فطرت بالکل نہیں ہے اور ہاں یہ پاکستانیوں کی فطرت بن چکی ہے۔ ہم عام لوگ سیاستدانوں، جرنیلوں اور بیوروکریٹ کو یہ الزام تو دیتے ہیں کہ یہ لوگ کام نہیں کرتے، کرپشن کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ

کام کون کرتا ہے یہاں؟ کرپشن کون نہیں کرتا یہاں؟ ملک اور کام کے ساتھ کون مخلص ہے یہاں؟ سیاستدان اپنی حیثیت کو دیکھ کر کرپشن کرتا ہے جرنیل اپنی حیثیت کو،

ایک عام میرے اور آپ جیسا شخص اپنے مطابق کرپشن کرتا ہے۔ جس کو جتنا ملتا ہے بس لوٹنے کے لئے اپنی تابعداری دکھاتا ہے۔

ہم جب خود ہی ٹھیک نہیں ہیں  تو دوسروں کو کس منہ سے یہ کہتے رہتے ہیں کہ آپ لوگ کام نہیں کرتے، ہم حکومت سے گلہ کرتے ہیں کہ حکومت روڈوں، بازاروں پر سے کچرا نہیں اٹھاتی، لیکن انہی لوگوں کو میں نے اپنے ان گناہگار آنکھوں سے دیکھا ہے کہ یہ جدھر کھاتے ہیں ادھر ہی پھینک جاتے ہیں۔ گندگی پھیلاتے ہیں خود اور پھر الزام دیتے ہیں حکومت کو کہ وہ کام نہیں کرتے، بعض جگہوں پر ہمیں حکومت کی طرف سے ایسے چیزیں میسر ہوتی ہے، جس کو خراب کرتے ہیں ہم خود اور پھر الزام لگاتے ہیں کہ یہ حالات ہے حکومت کی کاموں کا۔

جس دن ہم نے اپنے دسترس کی چیزوں کو محبت دینا شروع کیا، حفاظت کرنا شروع کیا اور انہیں چیزوں پر رضا مندی ظاہر کی، وہی دن ہماری کامیابی کا اول دن ہو گا اور اسی ہی دن سے یہ نظام ٹھیک ہونا شروع ہو جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments