پیلا صحافی اور مارشل لاء کے فضائل


 بیرون ممالک باقاعدہ مہ نوشی کےلیے باقاعدہ میکدے بنے ہیں۔ جو میکدہ کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتے اپنے گھر میں پیتے ہیں۔ لڑکھڑاتے جسم اور بیوقوفانہ باتیں کرتے بہت کم لوگ عوامی جگہ پہ دیکھے جاتے ہیں ۔ جبکہ پاکستان جیسے اسلامی ملک میں میکدوں پہ پابندی ہے۔ مذہب میں ویسے بھی نشہ حرام ہے، مگر پھر بھی لوگ نشہ کرتے ہیں۔ نشہ کرنے کے بعد یہی لوگ مین سٹریم میڈیا پہ آکے کچھ بھی اناب شناب بک جاتے ہیں۔ کیونکہ میں سمجھتا ہوں گالی کہی نہیں، بکی جاتی ہے۔ ہر بکی ہوئی چیز اتنی ہی حرام اور غلیظ ہوتی ہے جتنی جسم کی غلاظت ہوتی ہے۔ کل برصغیر کے مایہ ناز خود پسند پیلے صحافی مارشل لاء کے فضائل بتا رہے تھے۔ ان فضائل کو سن کے میں دنگ رہ گیا۔ شدید افسوس بھی ہوا، کیونکہ ہمیں وہ شعر یاد آرہا تھا
پتھروں آج میرے سر پہ برستے کیوں ہو
میں نے تم کو بھی، کبھی اپنا خدا رکھا ہے
مجھے یہ شخص کسی زمانے میں بہت اچھا لگتا تھا۔ مگر دو ہزار گیارہ کے بعد سے میں نے اسے مکمل طور ایک جہلاء کا آئی جی سمجھ لیا۔ یہ شخص جب ہوش میں ہوتا ہے تو اپنے اوپر واۓ کرتا ہے۔ حالانکہ مجھ جیسے سطحی دماغ کو اس کاٹھ کے گھوڑے کا پتہ تھا۔ تو اس جیسے جید دماغ چغد کیسے ہوسکتے ہیں؟ خیر موجودہ حکومت کو سپورٹ کرنے کے لیے بہت سے لوگوں نے مار کھائی ہے۔ ابھی تک بہت سے باریش مگر شدید زرد صحافی ان سے امید لگائے بیٹھے ہیں۔ یہ امید کٹوں، مرغیوں ، بچھیروں سے ہوتی ہوئی شہد کی دکان پہ پہنچی تھی۔ تو سوچا گیا کیوں نہ روحونیت (روحانیت) کا چورن بیچا جاۓ۔ جو شخص پوری زندگی فلاسفی کے interpretism پہ گزار چکا ہے۔ وہ فلاسفی کے اس پہلو کو بھی محض انالوجی تک رکھے۔ مخصوص لوگوں سے ڈیٹا لے کے پورے میڈیا چینلز کو PTV بنا دیا گیا ہے۔ جہاں اپنی مرضی کی تھیوری پیش کر کے منوانے والے نے تباہی و بربادی کی نئی تاریخ رقم کردی ہے۔ اب جب روحونیت سے کچھ نہ بن سکا تو خاندانی نظام پہ لیکچر دینے شروع کردئیے۔ جسے پیلی صحافت نے مکمل طور دلہن کی طرح پیش کیا۔ حالانکہ یہ بدصورت ڈائن  نے جمہوری نظام کو مکمل تباہ برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ انکے پاس عوام کے ریلیف کےلیے ایک مائکرو لیول پہ کام نہیں ملے گا۔
ڈکٹیٹر نے اپنا پنجہ مضبوط کرنے کے لیے عوامی کرسی پہ ایسا شخص بٹھا دیا ہے۔ جو عوامی کرسی کی توہین ہے۔ میرے ووٹ کی اہانت کردی ہے۔ میرے ووٹ کی جو خصوصیات ہیں ، اس بنیاد پہ ایک شخص بھی پارلیمنٹ میں نہیں بیٹھا۔ ہم ارتقائی دور سے گزر رہے ہیں۔ اس دور میں واحد حل ووٹ ہے۔ یہ ووٹ اگر فری اینڈ فئیر الیکشن سے ممکن ہے۔ یہ ووٹ فلٹر لگا دیتا ہے۔ جو پرفارم نہیں کرے گا۔ وہ گھر جاۓ گا۔ یہ زرد صحافیوں کی قبیل سول ڈکٹیٹر کے کندھے سے کندھا ملا کے کھڑے ہیں۔ یہ چڑیل کو حور بنانے کے چکر میں ہیں۔ انہوں نے نالائق قبیل مسلط کرنے کےلیے مکمل ایک فضا بنائی تھی۔ جیسے فنانس کے ارسطو اعظم کے بارے میں یہ خیال تھا کہ انتہائی لائق پچھتر لاکھ تنخواہ لیتا ہے۔ ایک تیز چیخ والا شخص جس کے چہرے پہ درد کی مستقل شکن تھیں۔ دوسو ارب ڈالر چلاتا تھکتا نہیں تھا۔ کبھی IMF کے بدلے خودکشی کی دھمکی ملتی تھی۔ جنہیں ایک سو چار روپے کا ڈالر، ایک سو چوراسی سے زیادہ مہنگا لگتا تھا۔ جنہیں پانچ اعشاریہ چھے پہ اکانومی منفی سے اکانومی سے زیادہ بری لگتی تھی۔ جو عوامی ووٹ کو اپنے بچوں کے دودھ کا چور گردانتے تھے۔ ان سب شخصیات نے مل کے میرے ووٹ کی عزت کا جنازہ نکالا ہے۔ انہوں نے عوامی ایلیٹ کرسی پہ ایک بدحال ووٹ چور بٹھایا ہے۔ ایسے جاہلوں کو ڈکٹیٹر جان بوجھ کے عوامی کرسیوں پہ بٹھاتا ہے۔ تا کہ وہ یہ بتا سکے۔ یہ عوامی لوگ شدید نااہل کرپٹ اور جاہل ہیں۔یہ ڈکٹیٹر ہمارے ووٹ کی عزت کا ریپ کرتا ہے. یہ غلیظ گالی بکنے والے، جنکی سوچ محض گلی محلے کے گٹر جتنی تنگ ہے جو ذرا سی بارش/تنقید سے ابلنے لگتی ہے۔ وہ عوامی کرسیوں پہ بیٹھے ہیں۔ جنہیں زرد صحافی روزانہ اپنی ریٹنگ بڑھانے کےلیے بلاتے ہیں۔ جنکے پاس ذاتی پرفارمنس صفر ہے۔ بس ایک تقریر جس پہ پرانے حکمرانوں کے بارے میں ہرزہ سرائی سے آگے کچھ نہیں۔ ایسے جہلا کے لیے محسن بھوپالی کی غزل کا یہ شعر بہت ہے۔
میخانے کی توہین ہے رندوں کی ہتک ہے
کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جاۓ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments