کیا آپ بیلی پور کے بالشتیے فلسفی حسن نثار کو جانتے ہیں؟


نرگسیت کا شکار حسن نثار کی شخصیت تضادات کا مجموعہ ہے جو اپنے اینگر کو بطور فیشن دوسروں پر رعب جمانے کے لیے اکثر استعمال کرتے رہتے ہیں اس ڈر سے کہ کہیں مخاطب بندہ ان کی نرم گوئی سے فائدہ اٹھا کر کوئی ایسا سنجیدہ سوال نہ پوچھ لے جس کا جواب دیتے وقت انہیں اپنی پوری فلاسفی جھا ڑنے کا موقع نہ ملے اور سکرین پوز کا انداز “ماٹھا” رہ جائے۔ کیونکہ حسن نثار صاحب ایسی نرگسیت زدہ شخصیت کے مالک ہیں جو اپنی بیسمنٹ میں قید ہو کر اپنی ہی ٹی وی پرفارمنس کو بار بار دیکھ کر خوش ہوتے رہتے ہیں اور خود ہی خود کو گریڈ دیتے رہتے ہیں۔

ان کا پولیٹیکل وزڈم اتنا زبردست ہے کہ ان کو آمرانہ دور بہت اچھا لگتا ہے اور سیاسی ادوار میں انہیں بڑے بڑے کیڑے نظر آتے رہتے ہیں ۔اپنے شاہی بیسمنٹ کے بارے میں ان کی عاجزانہ رائے یہ ہے کہ “بیسمنٹ میں رہنے کا میرا مقصد قبر کی تیاری کرنے کی ریہرسل ہے” جبکہ زبان پر نفرت کے اتنے کانٹے ابھرے ہوئے ہیں کہ اپنے سوا کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا اور خود نمائی کا اتنا شوق کے ٹی وی سکرین پر بار بار اپنی کلائی پر بندھی ہوئی مہنگی ترین گھڑی دکھانے میں مصروف رہتے ہیں اور اپنے انٹرویوز میں یہ بات بڑے زور و شور سے بتاتے ہیں کہ میں “تنہائی پسند ہوں چند دوستوں کے علاوہ کسی سے بھی ملنا پسند نہیں کرتا” مزے کی بات یہ ہے کہ وہ چند دوست ان کے اپنے رکھے ہوئے بھانڈ ہوں گے جو ان کے ارشادات پر واہ واہ کرنے کا کردار نبھاتے رہتے ہوں گے جس سے ان کے اپنے اندر چھپے ہوئے دانشور کی تشفی ہو جاتی ہے چونکہ بھانڈ کی ذہنی رسائی چٹکلوں تک محدود ہوتی ہے۔

جس بندے کا ایکسپوژر ٹی وی سکرین یا ذاتی بیسمنٹ تک ہو، کیا وہ ایسے بندوں پر انگلی اٹھا سکتا ہے جن کا مرنا جینا ہی عوام کے ساتھ ہو اور جو دن رات عوام کے مسائل سن کر اپنے تیئں حل کرنے کی کوشش اور نہ ہونے کی صورت میں اسی عوام کے سامنے جوابدہ بھی رہتے ہوں؟ ڈرائنگ روم انٹیلیکچوئل بننے میں تو کوئی محنت نہیں لگتی صرف اپنے بیک گراؤنڈ میں فلسفے کی موٹی موٹی کتابیں ایک فریم میں سجانا پڑتی ہیں اور کچھ جینوئن دانشوروں کے ساتھ محض اتفاق سے کھنچوائی ہوئی تصاویر کو اپنے کمرے میں لٹکانا پڑتا ہے تاکہ جب سکرین آن ہو تو ایسا لگے کہ آپ واقعی جینوئن دانشور ہیں کیونکہ بیک گراؤنڈ میں آپ کے تشہیری نمونے موٹی موٹی کتابوں کی صورت میں موجود ہوتے ہیں اور تصاویر تعویذ کی مانند دیواروں پر آویزاں ہوتی ہیں۔

اسی رعب و دبدبہ، بناوٹی دانشوری اور مصنوعی بیک گراؤنڈ میں مقید ہو کر حسن نثار نے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ “ملک میں ایک تسلسل کے ساتھ آمریت ہونی چاہیے جس میں کسی قسم کی جمہوری مداخلت نہیں ہونی چاہئے اور جو سیاستدان بھی جمہوریت کا نام لے، اسے فائرنگ سکواڈ کے آگے کھڑا کر کے اڑا دیا جائے اور گولیوں کا خرچ بھی اس کے گھر والوں سے وصول کیا جائے۔ جابر حکمران ہی اصل حکمران ہوتے ہیں اور میری نظر میں آمریت کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے” یہ اس بونے اور مصنوعی دانشور کی زبان ہے جو ہر وقت انگارے اگلتی رہتی ہے ۔

حقیقی دانشور تو سماج کا آئینہ ہوتے ہیں جو کبھی مرنے مارنے کی باتیں نہیں کرتے بلکہ مایوسی کے اندھیروں کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے امید کا دیا جلائے رکھتے ہیں ۔ اس بندے کا المیہ یہ ہے کہ یہ تیسری جمہوری طاقت کے وجود کا بہت حامی تھا اور اپنی دانشوری کے چکر میں عمران خان کو گود لے بیٹھا اور پی ٹی آئی کی اصلاح کرنے کی خاطر اپنے بیسمنٹ کو چھوڑ کر تحریک انصاف کے کنوینشن سنٹر اور ان کے کنٹینر تک بھی جا پہنچا اور اپنے کالموں میں عمران خان کا ایک ایسا مقدس مجسمہ بنا ڈالا کہ لوگوں کو یقین ہو گیا کہ اب تو ہر صورت اس ملک کا کچھ نا کچھ ضرور بھلا ہو گا۔

کیونکہ ہمارے معاشرے میں دانشوری کا لٹمس ٹیسٹ اڑھائی تین انچ کی ٹی وی سکرین، الماری میں سجائی ہوئی موٹی موٹی کتابیں اور بیسمنٹ میں تعویذوں کی طرح لٹکائی ہوئی گزرے ہوئے دانشوروں کی تصاویر ہوتی ہیں اور اس خود نمائی کے فریم میں حسن نثار فٹ بیٹھتے ہیں اور لوگ ان کے دکھائے ہوئے خوابوں کے چکر میں پھنس گئے اور آج اس خواب کی تعبیر بھگت رہے ہیں ۔ اب حسن صاحب سے ان حسین خوابوں کے متعلق تیکھے تیکھے سوالات پوچھے جاتے ہیں تو حقیقت کا سامنا کرنے کی بجائے اپنے روایتی مصنوعی غصہ کا اظہار کرتے ہوئے گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں اور انہی مصنوعی کوششوں کے دوران بو کھلاہٹ میں سہی مگر اپنے دل کی بات کہہ ڈالتے ہیں اور آج کل تو اتنے فرسٹریٹ ہو چکے ہیں کہ مرنے مارنے کی باتیں کرنے لگے ۔

بنیادی وجہ یہ ہے کہ “غصیلے دانشور” کی پیشگوئی بہت ہی برے طریقے سے غلط ثابت ہو گئی۔ اصل نجومیوں کی بھی پیش گوئی کم ازکم دس یا بیس فیصد تک درست ثابت ہو جاتی ہے مگر اس نجومی کی پیش گوئی کی تو لٹیا ہی ڈوب گئی اور کسی چینل پر یہ بیان بھی داغ دیا کہ ” عمران خان کو پندرہ سال مسلسل اور مل گئے تو یہ ملک کی تقدیر سنوار دیں گے ” خدا کا خوف کریں حسن صاحب کیا اب آپ یہ چاہتے ہیں کہ ہم آپ کی ایک اور پیش گوئی پر بھروسہ کر لیں؟

آپ کی ذہنی صحت پہلے اتنی بری نہیں تھی جتنی آج ہو چکی ہے۔ مغربی نظاموں اور جمہوری رویوں کی تعریف کرنے والا حسن نثار اتنا مایوس ہو جائے کہ وہ آمریت کو مثالی نظام سمجھنے لگے اگر آپ کو 72 سال کی عمر کے بعد آمریت پسند آنے لگی ہے تو آپ کو سائیکاٹرسٹ سے رابطہ کرنا چاہئے کیوں کہ جمہوری نظام جتنا بھی کمزور ہو اگر اسے پوری مدت ملے اس میں نکھار آنے لگتا ہے چونکہ اس سسٹم میں عوام براہ راست ملوث ہوتے ہیں اور ہر مدت کے بعد انہی کے منتخب نمائندے ووٹ لینے کے لیے عوام کی عدالت میں پیش ہوتے رہتے ہیں اور عوام سے بہتر کوئی جج نہیں ہوتا۔

اب سوچنا ہوگا کہ کیا جمہوریت کو اس ملک میں “فیئر چانس” ملا ہے؟ اس سوال کے جواب میں ہی حسن صاحب کی فرسٹریشن کا جواب ہے، حسن نثار دانشور سے زیادہ ایک “موقع پرست” ہیں اور ان کے ذہنی صندوق میں سوسائٹی کے تمام طبقوں کو خوش کرنے کے لئے “ون لائنر” قسم کے جملے موجود ہیں جنہیں وہ موقع کی مناسبت سے داغتے رہتے ہیں۔ سیاستدانوں کے ڈلیور نہ کرنے کے معاملہ پر آپ جتنی مرضی تنقید کریں آپ کا حق ہے مگر یہ کہنا کہ ان کو گولیاں مار دیں، ایسی لغو باتیں تو ایک ذہنی مریض کر سکتا ہے۔

محترمہ بینظیر بھٹو جب ایک عرصہ کے بعد ملک واپس آئیں تھیں تو انہیں اچھے سے پتا تھا کہ ان کی جان کو بہت سے خطرات لاحق ہیں مگر اس بہادر خاتون نے ان خطرات کی پرواہ نہیں کی اور اپنی عوام کے درمیان رہ کر شہادت کو بخوشی گلے سے لگا لیا۔ سیاستدان جیسا بھی ہوتا ہے مگر اپنی مٹی سے وفا ضرور کرتا ہے کیونکہ اس کا مرنا جینا عوام کے ساتھ ہوتا ہے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments