پاکستان میں فارمیسی پروفیشن کے مسائل اور تجاویز


پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں غریب کا علاج قدرے مشکل اور چیلنج والا کام ہے۔ ڈاکٹر کی فیس، لیبارٹریوں کے ٹیسٹ اور دوائیوں کے اخراجات ایک دیہاڑی دار مزدور اور تنخواہ دار طبقے کے لیے ایک بہت بڑے چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایسے میں گلی محلوں میں عطائی اور نان کوالیفائڈ لوگوں کی بہتات ہے۔ ایک میٹرک پاس بندہ کسی ڈاکٹر کے پاس ایک دو سال کام کر کے اپنے گاؤں یا محلے میں لوگوں کا سستے میں علاج کرنا شروع کر دیتا ہے اور عطائی لوگ سٹیرائڈز اور اینٹی بائیو ٹکس کا بنا سوچے سمجھے استعمال کروانا شروع کر دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستان فارمیسی کونسل اور محکمہ صحت بھی برابر کے شریک ہیں۔ گلی محلے کے اندر بی کیٹگری کے کورسز کروائے جاتے ہیں جبکہ اس سے فارماسسٹ جو کہ ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کا اہم کردار ہے کے ساتھ سراسر زیادتی ہوتی ہے۔ میڈیکل کے شعبے میں ایم بی بی ایس اور بی ڈی ایس کے بعد فارمیسی کا میرٹ بنتا ہے۔
پاکستان میں اس وقت ایک اندازے کے مطابق پرائیویٹ اور سرکاری اداروں کو ملا کر پانچ ہزار کے قریب فارماسسٹ گریجوئٹ ہوتے ہیں مگر ان کی مارکیٹ میں ڈیمانڈ بہت کم ہوتی ہے۔ اس میں قصور نہ صرف حکومت بلکہ خود فارماسسٹ کا بھی ہے۔ فارمیسی ایکٹ 1967 اور ڈرگ ایکٹ 1976 کے مطابق فارمیسی کا شعبہ محکمہ صحت کا لازمی حصہ ہے مگر اس پروفیشن کو ایک عام دکانداری والا شعبہ سمجھا جاتا ہے ۔ ڈرگ ایکٹ 2007 کا عملی طور پر نفاذ اب تک نہیں ہوسکا۔ اس میں سب سے پہلی غلطی سلیبس کا جدید دور کے ساتھ ہم آہنگ نہ ہونا ہے۔ سال 2004 میں بی فارمیسی کو ڈاکٹر آف فارمیسی بنایا گیا۔ پہلے یہ عرصہ چار سال پر محیط ہوتا تھا اب یہ پانچ سال پر محیط ہے۔ جبکہ سلیبس آج بھی وہی کا وہی ہے۔ کلینیکل فارمیسی کا سبجیکٹ تو بڑھا دیا گیا مگر یہ سلیبس نہ تو جدید دور کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے اور نہ ہی فارماسسٹ عملی طور پر پر اعتماد ہو پاتا ہے۔ اگر اس سلسلے میں بات کی جائے سرکاری ہسپتالوں کی تو فارماسسٹ کی نوکری کے لیے اشتہار بہت کم آتے ہیں اور اگر فارماسسٹ سرکاری نوکری حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہو جائے تو وہ مریض کو براہ راست دوائی دینے میں اپنی ہتک سمجھتا ہے۔ اور فقط رجسٹر لکھنے میں مصروف رہتا ہے اور ڈسپنسر براہ راست دوائی دے رہا ہوتا ہے۔ اگر بات کی جائے پرائیویٹ کمیونٹی فارمیسی کی تو فارمیسی کے مالک کے پاس اتنے ذرائع نہیں ہوتے کہ وہ کوالیفائڈ فارماسسٹ کو ایک اچھی تنخواہ دے سکے۔ اس کی بنیادی وجہ دوائیوں کے اوپر شرح منافع بہت کم ہوتا ہے۔ پھر دوائیوں کے لیے ایک خاص درجہ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے جس کے لیے چوبیس گھنٹے اے سی چلانا پڑتا ہے اور اس سے بجلی کا بل کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ اس سے وہ اپنے خرچے بھی پورے کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ اور اس وقت پاکستان میں کوئی ایک فارمولا میں دوائی پانچ روپے سے لے کر پانچ سو میں باآسانی دستیاب ہے۔ لاہور، کراچی، ملتان اور دوسرے بڑے شہروں میں ایسی غیر معیاری ادویات بھی باآسانی مل جاتی ہیں جن پہ شرع منافع کئی گنا زیادہ ہوتا ہے۔ ایسے میں فارماسسٹ مجبور ہو کر اپنی اے کیٹگری رینٹ آؤٹ کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ میڈیکل سٹور یا فارمیسی پر بیٹھے ہوئے نان کوالیفائیڈ بندے سے کوئی غلطی ہو جائے تو ڈرگ کورٹ میں مقدموں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ کم تنخواہ اور معاشرے میں جائز مقام نہ ہونے کی بنا پر یا تو فارمسسٹ خود ڈاکٹر بن کے بیٹھ جاتا ہے یا پھر اس طرح کے نان پروفیشنل کام میں برابر کا حصے دار بن جاتا ہے۔ اگر ان سب کے باوجود بھی کچھ نہ ہو سکے تو مجبور ہو کے پاکستان سے باہر چلے جاتا ہے۔
دوسرا سب سے اہم مسئلہ عوام کا فارماسسٹ پر عدم اعتماد ہے۔ پاکستان میں عوام اس بات پر اصرار کرتی ہے کہ صرف ڈاکٹر کی لکھی ہوئی دوائی دی جائے۔ بعض اوقات غریب کے پاس پیسے کم ہوتے ہیں اور دوائی مہنگی ہونے کے سبب فارماسسٹ اسے سستی دوائی دکھاتا ہے تو مریض یہ کہہ کر لینے سے انکار کر دیتا ہے کہ جو ڈاکٹر نے لکھا ہے وہی دیا جائے۔ مریض یہی سمجھتا ہے کہ اپنے منافع کی وجہ سے یہ مجھے دھوکا دے رہا ہے۔ ایسے میں مریض فارماسسٹ کو ایک کمپاونڈر اور دکاندار سے زیادہ حیثیت نہیں دیتا اور فارماسسٹ کا اعتماد کم ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں ایک بہت بڑی تعداد میں خواتین فارمیسی کرتی ہیں مگر کمیونٹی فارمیسی میں خواتین معاشرے کے منفی رویوں کی وجہ سے نوکری کرنا پسند نہیں کرتیں۔
اس سلسلے میں چند ایک تجاویز کو عمل میں لا کے اس پروفیشن کی اہمیت کو ایک جائز مقام دیا جاسکتا ہے سب سے پہلے تو فارمیسی کے سلیبس کو جدید تقاضوں کے عین مطابق کیا جائے۔ نہ صرف تھیوری بلکہ پریکٹیکلز میں بھی فارمسسٹ کی قابلیت بڑھائی جائے۔ عام طور پر کسی بھی بڑے ہسپتال میں ڈاکٹر کے پاس انتہائی بنیادی بیماریوں کے مریض آتے ہیں۔ تو جب عوام کو فارماسسٹ پر یقین ہو گا تو وہ ہسپتال جانے کی بجائے فارمیسی میں آئے گا اس سے ہسپتالوں میں مریضوں کا رش کم ہو گا اور فارماسسٹ کو بھی اپنے اوپر اعتماد ہو گا۔
دوسری تجویز کہ حکومت فوری طور پر بی کیٹگری کو بند کر کے صرف فارماسسٹ کو فارمیسی بنانے یا چلانے کا اختیار دے۔ تمام ترقی یافتہ ممالک میں دوائی دینے کا اختیار صرف فارماسسٹ کے پاس ہوتا ہے۔ اب پاکستان میں بہت سے فارماسسٹ موجود ہیں تو ان کو ان کے جائز حقوق ملنے چاہیں۔ ان کے لیے دوسرے میڈیکل کے شعبوں کے مساوی سرکاری نوکریاں دی جائیں۔ تیسری تجویز کہ دوائیوں کے شرح منافع کو بڑھایا جائے اس سے غیر معیاری ادویات بنانے والی کمپنیوں کی حوصلہ شکنی ہو سکے گی۔ حکومت کو چاہیے کہ تمام صحت عامہ سے متعلقہ ہسپتالوں، لیبارٹریوں اور فارمیسیز کے بجلی کے بلوں کے کم ریٹس والے ٹیرف بنائے جائیں۔ تمام پرائیویٹ صحت عامہ کے اداروں کو کم سے کم سود پر آسان قرضے دیے جائیں۔
آخر میں سب سے اہم تجویز کہ فارماسسٹ رینٹ پر کیٹگری دینے کی بجائے خود اپنا کاروبار شروع کریں۔ فارماسسٹ اپنی پروفیشنل حدود کے اندر رہ کر کام کریں۔ ڈاکٹر بننے کی کوشش نہ کریں۔ اور اپنی قابلیت کو زیادہ سے زیادہ کریں۔ فارماسسٹ صرف امتحان پاس کرنے تک محدود نہ رہیں بلکہ پریکٹیکل نالج بھی حاصل کریں اس کے لیے چاہے کچھ عرصہ تک کسی فارمیسی پر مفت ہی کام کیوں نہ کرنا پڑے۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments