سُرخ گلاب


محمد الیاس کی کتاب : سرخ گلاب

”سرخ گلاب“ گیارہ افسانوں، کہانیوں اور دو ناولٹ پر مشتمل محمد الیاس کی تازہ ترین کتاب ہے، جس کا سرورق خوبصورت مصوری کے ذریعے عارف علی ٹیپو نے ڈیزائن کیا ہے۔ 224 صفحات پر مشتمل کتاب کھولیں تو ابتدائیہ کچھ یوں آپ کا استقبال کرتا ہے :

”ابتدا میرے اللہ کے نام سے جو بجا طور پر متکبر ہے۔ مگر اس کی زمین پر ان کا کیڑا بھی گردن اکڑائے پھرتا ہے۔ “

اگلا صفحہ پلٹیں تو انتساب پر نظر پڑتی ہے جو اس سے بھی زیادہ فکر انگیز ہے :
”کچرے کے ڈھیروں سے کتے بلیوں چوہوں اور کیڑے مکوڑوں کی طرح پیٹ کی بھوک مٹاتی اولاد آدم کے نام
جن کے حصے کا رزق ان کے حکمران لوٹ لے گئے۔ ”

انتساب کے پس منظر میں ہی لکھا گیا ناولٹ ”رینی سرخا“ کتاب میں موجود دو طویل کہانیوں میں سے ایک ہے۔ اس طویل کہانی (ناولٹ) نے سرخ گلاب کے حسن کو چار چاند لگا دیے ہیں۔ کہانی کا مرکزی کردار : رینی سرخا، ریحان نامی ایک ہونہار طالب علم، زمانہ طالب علمی میں کالج میں قائم طلباء کی ترقی پسند تنظیم میں شامل ہو کر اس کا صدر بن جاتا ہے، جو معاشرے میں پسے ہوئے استحصال کا شکار عوام کی آواز ہے۔ ریحان بھی انسانی حقوق کی پاسداری، مساوات اور اصولوں پر مبنی سماج کے قیام کا متمنی ہے۔

مگر ایسی انقلابی سوچ رکھنے اور اس کو پروان چڑھانے کی ہمیشہ بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ ایسے لوگ ہمیشہ اقلیت میں ہوتے ہیں۔ اور روایتی اکثریت ایسے لوگوں کی زندگی دوبھر کر دیتی ہے۔ ریحان، حق، انصاف، مساوات اور انسانی حقوق کی پاسداری ایسی انقلابی تقریریں کرنے اور بار بار روایتی اکثریت سے ٹکرانے کے عوض متعدد بار جیل کی ہوا کھا چکا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کو ناقابل برداشت مالی خسارہ اس طرح اٹھانا پڑتا ہے کہ ایک دفعہ، روایتی اکثریت کے کارندے اس کی الیکٹرانکس کی دکان کا صفایا کر جاتے ہیں اور دوسری دفعہ نہ صرف اس کی ہینڈی کرافٹ کی دکان جلا کر خاکستر کر دی جاتی ہے بلکہ اس پر قتل کا جھوٹا مقدمہ بنوا کر عمر قید کاٹنے کے لئے جیل بھجوا دیا جاتا ہے۔

جیل سے رہا ہونے پر ریحان بوڑھا ہو چکا ہے۔ اس کے پاس نہ گھر ہے نہ کاروبار کہ مرحوم والدین کی جمع پونجی اور گھر بیچ کر اس نے پہلی دکان، جب کہ دوستوں سے قرضہ لے کر اس نے دوسری دکان کھولی تھی۔ اب ریحان جو اپنی انقلابی سوچ کی وجہ سے کبھی رینی سرخا کہلاتا تھا۔ اب ایک انسانی چیتھڑے کے روپ میں دریائے سواں کے کنارے سرخ مٹی کے پہاڑوں میں بنے غار نما گھروندے (کھوہ) میں رہنے اور قریبی رہائشی سکیم میں بنے ایک ہوٹل سے بچا کھچا کھانا کھانے پر مجبور ہے، جہاں قریبی ہوٹل کا مالک رات کا بچا کھچا کھانا، کچرا دان کے بنیرے پر رکھوا دیتا ہے۔

کمیونسٹ پارٹی پاکستان میں 1948 میں قائم ہوئی تھی۔ 1951 کی راولپنڈی سازش کیس کا الزام بھی اس پارٹی پر لگا تھا۔ آنے والی حکومتوں نے اس کے لیڈران کو کسی نہ کسی طرح اپنے مقصد سے دور کر دیا۔ پارٹی ورکرز اپنے اکابرین کے قول و فعل میں تضاد دیکھ کر یا تو ملک سے بھاگ لئے یا گوشہ نشین ہو گئے۔ رینی سرخا بھی انھی مایوس لوگوں کا نمائندہ ہے۔

کہانی کا دوسرا کردار ظفر ہے جو ایک فری لانس صحافی ہے، ظفر اس کو وہاں کھانا کھاتے دیکھتا ہے اور کسی نہ کسی طرح اس کے مسکن پر پہنچنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ ظفر بوڑھے ریحان سے مل کر بہت متاثر ہوتا ہے۔ اور اس کے ساتھ بہت عزت و تکریم سے پیش آتا ہے۔ ان کے درمیان بہت دلچسپ مکالمہ ہوتا ہے :

ہلکا سا قہقہہ لگا کر بوڑھا اٹھ بیٹھا اور بولا:

” ایک مزے کی بات یاد آ گئی۔ ہمارے ملک میں جیسے بعضوں نے محض دکھاوے کے لئے مذہبی روپ دھار رکھا ہے، بعینہ جعلی ترقی پسند بھی بہت ہیں۔ بلکہ اب تو اس ملک میں دانشور بننے کا فیشن بڑا مقبول ہو گیا ہے۔ اور بہت ہی آسان۔ جس کے طفیل دیکھتے ہی دیکھتے مشہور ہو جاؤ۔ وہ یہ کہ اٹھتے بیٹھتے بلا جواز اور بلا دریغ قومی سلامتی کے اداروں کو گالی دو ۔ ہر برائی اور ناکامی کا الزام ان پر دھرو تو تم دنوں میں دیکھتے ہی دیکھتے مخصوص ذہنی سطح کے حامل حلقوں میں بطور ہیرو تسلیم کر لئے جاؤ گے۔

میں اپنے ہم عمر دانشوروں کو خوب جانتا تھا۔ اب بھی حیات ہوں گے ، میں تو کٹ کر اچھا رہا۔ وہ، جنھوں نے زندگی بھر ٹکے کا ادبی کام نہیں کیا، لیکن تحریر اور تقریر میں قومی سلامتی کے اداروں کو ہدف تنقید بنانے کا کوئی موقع کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ بندہ ان سے پوچھے کہ ریاست ہی نہ رہی تو تمھارے بدعنوان ہیرو اور آقا حکمرانی کہاں کریں گے؟“

ظفر کی بوڑھے کامریڈ کے ساتھ بے تکلفی ہو جاتی ہے۔ ایک دن ظفر خود کھانا بنا کر ریحان عرف رینی سرخا کے ہاں جاتا ہے۔ جو بہرحال ایک صاحب علم شخص ہے۔ آپس کی چند باتیں بہت فکر انگیز اور سبق آموز ہوتی ہیں۔ بوڑھا کامریڈ ظفر کے ساتھ اس طرح کھلتا ہے :

”میرے ارد گرد اس دریا کے کنارے کی بلوں میں رہنے والی انسان نما مخلوق کو دیکھو، عورتیں، مرد، بچے بوڑھے اور جوان غلاظت سے لتھڑے کچرے میں سے رزق چنتے ہیں۔ ایسی ذلتوں میں سے کمائی گئی روزی میں سے جو چیز خرید کر لائیں، اس پر ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ ان ٹیکسوں سے جمع شدہ خزانہ لوٹ کر تیرے حکمران کھربوں پتی ہوتے گئے۔ ان کے ادنیٰ کارندے چمچے، چیلے، بچولیے، بھڑوے، دلال، گماشتے، مالشیے، خایہ بوس، قلم فروش محرر، ڈھنڈورچی حتیٰ کہ طفیلی مسخرے اور رکھیلیں بھی ارب پتی ہو گئیں۔

غریب عوام کا پیسہ لوٹ کر دنیا بھر کے ممالک میں محفوظ کر لیا۔ اداروں نے ان مانے ہوئے ثابت شدہ ڈاکووں کا کیا بگاڑ لیا؟ ایک روپیہ وصول نہیں کر سکے۔ ان بدمعاشوں کے مقابل ریاست کا حال اس بوڑھی نادار لاوارث بیوہ کا سا ہوا ہے۔ جس کی عصمت دری نودولتیوں کے لوفر لفنگے لڑکے جی بھر کر چکے ہوں اور وہ بیچاری ادھ موئی ہوئی پڑی صرف بازو لہرا لہرا کر ہائے ہائے پکارتی رہ جائے۔“

انسانی زندگی علت اور معلول کے تحت چلتی ہے۔ اس ضمن میں گزشتہ صدی کے مشہور سائنسدان اور دانشور: آئن سٹائن نے کہا تھا :یہ پاگل پن ہے کہ انسان کسی بھی کام کا طریقہ تبدیل کیے بغیر ایک مختلف نتیجے کی توقع رکھے :

کتاب کا افسانہ ”عینیت“ کا موضوع بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ افسانہ ایک ایسے جوڑے کی ازدواجی زندگی کے گرد گھومتا ہے۔ جو ”بچے دو ہی اچھے“ کے قائل تھے۔ ایک بیٹا اور دوسری بیٹی۔ مگر ان کے ہاں دونوں دفعہ بیٹیوں کا ہی جنم ہوتا ہے۔ اس کا شوہر، بڑی بوڑھی، رشتے دار اور تجربہ کار عورتوں کی باتوں میں آ کر بیٹے کی امید لگائے بیٹھا ہے۔ اور قدرت پر بھروسا کر کے بیٹے کے لئے ہی کوشاں بھی ہے۔ مگر اس کی سمجھدار بیوی حقیقت پسند اور ہر بات کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنے کی قائل ہے۔

اور تقدیر پر بھروسا کر کے بیٹا پیدا کرنے کی کوشش میں بیٹیوں کی لائن لگانے کے حق میں نہیں ہے۔ وہ جانتی ہے کہ اس مرد سے بیٹا نہیں ہو سکتا ۔ اس لئے ضبط تولید کا بندوبست کیے رکھتی ہے۔ بیوی، بیٹے کی خواہش میں اسی شوہر کے ساتھ تجربے کرنے اور تقدیر کو آزمانے کی بجائے، اس سے خلع مانگ لیتی ہے۔ وہ امریکہ جا کر اپنے کزن سے شادی کا فیصلہ کرتی ہے جہاں سائنس اپنی مرضی سے بیٹا یا بیٹی پیدا کروانے کے قابل ہو چکی ہے۔

افسانے کے دو فقرے قابل غور ہیں :
”ڈرے، سہمے اور پست ہمت دل ہمیشہ نامراد رہتے ہیں۔ “
” فرسودہ سوچوں اور جاہلانہ رسموں سے چھٹکارا حاصل کیے بغیر دل کے ارمان پورے نہیں ہوا کرتے“

کتاب میں موجود افسانے : نام کے مسلمان، کاٹھ کے الو، درجہ سوم، وصلت میں توقف اور صبر کی داد، ہمارے معاشرے میں موجود تلخ و شیریں حقائق کا احاطہ نایت دلچسپ، دلکش اور دلگیر پیرائے میں کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ کہانیاں قاری پر اتنی گرفت رکھتی ہیں کہ وہ ہر کہانی کو ایک ہی نشست میں ختم کرنا چاہتا ہے :

افسانہ: درجہ سوم، کا ایک دلچسپ فقرہ :۔ ”شرافت، شرم اور بزدلی آپس میں سگی بہنیں نہیں تو خالہ زاد ضرور ہیں۔ “

محمد الیاس پاکستان کے صف اول کے ادیب ہیں۔ وہ چھ ناولوں، بارہ افسانوں کے مجموعوں اور متعدد کہانیوں کے مصنف ہیں۔ وہ پچھلی دو دہائیوں سے اندرون اور بیرون ملک اردو ادب کی خدمت کر رہے ہیں۔ میں نے ان کی کتب یورپ، ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور کینیڈا کی لائبریریوں میں بھی دیکھی ہیں۔ یہ ان کے ایک مستند بین الاقوامی اردو رائٹر ہونے کا بین ثبوت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments