تیسری جنس سے شادی پر مبنی فلم “چندی گڑھ کرے عاشقی”


گذشتہ روز نیٹ فلکس (Netflix) پر ایک حساس موضوع پر مبنی ایک فلم دیکھی- فلم کا نام تھا ” چندی گڑھ کرے عاشقی”- پہلے IMDB پر جا کر درجے بندی معلوم کی جو 7.1 تھی جو کہ ایک بہتر فلم کی ریٹنگ سمجھی جاتی ہے-  فلم کی ہیروئین بھی کافی پر کشش اور جاذب نظر لگیں اور موضوع بھی نیا تھا لہذا فلم دیکھنی شروع کر دی-

فلم کی مرکزی کردار ایک خوبصورت لڑکی ہے جو پیدائشی طور پر ایک لڑکا پیدا ہوا تھا لیکن شروع سے ہی اس کے طور طریقے،  شوق اور اندرونی خواہشات لڑکیوں سے مطابقت رکھتے تھے- آخر کار بڑے ہو کر اس نے ایک سرجری کے ذریعے اپنے جسم کے نازک مقام لڑکیوں جیسے کر لئے اور ایک مکمل نازک اور پر کشش لڑکی بن گئ-

ماں سمیت پورے خاندان نے اس کو چھوڑ دیا لیکن صرف اس کا باپ اس کے ساتھ کھڑا رہا- والدین نے اس کا نام مانف رکھا تھا لیکن اب وہ مانوی بن چکی تھی- وہ اپنی ماں کو سمجھاتی رہی کہ کیا بدلا ہے؟ کیا میں اب بھی آپ کی اولاد نہیں ہوں؟

اسی دوران ایک لڑکا مانوی کی خوبصورتی سے متاثر ہو کر اس کے عشق میں گرفتار ہو جاتا ہے- مانوی  بھی اس کے قریب ہونے لگتی ہے-
مانوی اپنے بارے میں لڑکے کو بتانا چاہتی تھی مگر فاصلے اتنی تیزی سے کم ہوئے
کہ دونوں کے درمیان جنسی تعلق قائم ہو گیا-

لڑکے نے مانوی سے کہا اسے عشق ہو گیا ہے اور وہ مانوی سے شادی کرنا چاہتا پے-
مانوی نے اب  لڑکے کو اپنے ماضی کے بارے میں بتایا تو وہ پہلے سمجھ نہیں پایا- وہ یہی کہتا رہا کہ تم تو ہر طرح سے لڑکی ہی ہو- مانوی نے اس کو اپنی سرجری کے بارے میں بتایا- یہ باتیں سن کر لڑکا مانوی کو گالیاں دیتا ہے، چھکا بولتا ہے اور اس کو کہتا ہے اپنا مرد زدہ چہرہ لے کر آئندہ کبھی اس کے سامنے نہ آئے- مانوی جواب دیتی ہے کہ ابھی دس منٹ پہلے تمہیں اسی مرد زدہ چہرے سے عشق تھا اور تم شادی تک کرنا چاہتے تھے،  ان دس منٹوں میں کیا بدل گیا ہے؟

آگے کی کہانی کے لئے آپ کو فلم دیکھنی پڑے گی کیوں کہ میرا مقصد فلم کی پوری کہانی لکھنا نہیں ہے- فلم کے مکالمے انتہائی جاندار ہیں اور آپ کو  Transgender لوگوں کی زندگی کے بارے میں آگاہی فراہم کرتے ہیں کہ ان کی ذاتی زندگی کس پیچ و خم کا شکار رہتی ہے اور کس طرح معاشرہ ان کو دھتکارتا ہے، حقارت اور نفرت کی نگاہوں سے دیکھتا ہے جو کہ ایک انتہائی نا موضوع اور غلط طرز عمل ہے-

ہم مخنث یا اپنی جنس سے مکمل یا جزوی طور پر الٹ لوگوں کو کیوں اپنے معاشرے سے نکال پھینکتے ہیں؟ اس کا جواب مجھے آج تک نہیں مل سکا- سب سے پہلے تو گھر والے ہی اس شخص سے رشتہ توڑ لیتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 42 فیصد مخنث غیر تعلیم یافتہ ہوتے ہیں- جس کی وجہ سے 51 فیصد لوگوں کا ذریعہ معاش گانا اور ناچنا ہوتا ہے- اس کے بعد 15 فیصد سیکس ورکر اور 12 فیصد بھیک مانگ کر اپنی زندگی گزارتے ہیں-

نایاب علی ایک ٹرانس جینڈر کی رہنما ہیں اور اپنے طبقے کے لوگوں کے لئے آواز اٹھاتی ہیں- وہ بتاتیں ہیں کہ اگر ان کی ذات کے لوگ اگر  تعلیم بھی حاصل کر لیں تو ان کو ملازمت نہیں دی جاتی- ڈبل ماسٹر شخص کو نیشنل میڈیکل سینٹر میں استقبالیہ کلرک کی ملازمت دی گئ-اس نے بتایا کہ ساتھ کام کرنے والوں کے مذاق،  طنز اور چبھتی ہوئی باتیں بھی برداشت کرنا پڑتی تھیں – اگر دوسرے ملک میں ایسا ہوتا تو ان لوگوں کو ملازمت سے ہی نکال دیا جاتا- NGO بھی صرف اپنے عطیات کے لئے ہمارے حق میں آواز اٹھاتے ہیں اور ان کی فنڈنگ کا کوئی بڑا حصہ اس طبقے تک نہیں پہنچ پاتا-

سارو عمران بھی اسی طبقے سے رکھنے والی ایک  لڑکی ہے- جب وہ 15 سال کی تھی  تب اس نے اپنے والدین کو اپنی جنس کا بتایا لیکن وہی ہوا جس کا ڑر تھا – پورے خاندان نے اس میں اپنی بے عزتی سمجھی اور سارو عمران کو اکیلا چھوڑ دیا گیا- اس پر لوگوں نے تشدد کیا اور جنسی طور پر ہراساں کیا- سارو عمران نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے طبقے کے لوگوں کے لئے آواز اٹھائے گا لہذا اب وہ کئ پاکستان اور پاکستان سے باہر کے اداروں کے ساتھ مل کر اپنی کمیونٹی کے لئے کام کر رہا ہے-

سارو عمران کا صرف والدین اور معاشرے کے لوگوں سے یہ کہنا ہے کہ کیا وہ لوگ انسان نہیں ہیں؟ اگر خدا نے اپنی حکمت سے ان کو ایسا بنا دیا ہے تو کیا ان کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں ہے؟ اگر صرف والدین ہی اپنے بچوں کا ساتھ دیں اور ان کا سہارا بن جائے تو معاشرے میں ایک رواداری پیدا ہو گی اور سارو عمران جیسے لوگوں کو گھر چھوڑنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی-

ہم لوگوں کو یہ سمجھنا چاہئے کہ اسلام کا مخاطب مرد یا عورت نہیں ہے،  مذہب کا مخاطب انسانیت ہوتی ہے- مذہب کسی کے جنسی تشخص پر کوئی رائے قائم نہیں کر سکتا- مذہب کا مقصد صرف آپ کے اخلاقی وجود کو بہتر بنانا ہے-

اب ہمیں  یہ دیکھنا ہے کہ ہم مختلف جنس کے لوگوں کو نفرت، حقارت، تشدد اور جنسی طور پر ہراساں کر کے اپنے کس اخلاقی وجود کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments