چندی گڑھ کرے عاشقی۔ ایک اچھوتا موضوع


کہیں پڑھا تھا کہ “جتنی ذہانت بات کہنے کے لیے درکار ہوتی ہے اس سے دوگنی ذہانت اگلے شخص کی بات کو سننے اور سمجھنے کے لیے درکار ہوتی ہے۔” ممکن ہے کسی کو اس موضوع میں دلچسپی نہ ہو مگر اس موضوع کی اہمیت اتنی ہی ہے جتنی کسی انسان کی زندگی قیمتی ہوتی ہے۔ تسلیم شد کہ ہم، ہمارا وسیب (میں سرائیکی وسیب سے ہوں جہاں جہالت اپنے قطب مینار پر چڑھ کر ننگا ناچ رہی ہے)، ہمارا معاشرہ (بر صغیر پاک و ہند وغیرہ) ابھی ذہنی بلوغت کی اس سطح پر نہیں پہنچ پایا جہاں ان مسائل کی سمجھ آ سکتی ہے یا جہاں ان معاملات کو وسیع القلبی سے قبول کیا جاتا ہو مگر اس بارے جانکاری دینا اور لینا دونوں اتنا ہی اہم ہیں جتنا صاحبِ اولاد خواتین و حضرات کیلیے اپنی اولاد اہم اور جزوِ لاینفک ہوتی ہے۔ فرض کرتے ہیں ایسا میری یا آپ کی اولاد کے ساتھ ہو جائے تو اس صورت میں ہم منافقانہ طرزِ زندگی اختیار کرتے ہوئے اس راز کو چھپائے رکھیں گے یا پھر اپنی اولاد کو جو وہ ہے اس کی اصلیت اور حقیقت سمیت قبول کریں گے۔
اس موضوع پر فلمیں بنانے کے سلسلے میں ہالی ووڈ سے زیادہ بالی ووڈ تعریف کے لائق ہے۔ بالی ووڈ اس لیے بھی زیادہ قابلِ تعریف ہے کیونکہ وہ ایسے متنازعہ موضوعات پر کھل کر فلمیں بناتا ہے جن پر لکھنے، بولنے، یا فلم بنائے جانے پر گھٹن زدہ معاشروں میں شدت پسندی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
آپ نے اکثر سنا ہو گا بلکہ کچھ نے دیکھا بھی ہو گا، اخبارات میں آئے روز خبریں چھپتی رہتی ہیں کہ ایک لڑکا آپریشن کے بعد لڑکی کی صنف میں ڈھل گیا۔ اس پر میمز بھی بنائے جاتے ہیں اور لطیفے بھی، پھبتیاں بھی کسی جاتی ہیں اور جگتیں بھی ماری جاتی ہیں۔ ٹرانسجینڈرز کو ناصرف مذاق و تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے بلکہ ان کو معاشرے میں تعلیم اور روزگار جیسے بنیادی مواقع و سہولیات نہ ملنے کے سبب ساری زندگی یا تو جنسی استحصال برداشت کرتے کرتے جینے پر مجبور کیا جاتا ہے یا پھر بھیک مانگ مانگ کر روح و جسم کا رشتہ قائم رکھنے تک ہی محدود کر دیا جاتا ہے۔ لیکن اگر کوئی ٹرانسجینڈر ہمت کر کے، معاشرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کی کوشش کرے تو ناصرف یہ معاشرہ اسے دھتکار دیتا ہے بلکہ اس کے اپنے والدین تک اسے چھوت سمجھ کر الگ تھلگ رہنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔
میڈیکل سائنس کہتی ہے کہ ہر انسان کی تخلیق پہلے ایک لڑکی کے روپ میں ہی ہوتی ہے جس کا ثبوت ہر مرد کے سینے پر موجود ہے۔ پہلے مرحلے میں لڑکی کی تخلیق ہونے کے بعد آگے چل کر جینز اس انسان کی صنف کا تعین کرتے ہیں کہ آیا وہ مرد ہو گا یا عورت، لڑکا ہو گا یا لڑکی۔
  
اس فلم میں یہی دکھایا گیا ہے۔ ایک انسان کی پیدائش تو لڑکے کے روپ میں ہوتی ہے لیکن اس کے اندر کہیں ایک لڑکی چھپی بیٹھی ہوتی ہے جو اسے مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنا آپ، اپنی اصلیت ظاہر کرے اور دوہری زندگی سے جان چھڑائے۔ بالآخر وہ لڑکا ایسا ہی کرتا ہے اور آپریشن کروا کے لڑکی بن جاتا ہے۔ اس کے بعد جو مسائل اسے درپیش ہوتے ہیں وہ دیکھنے کے لائق ہیں۔
جب لڑکا جنس تبدیل کر کے لڑکی کے روپ میں سامنے آتا ہے تو سب سے پہلے اسے اپنی ماں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور گھر بار چھوڑ کر علیحدگی اختیار کرنا پڑتی ہے۔ فقط ایک باپ ہی ہوتا ہے جو اس سے رابطہ قائم رکھتا ہے لیکن پھر بھی اس کی حقیقت کو قبول کرنے سے انکاری ہونے کی بنا پر اس ٹرانس گرل کو بار بار بیٹا بیٹا کہہ کر پکارتا ہے۔ پدرسری معاشرے کا سب سے بڑا المیہ ہی یہی ہے کہ پیدائش سے لیکر جوانی تک بیٹی کو بھی بیٹا کہہ کر اسے احساسِ کمتری میں مبتلا رکھا جاتا ہے۔
وہ ٹرانس گرل (وانی کپور) اپنی زندگی میں آنے والے پہلے مرد کو اپنی اصلیت بتاتی ہے تو وہ بھی اسے چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے، الزام یہی لگاتا ہے کہ تم تو لڑکے ہو اور میں ہومو سیکشوئلٹی کا قائل نہیں ہوں۔ یعنی جہالت کی انتہا دیکھیں کہ ایک انسان جس کا جسم چیخ چیخ کر بتا رہا ہے کہ وہ لڑکا نہیں لڑکی ہے پر ہومو سیکشوئل ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے۔
 پھر اس لڑکی کی زندگی میں دوسرا مرد آیوشمان کُھرانہ کی صورت داخل ہوتا ہے، یہ دوسرا مرد بھی لڑکی کے منہ سے سچ سننے کے بعد اسے بطور ایک لڑکی کے قبول کرنے سے انکاری ہوتا ہے۔ جب ماں اور انتہائی قریبی رشتے دار ہی اپنی اولاد کی حقیقت کو قبول کرنے انکاری ہوں، ناصرف حقیقت کو قبول کرنے سے انکاری ہوں بلکہ اس سے شدید نفرت و ناگواری کا اظہار بھی کرتے ہوں تو دوسرے لوگ کب معافی دیتے ہیں۔؟ سو اس ٹرانس گرل کے ساتھ بھی یہی ہوتا ہے اور پھر کہانی میں جو اتار چڑھاؤ آتا ہے وہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
خان عبدالولی خان نے کہا تھا “تبصرہ آزاد ہے مگر حقائق مقدس ہوتے ہیں۔” لیکن ہم نے حقائق کو خوفناک و حقیر جان رکھا ہے اسی وجہ سے ہم کسی بھی حقیقت کو تسلیم کرنے سے عاری ہیں۔ دراصل نفسیاتی طور پر ہم لوگ اندر سے خوفزدہ ہیں، انتہائی بزدل ہیں جس کی وجہ سے ہمیں حقائق مقدس لگنے کے بجائے خوفناک لگتے ہیں۔ یہی ہماری بزدلی فرسٹریشن کی صورت میں باہر آتی ہے اور کبھی قتل تو کبھی نابالغ بچوں اور بچیوں سے زنا بالجبر کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔
یہی بزدلی، فرسٹریشن، ناکامی، خوف اور شعور سے ناآگہی ہی سب سے بڑی وجہ ہے کہ بالفرض اگر کوئی مرد ہمت کر کے کسی ٹرانس گرل کی حقیقت کو قبول کرتے ہوئے اس کا ساتھ دینے کی کوشش کرتا بھی ہے تو معاشرہ اس کے ساتھ انتہائی مضحکہ خیز و خطرناک حد تک تضحیک آمیز سلوک کرتا ہے۔ اس بارے میں بھی مذکورہ فلم میں مختصر مگر جامع طریقے سے بتایا گیا ہے۔
سیکس، ٹرانس جینڈرز اور ٹرانس گرلز وغیرہ کے تکنیکی، معاشرتی اور معاشی مسائل کو جس خوبصورت انداز سے اس فلم میں پیش کیا گیا ہے وہ یقیناً دیکھنے کے لائق ہے۔ میرے خیال میں اس فلم میں کہانی کو جس خوبصورت، آسان، سادہ، عام فہم اور انتہائی ہلکے پھلکے انداز میں پیش کیا گیا ہے اس کی مثال ملنا بہت مشکل ہے۔ اگر آپ کو فلم میں ڈائریکشن، ایکٹنگ وغیرہ پسند نہ بھی آئے تو کہانی کو سمجھنے کی کوشش ضرور کیجیے گا، کہانی انتہائی دلچسپ ہے اور معاشرے کے تاریک پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے۔
وانی کپور کی اداکاری نے مجھے تو بہت متاثر کیا، البتہ آیوشمان کی اداکاری کچھ جگہوں پر اضافی اور فالتو محسوس ہوئی۔
اب اگر ایک مخصوص نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو ٹرانسجینڈرز کو ناصرف معتوب قرار دیا جاتا ہے بلکہ ان کیساتھ انتہائی متعصبانہ رویہ بھی اختیار کیا جاتا ہے۔ غلام مرتضی سید المعروف جی ایم سید نے ایک کتاب لکھی تھی جس کا نام “جیسا میں نے دیکھا” ہے۔ اس کتاب میں وہ لکھتے ہیں کہ اسلام نئے دور کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ چلنے کو ترجیح دیتا ہے۔ قرآن و اسلام نے تشبیہات بھی دی ہیں اور احکامات بھی لیکن ہمارے شارحین نے تشبیہات کو احکامات کا درجہ دیکر اصل احکامات کو پسِ پُشت ڈال دیا ہے۔ میرے خیال میں یہ بیان کرنا بہت ضروری ہے کہ ہمارے علما و مشائخ حضرات کو اس سلسلے میں آگہی بانٹنے کی اشد ضرورت ہے تا کہ (ٹرانسجینڈرز) جیتے جاگتے انسان، نفرت و حقارت کے بجائے عزت و تکریم کے مستحق بن سکیں اور اپنی زندگی اپنی مرضی سے، آزادی سے گزار سکیں۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments