امپورٹڈ وزیراعظم کے بعد برانڈڈ وزیراعظم


وطن عزیز کے عوام کو مبارک ہو کہ امپورٹ کیے گئے وزرائے اعظم معین قریشی اور شوکت عزیز کی طرح اب امپورٹڈ وزیر اعظم پیش خدمت ہیں۔ دروغ گوئی، افسانہ طرازی، مبالغہ آرائی اور ڈھٹائی ہماری آج کی سیاست کا معیار ہے۔ ضمنی انتخابات، کنٹونمنٹ انتخابات اور اب خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں شکست کے ساتھ ساتھ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی سے تحریک انصاف کی حکومت کی مقبولیت میں حد درجے کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کے اثرات کو زائل کرنے کے لیے عمران خان نے اپنے وزیروں، مشیروں، پارٹی عہدیداروں اور کارکنوں کو یہ ہدایات دی ہیں کہ وہ عمران خان کو بطور برانڈ پیش کریں اور ایسا برانڈ جو چور اور ڈاکو نہیں ہے۔

ان کی یہ ہدایت بھی تھی کہ عوام کو یہ بتایا جائے کہ مہنگائی نام کی کسی چیز کا وجود نہیں ہے۔ اپوزیشن جھوٹ بولتی ہے۔ محترم شبلی فراز ایک نجی ٹی وی چینل کے ٹاک شو میں مقبولیت کا ایک نیا معیار یہ لے کر آئے کہ والدین سے پوچھا جائے کہ وہ اپنے بچوں کو آصف زرداری بنانا چاہتے ہیں، نواز شریف بنانا چاہتے ہیں یا عمران خان بنانا چاہتے ہیں؟ شبلی فراز کا کہنا تھا کہ وہ اس سروے کے نتائج کو معیار تسلیم کریں گے۔ برانڈڈ وزیراعظم کی سب سے بڑی خصوصیت انہوں نے یہ بیان کی کہ وہ وزیر اعظم ہاؤس میں رہنے کی بجائے اپنے ذاتی گھر میں رہائش رکھے ہوئے ہیں۔ اس پر جب شریک گفتگو مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز کے ترجمان اور سابق گورنر سندھ نے لقمہ دیا کہ شاہد خاقان عباسی بھی اپنی وزارت عظمیٰ کے دوران ذاتی گھر ہی میں رہائش رکھتے تھے، تو شبلی فرماتے ہیں کہ میں تو صرف اپنے وزیر اعظم کی بات کروں گا۔

شبلی فراز کے حوالے سے ایک دلچسپ بات بتاتا چلوں کہ2007 میں جب اعجاز چودھری صاحب نئے نئے وارد ہوئے تھے۔ ابتدائی طور پر انھیں مرکزی نائب صدر کا عہدہ دیا گیا تھا لیکن ان کی شدید خواہش تھی کہ انھیں پنجاب میں ذمہ داری دی جائے۔ دلیل یہ تھی کہ میرا زرعی ادویات کا کاروبار ہے، جس کے لیے مجھے پنجاب میں اکثر سفر درپیش رہتا ہے، اس طرح میں اپنے کام کے ساتھ ساتھ پارٹی کے لیے بھی کام کر سکوں گا۔ ایسے ہی ایک موقع پر جیل روڈ لاہور میں پارٹی دفتر میں اعجاز چوہدری نے ایک گفتگو کے دوران جس میں راقم بھی موجود تھا، بتایا کہ شبلی فراز ان کے کالج فیلو رہے ہیں۔

اعجاز چودھری نے شبلی فراز کو فون کیا اور دعوت دی کہ وہ تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کریں۔ دروغ بہ گردن راری بقول اعجاز چوہدری جواب میں شبلی نے عمران خان کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا اور کہا کہ میرے والد احمد فراز، عمران خان کو اپنا روحانی بیٹا سمجھتے تھے۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک میں پیرانہ سالی کے باوجود احمد فراز عمران خان کے ساتھ مظاہروں میں شرکت کیا کرتے تھے۔ مگر عمران خان نے احمد فراز کی وفات پر تعزیت کے لیے آنا تو دور کی بات، تعزیت کا ٹیلیفون کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی۔ ایسے بے مروت شخص کے ساتھ میں کیسے شامل ہو سکتا ہوں۔ مگر آج شبلی فراز تحریک انصاف پر اپنا اسی طرح حق رکھتے ہیں جیسے پاکستان کے قیام کی مخالف جماعتیں اور کشمیر کے جہاد کو حرام قرار دینے والی ایک جماعت آج پاکستان کے عوام کی سب سے بڑی ہمدرد اور کشمیر کی آزادی کی سب سے بڑی سرخیل بنی ہوئی ہیں۔

ابھی برانڈڈ وزیراعظم کی اشتہاری مہم کا آغاز ہوا ہی تھا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان میں فارن فنڈنگ کیس کے حوالے الیکشن کمیشن کی قائم کردہ اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ جاری کردی گئی۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ حکمران جماعت تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن سے 31 کروڑ روپے کی رقم خفیہ رکھی اور درجنوں بنک اکاؤنٹ خفیہ رکھے۔ جب یہ سطور رقم کی جا رہی ہیں حکومتی ترجمان بڑے فخر سے کہہ رہیں کہ آج تحریک انصاف فارن فنڈنگ کیس میں سرخرو ہوئی ہے مگر ان کی آواز کی لکنت بناوٹی فخر پر غالب رہی۔

دوسرا یہ کہ سرخرو ہونے کے باوجود وہ وجوہات ابھی تک معلوم نہیں ہو سکی جن کے سبب تحریک انصاف کے وکیل نے استدعا کی کہ فریقین اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ کو پبلک نہ کریں۔ اسی طرح تحریک انصاف کی حکومت کے دوران توشہ خانہ کے تحائف کی نیلامی کو خفیہ رکھا گیا ہے۔ کچھ عرصہ قبل ایک عام شہری نے پاکستان انفارمیشن کمیشن میں درخواست دی کہ تحریک انصاف کی حکومت کو ملنے والے تحائف کی تفصیلات عام کرنے کی درخواست دی تھی۔

جواب میں تحریک انصاف نے ان قیمتی تحائف کی تفصیلات جاری نہ کرنے کی استدعا کردی۔ کابینہ ڈویژن نے پاکستان انفارمیشن کمیشن کے اس فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ہے جس میں عمران خان کو ملنے والے تحائف کی تفصیلات مانگی گئی تھیں۔ توشہ خانہ ہو، بنی گالہ کے اخراجات کا معاملہ ہو یا فارن فنڈنگ کیس۔ اسی طرح پانامہ ہو یا براڈ شیٹ یہ صرف چند مثالیں ہیں اس طبقے کی جو ہماری سیاست، معیشت اور سماج پر مسلط ہے۔

تحریک انصاف سیاست اور کپڑوں کے برانڈ کے فرق سے ابھی تک نابلد ہے اور مسائل کے حل کی بجائے قصیدہ گوئی میں مصروف ہے۔ سیاست نظریات اور سماجی خدمت کا نام ہے۔ نعرہ آپ کا احتساب کا تھا مگر دنیا بھر کا نظریاتی اور مالی بدعنوان آپ کے ساتھ ہے۔ سماجی خدمت کے نام پر آپ نے کارخانے لگانے کی بجائے لنگر خانے کھول دیے، صحت کارڈ کے نام پر انشورنس کمپنیوں کی چاندی کروا دی جیسے تعمیرات کے شعبے میں سیمنٹ اور اسٹیل ملوں کو خوب منافع کمانے کا موقع دیا۔ اسٹیٹ بنک کی خودمختاری داؤ پر ہے، سخت ترین شرائط پر قلیل قرضہ آپ نے لیا ہے، وزیرخزانہ خود اعتراف کر رہے ہیں کہ امریکی دباؤ کی وجہ سے آئی ایم ایف کی شرائط سخت تھیں مجبوراً ماننی پڑیں، مہنگائی آپ کے کنٹرول میں نہیں، مگر آپ اپنی خود پرستی اور اپنی ذات کے حصار ہی سے نکلنے پر تیار نہیں ہیں۔

عیسوی کلینڈر کا ایک سال اور مکمل ہو اور ایک ہندسہ پھر بدلا ہے۔ ہمارے اقتدار اور اختیار پر قابض افراد کا نہ دل بدلا ہے نہ ان کے دل کی آرزوئیں بدلی ہیں۔ مگر عوام سے تقاضا اور اسرار ہے کہ وہ پر امید رہیں اور انقلاب آسماں کا اعتبار بھی کیے رکھیں۔ مگر شاید دونوں کے دل میں چور ہے کہ ایک دل لیے ہوئے ہے اور ایک تمنا لیے ہوئے بیٹھا ہے۔ جس کے سبب حقیقی تبدیلی کا تصور بھی ابھی ممکن نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments