خواتین کو خود کو مظلوم سمجھنے کی خواہش اتنی شدت سے کیوں ہے؟


ایک خالص خواتینی پیج پر ایک خاتون نے پوسٹ لگائی کہ آٹھ گھنٹے تو کچن میں ہی گزر جاتے ہیں، میں سوچتی ہوں کہ زندگی کا مصرف کیا ہے؟

میں نے کمنٹ میں کہا کہ میں تو سات گھنٹے کی جاب کر کے بھی خود ککنگ کرتی ہوں فیملی لائف، فرینڈز سوشل لائف، سوشل میڈیا، پڑھنا لکھنا شوق پورے کرنا الحمدللہ۔ پھر جناب خواتین کے جوابی کمنٹس، اپنے گھریلو کاموں کی تفصیلات، مصروفیات کی کہانیاں، قربانیوں کی داستانیں۔

مجھے واقعی سمجھ نہیں آتی کہ خواتین کو خود کو مظلوم سمجھنے کی خواہش اتنی شدت سے کیوں ہے؟

اپنا اور اپنے بچوں کا کھانا بنانا، اپنے رہنے کی جگہ صاف کرنا، اپنے اور اپنے بچوں کے کپڑے دھونا کیا یہ احسان ہے؟

اگر یہ سب احسان ہے تو جو عورت اس سب کے ساتھ کما کر بھی لاتی ہے، فیملی کے فنانشل مسائل حل کرنے میں بھی برابر کی حصہ دار ہے، وہ اپنے آپ کو فیملی کا کتنا احسان مند سمجھے؟

کیا گھر سے باہر جا کر نوکری کرنا آسان ہے؟
کیا اپنے خود کے گھر کے کاموں اور باہر کی نوکری کا کوئی موازنہ ہو سکتا ہے؟
کہ اپنا کام جب دل چاہ، جس ترتیب سے دل چاہا کر لیا، دیر سویر بھی ہو گئی، کمی زیادتی بھی ہو گئی،
اگر اپنا کھانا پکانے اپنے گھر کی صفائی کرنے کے بدلے آپ کو،

نہ گھر کا کرایہ دینا پڑے، نہ بجلی پانی گیس، فون، کے بل دینے پڑیں، نہ بچوں کے اسکول ٹیوشن، اور قاری صاحب کی فیس دینی پڑے، نہ ڈاکٹر کی فیس دینی پڑے، نہ گراسری کے بل دینے پڑیں، نہ اپنی ہیلپر کی سیلری دینی پڑے، گرمی سردی شادیوں کی مکمل شاپنگ مل جائے، تہواروں اور شادیوں پر فرینڈز فیملی کو تحفے تحائف دینے کے لئے بھی انتظام ہو جائے

تو کیا یہ برا سودا ہے؟

اور اگر آپ کے بقول آپ کی خدمات کا اعتراف نہیں کیا جاتا، تو جو تمام سہولیات آپ آرام سے بیٹھ کر وصول کر رہی ہیں، وہ سہولتیں آپ کو دینے والے کی خدمات کا آپ اعتراف کرتی ہیں؟

اکثر خواتین تو زیادہ وقت اپنی مظلومیت کے رونے روتی اور اپنے خاوندوں کو کوستے دیتے گزار دیتی ہیں۔

اور اگر آپ سے اپنے خود کے بچے نہیں سنبھالے جاتے تو کیوں جنونیوں کی طرح بچے پیدا کرتی ہیں، بیٹے کا شوق، بیٹی کا شوق، جوڑی ملانے کا شوق،

مڈل کلاس کی اکثریت نے تو ہیلپر رکھی ہوتی ہیں۔
پھر بھی یہ اپنے ہی گھر سے اتنی تنگ ہیں۔

افسوس، معاشرہ ہر وقت لٹھ لے کر مرد کے پیچھے پڑا رہتا ہے، جبکہ اس معاشرہ کی عورت کو تربیت کی شدید ضرورت ہے، کیسے امید کی جا سکتی ہے اس قدر مظلوم اور قابل ترس عورتیں معاشرے کو ایک اچھا بچہ تربیت کر کے دے سکتی ہیں۔

پروردگار رحم فرمائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments