جمہوریت سے عداوت کیوں؟


پاکستان کے انیس سو اٹھاون کے پہلے فوجی انقلاب کے بعد سے جمہوریت کے خلاف ایک مہم تسلسل سے چلائی جا رہی ہے جس میں اس بیانیے کو پروان چڑھانے کی کوشش ہوتی ہے کہ پاکستان کے جاہل عوام جنہیں حال ہی میں ایک نام نہاد دانشور  نے مصلیٰ قرار دیا کسی قسم کی جمہوریت یا اپنے حق رائے دہی کے استعمال کے قابل نہیں ہیں اور ہمارے لئے آمریت بہترین نظام حکومت ہے۔

یہ نام نہاد دانشور لکھاری اپنی بد کلامی میں مزید نیچے گرتے ہوئے اور آئین پاکستان کی توہین کرتے ہوئے جمہوریت کے چاہنے والوں کو فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑا کرنا چاہتے ہیں اور گولیوں کی قیمت بھی ان کے چاہنے والوں سے وصول کرنا چاہتے ہیں۔ بظاہر ان کی اس بدکلامی کا مقصد موجودہ وزیراعظم کو پاکستان کا تقریباً پندرہ سال کے لیے آمر اعظم بنانے کی خواہش ہے۔ ان کے خیال میں ان جیسا ایک آمر مطلق ہی ملک کو معاشی و سیاسی بلندی پر لے جا سکتا ہے۔

عموماً ان جیسی سوچ رکھنے والوں کو اس حقیقت سے بہت تکلیف ہوتی ہے کہ عام مصلیٰ اور جاہل عوام کو کیسے یہ حق دیا جائے کہ وہ ملک کو چلانے والے رہنما منتخب کر سکے۔ ان کے خیال میں یہ حق صرف ان جیسے چند عقل کل کے پاس ہونا چاہیے۔ وہ یہ مطالبہ کرتے بھول جاتے ہیں کہ ملک کی آدھی زندگی ایسے ہی عقل کل اس ملک کو چلاتے رہے اور ان کے بے تحاشا اختیارات اور طاقت کے باوجود نہ ملک اپنی سلامتی برقرار رکھ سکا اور نہ ہی معاشی طور پر ایک مضبوط ملک بن کے ابھرا۔

ہمارے ملک کے علاوہ دنیا بھر میں بہت سے مطلق العنان آمر لمبے عرصے تک مختلف ممالک پر حکمرانی کرتے رہے لیکن کیا اس سے ان ممالک میں معاشی خوشحالی آ گئی؟ کیا ان ممالک میں غربت کا خاتمہ ہو گیا؟

قزاقستان کے حالیہ متشدد مظاہروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ لمبے عرصے کی آمریت نا تو معاشی خوشحالی کی ضامن ہے اور نہ ہی ملک کی سلامتی کو یقینی بنا سکتی ہے۔ آمریت ہمیشہ ایک مختصر سی اشرفیہ کے لیے فائدہ مند ثابت ہوتی ہے اور کہیں بھی جدید تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی جس میں ایک ملک میں عوام آمریت کے دور میں مکمل طور پر خوشحال رہے ہوں۔ انڈونیشیا کی 30 سالہ بدترین آمریت میں کچھ معاشی ترقی تو ہوئی لیکن زیادہ تر عوام غربت کا شکار رہی اور آخر کار اس ظلم کے نظام کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی۔ میانمار، مصر اور سوڈان میں لمبے عرصے کی آمریتوں نے عوام کی خوشحالی کے لیے کچھ نہیں کیا۔

اگر آمریت اس قدر فائدہ مند ہوتی تو گیارہ سالہ ایوبی دور ایک متشدد عوامی جدوجہد کے بعد اختتام پذیر نہ ہوتا۔ اگر آمریت اتنی ہی سود مند ہوتی تو آمر یحییٰ خان کے دور میں ملک دولخت نہ ہوتا اور مشرف آمریت کے خلاف پڑھا لکھا طبقہ میدان میں نہ اترتا۔

ہم نے پاکستان میں آمریت کے چار لمبے ادوار دیکھے ہیں اور ان میں سوائے اشرافیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے کسی اور طبقے کو کسی قسم کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اس کی بہ نسبت جمہوری ادوار میں مقابلتاً عوام کو بے شمار سماجی اور معاشی فوائد حاصل ہوئے اور انہی فوائد کے خوف اور جمہوریت کی مضبوطی کے ڈر سے ہمارے کچھ نام نہاد دانشور اور ادارے ان جمہوری حکومتوں کے خلاف ہمہ وقت سازشوں میں مصروف رہے۔ اپنی آئینی ذمہ داریاں نبھانے کی بجائے یہ ادارے یا تو منتخب حکومتوں کو بے بنیاد الزامات پر برطرف کرتے رہے یا ان کے خلاف دھرنوں کا اہتمام کرنے میں مصروف تھے یا نگران ججوں کے ذریعے انہیں عدالتی جبر کا نشانہ بناتے رہے۔

ہمارا آئین ایک پارلیمانی جمہوری نظام کی ضمانت دیتا ہے۔ یہی آئین عدلیہ اور فوج کے متعلق تنقیدی بیانات پر تادیبی کارروائی کے بارے میں ہدایات بھی دیتا ہے۔ یہ حیرانی کی بات ہے کہ عدلیہ اپنے بارے میں کسی قسم کے کے تبصرے پر فوراً توہین عدالت کی تلوار لہرانے لگتی ہے اور یہی اختیار افواج بھی استعمال کرتی ہیں۔ مگر یہ آئینی ادارے جن کا اور جمہوریت کا دفاع کرنا عین فرض ہے، جمہوریت کی اس توہین پر خاموش رہتی ہیں۔

ایک نام نہاد دانشور کھلے عام ایک ایک ٹی وی چینل پر جمہوریت کے خاتمے یعنی آئین کی تنسیخ کی بات کرتا ہے، لوگوں کو تشدد پر اکساتا ہے، جمہوریت کے نام لیواؤں کو گولیوں سے چھلنی کرنے کی بات کرتا ہے، مگر ہماری عدلیہ جو ایک ریٹائرڈ جج کے حلف نامے کو اپنی توہین سمجھتے ہوئے تو فوراً حرکت میں آ جاتی ہے مگر اس توہین آئین پر خاموش ہے۔ پیمرا جو چھوٹی چھوٹی باتوں پر تو چینلز کو نوٹسز جاری کرتا ہے مگر اس توہین آئین پر گونگا، بہرا اور اندھا بن جاتا ہے۔ وزیر اعظم اپنی ہتک عزت کے لئے عدلیہ کا دروازہ تو کھٹکھٹاتے ہیں مگر اپنے انتخاب کنندگان کی ہتک عزت پر ان کی زبان گنگ ہے۔

ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کی کیا قائداعظم ایک آمر تھے؟ کیا وہ پاکستان میں آمریت والا نظام چاہتے تھے؟ کیا پاکستان ایک جمہوری اور آئینی جدوجہد کے بعد معرض وجود میں نہیں آیا؟ اگر پاکستان ایک جمہوری عمل کے ذریعے وجود میں آیا تو کیوں آزادی کے بعد اسے جمہوریت سے محروم کرنے کی باتیں، کوششیں اور سازشیں کی جا رہی ہیں۔

اگر ہم نے ایک مضبوط اور متحد ملک کے طور پر ابھرنا ہے تو ہمیں صرف عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کی طاقت میں مزید اضافہ ہی نہیں کرنا بلکہ ہماری خصوصی توجہ جمہوری اداروں کو مضبوط کرنے پر مرکوز ہونی چاہیے نہ کہ اس کے خلاف مختلف بے بنیاد الزامات لگا کر اسے بدنام اور کمزور کیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments