ایک دیہاڑی دار مزدور کا قصہ


صبح کے سورج کی کرنیں اس کے چہرے کو ایک چمک بخش رہی تھیں، وہ مسلسل ہر آنے جانے والے کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ ضمیر ایک تھلے پر بیٹھا تھا جو کہ ایک بارونق بازار کے درمیان میں واقع تھا۔ ہاتھ میں موجود بیلچے کو ہلکا سا سرکا کر اس نے اپنے گھٹنے کے ساتھ اسے کھڑا کر لیا تھا۔ اس چوک میں سے گزرنے والا ہر انسان جلدی میں دکھائی دیتا سوائے ان مزدوروں کے جن میں ضمیر بھی شامل تھا، جن کی آنکھوں اور طبیعت میں دونوں میں کافی ٹھہراؤ تھا۔

یہ سارے مزدور اس انسان کا انتظار کر رہے تھے جو آئے اور دیہاڑی کا بھاؤ ہم سے بنائے اور ہمیں کام پر لے جائے۔ آہستہ آہستہ لوگ آئے اور کافی سارے مزدور دیکھتے ہی دیکھتے ضمیر کی آنکھوں سے غائب ہو گئے۔ بس اب تین لوگ بچے تھے، جن کی طرف ابھی ایک انسان بھی بھاؤ کے لیے نہیں آیا تھا۔ نو بج رہے تھے، مگر ابھی دیہاڑی لگنے کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے تھے۔ ضمیر کے ساتھ بیٹھے دونوں مزدور بھی کافی پریشان تھے، مگر ضمیر ان سے زیادہ پریشان تھا۔

دن کے کھانے کے لیے اپنی کھانے کے پوٹلی کو کبھی ہاتھ میں اٹھاتا اور کبھی تھلے پر رکھ دیتا۔ اس کی بے چینی میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا گیا۔ وقت قریبا ساڑھے نو کو پہنچ چکا تھا۔ ضمیر کی لگاتار دو دیہاڑیاں نہ لگنے سے اس کے گھر کے حالات فاقوں تک جا پہنچے تھے، مگر وہ یہ بات وہ اپنے مزدور دوستوں پر ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا۔ وقت دھیرے دھیرے گزر رہا تھا مگر ضمیر اور اس کے دوستوں کو تیز گزرتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔

کچھ لمحے یہ تینوں مزدور آپس میں کوئی بات چیت کرتے مگر پھر ایک لمبے وقفے کے لئے رک تھے۔ شاید اس میں وہ اپنے اپنے بیوی بچوں کے بارے میں سوچتے۔ وقت یوں ہی گزرتا گیا اور سورج سوا نیزے پر آ پہنچا، لیکن کوئی ایسا نہ آیا جس کے ذریعے ان کی دیہاڑی کا بندوبست ہو جاتا۔ اب تینوں کو بھوک بھی محسوس ہونی لگی۔ ضمیر نے کہا کہ ”بھئی آج کا یہ دن بھی گیا، میں تو گھر چلا“ اس پر باقی دونوں مزدوروں نے کہا کہ بھئی ابھی گھر جانے کی کیا ضرورت ہے۔

یہی اپنی اپنی کھانے کی پوٹلیاں کھولتے ہیں اور دن کا کھانا یہی کھا لیتے ہیں۔ بعد میں گھر چلیں جائیں گے۔ مگر یہ بات سن کر ضمیر بہانے بنانے لگا اور کہنے لگا اسے گھر آج جلدی جانا ہے کوئی ضروری کام ہے۔ اس پر انہوں نے کہا کہ ”اگر تمہاری آج دیہاڑی لگ جاتی تو تو شام کو کہیں جا کر گھر واپس لوٹتا، تب تمہارا ضروری کام کہاں جاتا۔ “ پھر وہاں سے اٹھا، کپڑے جھاڑے اور ایک ہاتھ میں اپنی پوٹلی تھام لی۔ اس کے چہرے پر ایک عجیب قسم کا اضطراب تھا۔

ماتھے پر ہلکی ہلکی سی پسینے کی بوندیں نمایاں تھی۔ اسی اثناء میں ایک ساتھی نے اس کی قمیص کا پلو پکڑ کر کھینچا، ضمیر اس افتاد سے گھبرا کر روہانسا ہو گیا، خود کو چھڑانے کی کوشش کی، مگر دوسرے ساتھی نے بھی اس کا بازو پکڑ لیا۔ چپقلش میں اس کی پوٹلی ہاتھ سے گری اور کپڑے کی دھجی سے کنکریاں نکل کر پھیل گئیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments