کبیر نے مجھے ڈھونڈ نکالا


دکان میں داخل ہوا تو سینئر سیلزمین کے چہرے پہ ہوائیاں اڑی نظر آئیں اور وہ آ کے کان میں کہنے لگا وہ جی ابھی سرگودھا سے کال آئی تھی کسی بڑی عدالت والوں نے آپ کو فوراً واپس فون کرنے کا حکم دیا ہے۔ یا اللہ خیر کہتے فون ملا اپنا نام بتایا کہ اس نمبر سے مجھے واپس فون کرنے کا حکم ملا ہے۔ جواب بڑے مؤدبانہ انداز شیریں لہجہ میں تھا ”جی میں نے کال کی تھی میں اے ڈی ایم سرگودھا کی عدالت سے ریڈر بول رہا ہوں ہمارے سر شہزادہ احمد کبیر اکبر صاحب بات کریں گے ہولڈ فرمائیں میں ملاتا ہوں“ کیا؟ حیران ہو پوچھتے میرے منہ سے ایکسائٹمنٹ سے ”اوئے کبیریاں توں“ نکلتے رہ گیا

اب میں کوئی چالیس برس بعد گورنمنٹ ہائی سکول سیالکوٹ میں آٹھویں نویں کا طالب علم بن اپنے سیٹ فیلو اور گہرے دوست کبیر سے بات کر رہا تھا۔ اور ہم دونوں سکول کے دنوں میں پہنچ چکے تھے۔ اچانک خیال آیا تو پوچھا ”مگر تم نے مجھے ڈھونڈ کیسے نکالا“ ؟

” بس جب سے سرگودھا تعیناتی ہوئی جی کر رہا تھا کہ ملوں مگر نہ تمہاری دکان کا نام یاد نہ ایڈریس۔ بس اتفاق، کوئی دو ہفتہ قبل کسی کیس میں وکیل فیصل آباد سے پیش ہوا تو اسے تلقین کی کہ اگلی تاریخ پر پیشی پہ آتے تم نے وہاں سے ایک فون نمبر لا کے دینا ہے۔ بس اتنا پتہ ہے کہ نام لئیق احمد آٹو پارٹس کا کاروبار اور تعلق جماعت احمدیہ سے ہے۔ ابھی کچھ دیر قبل کسی احمدی وکیل کی معرفت ڈھونڈتے ڈھانڈتے کل شام ہی پتہ چلنے والا فون نمبر مجھے دیا اور میں نے کھڑکا دیا۔ اب ملاقات کا سوچتے ہیں“

مجھے اچانک یاد آیا اور بتایا کہ بھائی اسی اتوار دوپہر کو مجھے مع بیگم سرگودھا ایک شادی میں شرکت کرنا ہے اگر فارغ ہو ناشتہ تمہارے ساتھ کروں گا۔ مجھے تم سے یہ بھی پوچھنا ہے کہ ”تتھ کو تتھ کہنا ہے کہ تتھ“ دونوں طرف سے قہقہہ بلند ہوا۔

فون بند ہو چکا تھا اور میں پیچھے کرسی پہ سر ٹکا آنکھیں موندیں 1953 کے گورنمنٹ ہائی سکول سیالکوٹ میں پہنچ چکا تھا۔ والد صاحب کے سیالکوٹ میں کاروباری شرکت ہوتے ہم وہاں منتقل ہو موجودہ علامہ اقبال روڈ ( اس وقت نام کچھ اور تھا ) پر علامہ اقبال کے گھر سے ساتھ والے مکان میں کرایہ پہ آ چکے تھے۔ گو ہمسایہ گھر کی میری بہنوں کی ہم عمر لڑکیوں سے یہ معلوم ہو گیا تھا کہ علامہ اقبال والا گھر اور انہی کا گھرانا ہے مگر اس کی اہمیت کا اس وقت ادراک ہی نہ تھا۔

چھٹیوں کے بعد سکول داخلہ کے لئے بھی وہاں کے ایک ریٹائرڈ استاد معیت میں جا ٹیسٹ میں فیل ہو جانے کے باوجود ان محترم کے لحاظ اور میرے پر اعتماد وعدہ کہ ”انشاءاللہ ایک ہفتہ کے اندر مجھے آپ کلاس کے لائق ترین طلباء میں شریک پائیں گے“ آٹھویں جماعت میں داخلہ مل چکا تھا۔ اور پہلے دن ہی مانیٹر کبیر کی ذہانت کا اندازہ ہو چکا تھا۔ دوسرے تیسرے روز انگریزی کے استاد نے جو ٹ اور ٹی کو ت کی ادائیگی ہی کر سکتے لفظ ٹوتھ ( دانت ) پڑھاتے اسے تتھ بولا تو دہرائی کرتے شاگرد نے بھی تتھ ہی کہا تو ماسٹر صاحب نے کبیر سے مخاطب ہو کہا ”اوئے کبیریا اوئے اینہاں نوں سمجھا اوئے میں تے تتھ کہناں پر تسی تتھ نہ کہو بلکہ تتھ کہو“ اس وقت کبیر نے بڑی متانت سے کلاس کو صحیح تلفظ بتاتے دہروایا۔

اور کسی کو ہنسنے کا موقع نہ دیا لیکن کلاس ختم ہونے کے بعد سب کبیر سمیت تتھ دہراتے قہقہے لگا رہے تھے اور اسی وقت میرا اس ذہین طالبعلم سے تعارف ہوا اور ایک دو ماہ بعد ہم دونوں سیٹ فیلو بھی تھے اور گہرے دوست بھی۔ اور وہ مانیٹر اور میں نائب مانیٹر تھا۔ ہم سکول کے بعد بھی اکٹھے ہو جاتے کبھی ان کے گھر جا مل کے پڑھتے اور سبق میں کوئی مشکل ہوتی تو بلا جھجک استاد کے گھر پہنچ جاتے اور ہر استاد انتہائی شفقت سے بلا کوئی چتون ماتھے پہ لائے سمجھا دیتا۔

( افسوس اس معاملہ میں فیصل آباد سکول میں تجربہ خاصا تلخ رہا ) کبیر کتابی کیڑا تھا اور سکول لائبریری سے ہر موضوع پر کتابیں لاتا اور بازار سے بھی۔ میری بھی لائبریری کی طرف رہنمائی کی گو میرا اکثر وقت سکول کے بعد طبعی رجحان کے باعث والد صاحب کے کارخانہ میں گزرتا۔ نویں کے بعد ہم فیصل آباد منتقل ہو گئے مگر کبھی کبھار خط و کتابت ہو جاتی۔ سیکنڈ ائر میں وہ کالج ٹور کے ساتھ فیصل آباد آیا تو خوب ساتھ رہا اور 1959 کی سردیوں کی چھٹیوں میں خصوصی اسے ملنے سیالکوٹ تین چار روز اس کے ساتھ گزار آیا۔ یہ آخری ملاقات تھی اور اب تقریباً چالیس برس بعد اتوار کی صبح سرگودھا میں اس کی سرکاری کوٹھی کے وسیع لان میں بیٹھے ناشتہ کرتے ہم پھر گورنمنٹ ہائی سکول کے آٹھویں نویں کے طالبعلم بنے بیٹھے تھے جب کہ بیگمات الگ بیٹھی گپ شپ کر رہی تھیں

ہم پرانے کلاس فیلوز کو یاد کر رہے تھے۔ ہم چوری چھپے فلم بیجو باورا کا دیکھنا یاد کر ہنس رہے تھے، ہم نے سردیوں میں سکول کے لان میں ایک درخت کے نیچے لگی کلاس اور لمبی داڑھی والے بہت بزرگ جغرافیہ کے استاد کو یاد کیا جن کے اوور کوٹ کی لٹکتی جیبوں کو ہم نے ان کے دائیں بائیں اس درخت سے گرے ہرڑ کی شکل کے پھل سے بھر دیا تھا اور استاد حیران تھے کہ تمام لڑکے ہنس کیوں رہے ہیں ( اب ہمیں اپنی اس شرارت پر افسوس ہو رہا تھا ) ۔

ہمیں اپنے بغیر صحیح معلومات لئے ہیڈ مرالہ دیکھنے کا شوق پورا کرنے سائیکلوں پر نکل پڑنا یاد آیا کہ مرالہ گاؤں پہنچنے سے قبل ہی بس ہو چکی تھی اور جب کسی سے پتہ چلا ہیڈ مرالہ مرالہ کے نام پر ضرور ہے مگر ابھی بہت دور ہے تو حسرت لئے واپس لوٹے شدید مخالف ہوا نے نانی یاد کرا دی تھی۔ ہمیں وہ پوری سکول لائف میں واحد انتہائی زور سے ہتھیلیوں پہ پڑے چار چار سوٹے یاد آئے جو تاریخ اسلام پڑھاتے ہمارے انتہائی شفیق و وجیہ استاد نے انتہائی ادب سے سننے والے لیکچر کے دوران ہنسنے اور شرارت کرنے کے تاوان میں لگائے تھے۔

ہم سکول ٹائم کے بعد مرے کالج ہوسٹل کی دیوار کے ساتھ نارمل کے امتحان کے لئے چند منتخب طالب علموں کے گروپ کی اس اردو کلاس کو یاد کر ہنستے آنسو نکال رہے تھے کہ اردو کے انتہائی شریف النفس استاد جب میر کے شعر

قطرہ دریا میں جو مل جائے تو دریا ہو جائے
کام اچھا ہے وہی جس کا مآل اچھا ہے

کی تشریح فرما رہے تھے تو ہوسٹل کمرے کی کھڑکی سے کسی لڑکے کی کھنکتی اونچی آواز میں قطرے کے ملاپ کے اس ”نتیجے“ کا بتایا گیا جسے سن کے ماسٹر صاحب کا منہ شرم سے لال اور پسینہ سے شرابور ہو گیا اور وہ اپنا مخصوص محاورہ ”دیوس کہیں کا“ کہتے کلاس دور اٹھا لائے تھے۔ ( زمانہ آج کا نہیں تھا )

تین گھنٹے لمحوں میں لڑکپن میں ہی بیت چکے تھے

شادی کے پروگرام کا وقت ہو چکا تھا اور ہم اجازت لے نکل آئے یہ کبیر سے میری آخری بالمشافہ ملاقات تھی۔ اس کے بعد وقفہ سے چند بار فون پہ بات ہوئی پھر شاید اس کا تبادلہ کہیں اور ہو گیا۔ کینیڈا آنے سے کچھ عرصہ قبل لاہور کے روٹری کلب کے کسی چیپٹر کے اخباری اشتہار میں جس پر نہ مکمل ایڈریس تھا نہ فون نمبر، اس کا نام دیکھا تو اٹکل سے خط لکھ دیا مگر جواب سے محروم رہا

پچیس برس کے قریب مزید گزر چکے بیس برس کینیڈا منتقل ہوئے ہوچکے۔ اکیاسی سال کی عمر کے اس بوڑھے کے اکثر ہم عمر سنگی ساتھی اس پار جا چکے مگر جب بھی موسلادھار بارش پڑ رہی ہوتی ہے یا شدید برف باری کے ساتھ برف کے جھکڑ اڑاتی تیز ہوائیں چل رہی ہوتی ہیں تو کھڑکی کھول سامنے سڑک پار بنے تالاب اور اس کے ارد گرد لگے قدرتی جیسے جھاڑ جھنکار کا نظارہ کرتے ان جھکڑوں، برستی بارش، پھوار یا بادلوں میں ہیولے سے ابھرتے کسی ایسے ہی سنگی ساتھی کا روپ دھار لیتے اور پھر بیتے دن لوٹ آتے ہیں۔ کبھی کبھار کوئی ہیولا ایسا بھی ہوتا ہے کہ جسے گزرے زمانے کی طرح سامنے دیکھتے رہنے کو جی کرتا ہے مگر پھر دیر تک اس سے باتیں ہوتی ہیں

دو روز قبل تیز برف باری اور تیز برف اڑاتی آندھی شہزادہ احمد کبیر اکبر، نہیں کبیر کو سامنے لے آئی اور ساتھ کئی یادیں۔

کچھ عرصہ قبل ”ہم سب“ میں لکھے ایک دوست کے ذکر نے اس کو نہیں تو اس کے بچوں کو ملا دیا شاید اب پھر کسی دن کبیر مجھ ڈھونڈ نکالے یا اس کے بچے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments