بنی اسرائیل سے اسرائیل تک تین مذاہب کا مرکز: قسط نمبر 8


اقوام متحدہ اور اسرائیل

میں نے پچھلے صفحات میں اس موضوع پر بات کی ہے کہ کس طرح جنگ عظیم اول اور دوم میں یہودیوں نے انگریزوں اور روسیوں کی مدد کی جس کے نتیجے میں انہوں نے ان کے لیے ایک الگ وطن کی کوششوں میں تعاون کا وعدہ کیا۔ اسی وعدے کی پاسداری کی خاطر برطانیہ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے منعقدہ اجلاس میں 15 مئی 1947 کو ایک درخواست پیش کی جس میں کہا گیا کہ یہودیوں کو ایک الگ وطن کی اجازت دی جائے۔ ایک سیر حاصل بحث کے بعد اس مسئلے کے حل کی تلاش کے لیے ایک خصوصی کمیٹی UN Special Committee on Palestine (UNSCOP) تشکیل دی گئی۔

جس سے یہ کہا گیا کہ وہ اس مسئلے پر اپنی سفارشات پیش کرے۔ یاد رہے اس کمیٹی میں گیارہ ممالک ( آسٹریلیا، کینیڈا، چیکوسلواکیا، گوئٹے مالا، ہندوستان، ایران، نیدرلینڈز، پیرو، سویڈن، یوروگوئے اور یوگوسلاویہ) کے نمائندے تھے۔ اس فہرست میں ایک مسلمان ملک ایران بھی تھا جو اس وقت انگریزوں، روسیوں اور امریکیوں کا اہم اور با اعتماد حامی تھا۔ اس فہرست میں ان میں سے کوئی بھی نہ تھا جن کے متعلق فیصلہ ہونے جا رہا تھا۔ اس کمیٹی نے سفارش کی کہ فلسطین کو تقسیم کر کے ایک آزاد عرب ریاست، ایک یہودی ریاست اور یروشلم کو ایک انٹرنیشنل شہر بنایا جائے۔ اس تجویز کو فلسطینی عربوں اور عرب لیگ کے ممبران نے کلی طور پر مسترد کر دیا، لیکن کمزور کی کون سنتا ہے۔

پھر ایک دن آیا جب 29 نومبر 1947 کو (فلسطینی عربوں کے قرار داد مسترد کرنے کے باوجود اور عرب لیگ کے تمام ممبروں کا اس کے خلاف ووٹ دیے ) تقسیم فلسطین اور قیام اسرائیل کی قرارداد منظور کر لی گئی اور ایک قضیے کی بنیاد رکھی جو پچھلے ستر سال سے ایک جنگ کا روپ لیے ہوئے ہے۔

اس طرح دو ہزار سال پہلے فلسطین سے نکالے گئے یہودی ایک دفعہ پھر اپنے آبائی علاقے میں اسرائیل کے نام سے ایک ریاست بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ لیکن جیسا یہودیوں اور ان کے حواریوں نے سوچا تھا اس کے الٹ ہوا۔

اس موقع پر یہ بات یاد رکھنا بے حد ضروری ہے کہ جنگ عظیم اول میں عرب اور یہودی دونوں ہی اتحادیوں کا ساتھ دے رہے تھے۔ عربوں کا مقصد ترکوں سے آزادی حاصل کر کے اپنی ریاستیں قائم کرنا تھا۔ جنگ عظیم اول میں عربوں نے ترکوں سے تو آزادی حاصل کر لی اب اتحادیوں سے آزادی حاصل کرنا باقی تھی (جبکہ یہودیوں کا مقصد فلسطین کے اندر الگ ملک کے قیام کے لیے مدد حاصل کرنا تھا) ۔

تاریخ میں یہ بات واضح طور پر مو جود ہے کہ انگریزوں نے دونوں کے ساتھ ہی وعدے کیے تھے۔ صرف یہی نہیں بلکہ روس نے بھی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے یہودیوں کو اپنے ہاں سہولتیں دیں اور جرمنی سے آنے والے یہودی پناہ گزینوں کو پناہ بھی دی۔ روس نے جنگ کے دوران یہودیوں سے مدد بھی مانگی اور اس کے بدلے انہیں اسرائیل کے قیام میں مدد فراہم کرنے کا وعدہ بھی کیا اور انہوں نے ایسا کیا بھی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ دوسری جنگ عظیم کے آغاز سے ہی امریکہ براہ راست اس میں شریک نہیں تھا لیکن بعد میں جب جاپان نے اس پر ایک حملہ کیا تو وہ بھی شریک ہو گیا اور دوسری جنگ عظیم کا خاتمہ اسی کے پھینکے ہوئے ایٹم بموں سے ہوا۔

یہودی، جو دنیا بھر میں پھیلے ہوئے تھے اور جن کی تعداد بھی زیادہ نہیں تھی تووہ کون سی بات تھی جس کی وجہ سے روس، برطانیہ، امریکہ، فرانس سب ان کی مدد حاصل کرنا ضروری سمجھتے تھے۔ یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب بہت تفصیل سے دیا جا سکتا ہے۔

میں مختصر طور پر صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ یہودیوں کو یہ معلوم تھا کہ ان کی تعداد بہت کم ہے اس لیے انہوں نے دو میدانوں کے اندر اپنا لوہا منوایا ایک علم اور (ایٹم بم بنانے میں بھی ایک یہودی کا اہم کر درا ہے ) دوسرا معیشت، اس کے ساتھ ساتھ دنیا کے مختلف اہم ترین نشریاتی اداروں کا کنٹرول بھی انہیں کے پاس تھا۔

اس لیے جب جنگ عظیم دوم ختم ہوئی اور انگریزوں نے وعدے نبھانے کا فیصلہ کیا تو انہوں نے عربوں کے علاقے عربوں کے سپرد کر دیے ( جیسے شام، عراق، سعودی عرب، لبنان، اردن وغیرہ) لیکن فلسطین کی تقسیم کر کے ایک حصہ یہودیوں اور ایک عربوں کو دے دیا۔ عرب در حقیقت ایسا نہیں چاہتے تھے۔

یہاں پر یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ کیا عربوں کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ یہودی اس جنگ میں اتحادیوں کا ساتھ اسی بنیاد پر دے رہے ہیں کہ انہیں ان کا وطن دلوایا جائے گا اور فلسطین کو تقسیم کیا جائے گا؟ اب تک جو میں نے پڑھا ہے اس کے مطابق میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ یہ بات ان کے علم میں تھی لیکن وہ ہر قیمت پر ترکوں سے مکمل آزادی حاصل کرنا چاہتے تھے۔ اور اس کے لیے وہ کوئی بھی قیمت دینے کو تیار تھے، جس کی ایک شکل فلسطین کی تقسیم تھی۔ عربوں کے بیشتر علاقوں میں عرب ہی رہتے تھے اس لیے انہیں یہ یقین تھا کہ ان علاقوں میں عربوں کو ہی حکمران بنایا جائے گا اور اس بات کا بھی علم تھا کہ فلسطین کا کچھ حصہ یہودیوں کو بھی دیا جائے گا۔

میں اس بات میں صرف اتنا اضافہ کروں گا جن سے عرب ممالک کی حکمرانی کا وعدہ کیا گیا تھا اور وہ بادشاہ بننے والے تھے انہیں سب معلوم تھا۔ انہیں صرف علم ہی نہیں تھا بلکہ وہ اس منصوبہ کا حصہ بھی تھے۔ لیکن عوام ان سے مختلف سوچتے تھے۔ اس لیے جیسے ہی فلسطین کی تقسیم ہوئی تو عوام اس کے خلاف کھڑی ہو گئی۔ اگر آپ 1948 کی عرب اسرائیل جنگ دیکھیں تو بہت کم عرب ریاستیں اس جنگ میں حصہ لیتی دکھائی دیں گی۔ نہتے عربوں نے ہی جنگ میں جانیں قربان کیں۔ اس وقت اسرائیل ریاست کو قائم ہوئے صرف چند ماہ ہی ہوئے تھے ان کی باقاعدہ فوج بھی نہیں تھی۔ عرب اگر مل کر سوچتے تو نتیجہ مختلف ہو سکتا تھا۔ اس جنگ کا کیا انجام ہوا اس پر ہم اگلے صفحات میں بات کریں گے۔

شاید یہ بات بہت سے لوگوں کو اچھی نہ لگے لیکن میں نے اب تک جو پڑھا، اس بناء پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ یہ تقسیم فلسطینی عرب حکمرانوں کی مرضی سے ہوئی تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ تقسیم کے وقت اسرائیل کو تھوڑا حصہ دیا گیا اور بعد میں اس نے اپنی طاقت کے بل بوتے پر ایک بہت بڑے علاقے پر قبضہ کر لیا۔ انہیں اس بات کا علم تھا کہ بڑے علاقے پر قبضہ کرنے کے لیے تین چیزوں کی بہت ضرورت ہے ؛ افرادی قوت، معاشی طاقت اور اس کے ساتھ ساتھ مقبوضہ علاقہ۔

انہوں نے ہر جائز اور ناجائز طریقہ اختیار کر کے فلسطین کے بہت بڑے علاقے پر قبضہ کر لیا۔ غریب عربوں سے زمین کی خریداری بھی ایک حربہ تھا جو وسیع پیمانے پر آزمایا گیا۔

پہلی عرب اسرائیل جنگ کے وقت اسرائیل کے پاس افرادی قوت بھی تھی اور ایک مخصوص علاقہ بھی تھا اور یوں ایک ملک (جسے کہا گیا تھا کہ تمہارا فلسطین میں پچاس فیصد کے قریب حصہ ہو گا) فلسطین کے ستر فیصد سے زائد ایک بڑے حصے پر قابض ہے اور فلسطینی سمٹ کر غزہ کی پٹی اور ویسٹ بنک تک محدود ہو گئے ہیں۔ یہ سب ممکن نہیں تھا اگر یہودیوں کا پختہ عزم، ان کی یکسوئی، اس کام کے لیے جدوجہد، مغرب کی ہر طرح کی مدد، ان کی معاشی طاقت، علمی برتری اور ابلاغ پر قبضہ نہ ہوتا۔ اس کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ خاص طور پر عرب قیادت کی بے حسی بھی ان حالات کی ذمہ دار ہے۔

اس سیریز کے دیگر حصےاسرائیل میں یہودیوں کی نقل مکانی: قسط نمبر 7عرب اسرائیل پہلی جنگ 1948- قسط نمبر 9

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments