8 جنوری 1953ء کی طلبا تحریک کا ایک نا قابل فراموش کردار: ڈاکٹر محمد سرور


1960ء کی دہائی میں جب ہم پرائمری سے سیکنڈری اسکول میں پہنچے تو ہمارے ذہن میں دو باتیں پتھر پر لکیر کی طرح نقش ہو چکی تھیں۔ ایک تو یہ کہ یہ جو مارشل لا ہے اس سے نفرت کرنی چاہیے اور دوسرے یہ کہ طلبا تحریک سے محبت کرنی چاہیے۔ ان دونوں باتوں کا منظر یا پس منظر کیا تھا، اس کے بارے میں اس وقت تک ہمیں کچھ نہیں معلوم تھا۔ یہ باتیں بس ادھر ادھر سے کانوں میں پڑ گئی تھیں۔ ایک طرح سے یہ سبق ہم نے عوامی درس گاہوں میں پڑھا تھا۔

جیک لائن بوائز سیکنڈری اسکول میں پڑھائی کے دوران معلوم ہوا کہ طالب علموں نے ہڑتال کردی ہے اور ہمارا اسکول بھی بند ہو گیا۔ ہم سب لڑکے خوشی خوشی کلاسوں سے باہر نکل آئے اور طلبا تحریک زندہ باد کے نعرے لگانے لگے۔ ان ہی دنوں طلبا تحریک کے بڑے لیڈروں کو شہر بدر کر دیا گیا ہے۔ اب اس تحریک سے ہماری دل چسپی بڑھنے لگی۔ شوق کا یہ عالم تھا کہ فتح یاب علی خان، معراج محمد خان، علی مختار رضوی اور دیگر شہر بدر طالب علموں کی تصویریں اخبارات سے کاٹ کر بہت راز داری سے اپنی اسکول کی کاپیوں میں چپکا لی تھیں۔

کالج تک پہنچتے پہنچتے این ایس ایف کی تنظیم سے باقاعدہ تعلق ہوا مگر اس تنظیم میں میرا کوئی نمایاں کردار نہیں تھا۔ بس ایک خاموش کارکن کی حیثیت سے میں بھی اس کارواں میں شریک تھا اور اسی کارواں کے ایک رہرو ہونے کی وجہ سے طلبا تحریک کی تاریخ سے شناسائی کا مرحلہ آیا۔ اب معلوم ہوا کہ ہماری این ایس ایف کی ماں تو ڈی ایس ایف تھی اور ڈی ایس ایف کے سب سے بڑے ہیرو ڈاکٹر محمد سرور تھے۔

ہمارے زمانے میں این ایس ایف کے طلبا ڈاکٹر محمد سرور کا نام بڑے احترام اور محبت سے لیا کرتے تھے۔ مجھے بھی ان سے ملنے کا بے حد اشتیاق تھا۔ پھر ایک دن اچانک ان سے ملاقات تو نہیں کہنا چاہیے، بس ان کو قریب سے دیکھنے کا موقعہ مل گیا۔ یہ موقعہ اس طرح ملا کہ 1974ء میں کٹیرک ہال کراچی میں ینگ رائٹرز فورم کے زیر اہتمام ”یوم مئی“ کا مشاعرہ ہونے والا تھا۔ اس کے لیے چندہ جمع کرنے کی ایک میٹنگ، رضویہ سوسائٹی میں، ڈاکٹر قمر عباس ندیم کے گھر پر ہوئی جس میں فہرست بنائی گئی کہ کہاں کہاں، کس کس کو جاکر چندہ اکٹھا کرنا ہے۔

ڈاکٹر سرور کے پاس جانے کی ذمہ داری مجاہد بریلوی کو دی گئی اور ان کے ساتھ مجھے بھی نتھی کر دیا گیا۔ میٹنگ سے باہر نکلتے ہی میں نے مجاہد سے کہا کہ ڈاکٹر سرور سے فون کر کے وقت لے لو تو پھر جا کر چندہ لے آئیں۔ مجاہد نے بڑے مضحکہ خیز انداز میں میری طرف دیکھتے ہوئے کہا ”ارے یار! ڈاک صاب کو فون وون کیا کرنا، چندہ ہی تو لینا ہے، بس چلے چلیں گے کسی وقت بھی“ ۔ مجاہد نے جس طرح ڈاکٹر صاحب کو ’ڈاک صاب‘ کہا تو مجھے اندازہ ہو گیا کہ یہاں کوئی فارمیلٹی نہیں ہوگی، اور وہی ہوا۔ ڈاکٹر سرور کی کلینک فردوس کالونی کے پوسٹ آفس کے بالکل سامنے تھی جہاں سے شہر کی بڑی سڑک کے ایک جانب رضویہ کالونی تھی اور دوسری جانب فردوس کالونی تھی۔

ایک دن مجاہد اور میں بغیر بتائے ہوئے ان کی کلینک پہنچ گئی۔ بہت چھوٹی سی ایک دکان میں کلینک تھی، شام کا وقت تھا ڈاکٹر صاحب مریضوں کو دیکھ رہے تھے۔ مجاہد نے ذرا سا کلینک کا پردہ سرکایا، ڈاکٹر صاحب کی نظر ہم پر پڑی، جو اس وقت ایک مریض کو دیکھ رہے تھے۔ مجاہد کو دیکھتے ہی کہنے لگے کہ میں تو دو دن سے انتظار کر رہا تھا کہ تم آؤ گے، اچھا ایک منٹ رکو میں ابھی ملتا ہوں۔ مریض سے فارغ ہونے کے فوراً بعد وہ ہماری طرف بڑھے اور کہنے لگے ”سب انتظامات تو ٹھیک جا رہے ہیں نا؟

جالب سے میری بھی بات ہو چکی ہے“ جس وقت وہ یہ مختصر سے دو جملے کہہ رہے تھی اسی وقت ان کا ایک ہاتھ پتلون کی پچھلی جیب کی طرف جا رہا تھا، جہاں سے انہوں نے اپنا بٹوا نکالا اور ہمارے کچھ کہے بنا ہی قائد اعظم والے دو نوٹ نکال کر مجاہد کے ہاتھ میں خاموشی سے تھما دیے۔ اسی دوران ایک اور مریض آ کر کرسی پر بیٹھ گیا، ڈاکٹر صاحب نے ہمیں خدا حافظ کہا اور ہم خاموشی سے باہر نکل آئے۔ مجاہد نے باہر آتے ہوئے کہا ”دیکھو یار، ایسے ہوتے تھے ہمارے سینئر لوگ، پورے کمٹ منٹ کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں“ ۔

ہر چند کہ سلام اور خدا حافظ کے علاوہ، ڈاکٹر سرور سے ہماری کوئی لمبی چوڑی بات نہیں ہوئی تھی مگر میرے ذہن پر ان کی شخصیت کا بہت اچھا اثر ہوا۔ ایک تو بلند قامت، باوقار اور مہذب شخصیت، پھر دل میں گھر کر لینے والے مٹھاس بھرے لہجے اور اس پر اپنے نظریے سے مکمل وابستگی کے حسن کی چھاپ، بھلا ایسی شخصیت کو کون بھول سکتا ہے۔ یہ تھے ہمارے وہ سینئر رہنما جن کے ذکر کے بغیر پاکستان میں لکھی جانے والی طلبا تحریک کی کوئی بھی تاریخ مکمل ہو ہی نہیں سکتی۔

ان کی دل موہ لینے والی شخصیت کا تاثٔر ابھی تازہ ہی تھا کہ یکم مئی کے مشاعرے کی تاریخ آن پہنچی۔ حبیب جالب لاہور سے کراچی پہنچنے والے تھے۔ انہیں ائرپورٹ سے لے کر ڈاکٹر سرور کے گھر پہنچانے کی ذمے داری بھی مجاہد بریلوی ہی کو سونپی گئی تھی۔ میں بھی مجاہد کے ساتھ ائرپورٹ گیا۔ جالب صاحب کو ائرپورٹ سے ٹیکسی کے ذریعے جمشید روڈ میں واقع ذکیہ اور ڈاکٹر سرور کے گھر پہنچانا تھا، سو ہم نے خاموشی سے انہیں پہنچا دیا۔ سیلفی کا زمانہ نہیں تھا ورنہ ہم بھی اپنی کچھ پبلی سٹی کر وا لیتے۔

دوپہر کا وقت تھا، مئی کی سخت گرمی تھی، ڈاکٹر سرور نے آتے ہی جالب سے کہا کہ ذکیہ ابھی آتی ہوں گی جب تک تمہیں کچھ پینے کو دوں؟ جالب نے کنکھیوں سے مجاہد کی طرف دیکھا اور ڈاکٹر سرور سے کہا کہ ”مشاعرے میں جانے سے پہلے کچھ پی لیں گے“ ۔ گویا منع تو کر دیا لیکن اس منع کرنے کے انداز میں میں حسن طلب کی کچھ ادائیں بھی شامل تھیں۔ ڈاکٹر سرور نے سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا کہ ہاں ہاں وہ بھی ہو جائے گا، چلو ابھی بیئر پی لو۔

بڑی معصومیت سے جالب نے کہا، ٹھیک ہے، ایسے ہی جیسے کوئی مریض اپنے ڈاکٹر سے دوا لیتا ہو۔ ڈاکٹر صاحب نے مجاہد اور میری طرف دیکھتے ہوئے کہا ”تم لوگوں کو کیا دوں؟ کولڈ ڈرنک لے لو“ اور ہمیں پیپسی کا گلاس دے دیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب شراب پر پابندی نہیں لگی تھی اور معاشرے میں بڑوں چھوٹوں کا لحاظ بھی کیا جاتا تھا۔

گھر میں اس وقت شاید کوئی اور نہیں تھا، ڈاکٹر صاحب نے دو بڑے گلاسوں میں بیئر انڈیلی، ایک اپنے لیے اور ایک جالب کے لیے۔ کہنے کو تو وہ گلاس ہی تھے لیکن ہمیں اس وقت گھڑے سے کم نہیں لگ رہے تھے کیوں کہ ہم نے اپنی آنکھوں سے اس وقت تک کسی کو بیئر پیتے ہوئے نہیں دیکھا تھا، فلموں میں البتہ ہیرو کو غم سے نڈھال ہو کر پوری بوتل منہ میں انڈیلتے ہوئے دیکھا تھا۔ اور پھر اس کے بعد جس طرح وہ گرتا پڑتا تھا، وہ تمام منظر نگاہوں میں تھا۔

سچی بات تو یہ ہے کہ اس وقت تک ہمیں بیئر اور وہسکی کا فرق ہی نہیں معلوم تھا۔ باہر آتے ہی میں نے مجاہد سے کہا کہ یار ہمارا مشاعرہ تو فلاپ ہو جائے گا، اتنی ڈھیر ساری شراب پی کر جالب کس طرح شعر پڑھیں گے۔ غالباً اس وقت تک مجاہد کو بھی بیئر اور وہسکی کا فرق نہیں معلوم تھا۔ کچھ افسردہ سی آواز میں کہا کہ ہم کیا کر سکتے ہیں، ہم سے تو بس یہی کہا گیا تھا کہ ائرپورٹ سے انہیں ڈاک صاب کے گھر پہنچا دیں۔ اب آگے وہ جانیں۔ چلو اب چل کر ہال کے انتظامات دیکھتے ہیں۔

شام کو مشاعرہ شروع ہونے سے کچھ پہلے ڈاکٹر سرور، ان کی بیگم ذکیہ اور جالب صاحب گاڑی سے اترے اور ہمیں یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ جالب صاحب اپنے ہی قدموں پر نہایت ہشاش بشاش چلتے ہوئے آ رہے ہیں۔ دل میں لالچ پیدا ہوئی کہ ڈاکٹر سرور تو کمال کے مسیحا ہیں، ان سے میل جول بڑھانا چاہیے۔ مگر ڈاکٹر صاحب میں لونڈیار پنا تھا ہی نہیں تو ان سے میل جول ہم کیسے بڑھاتے۔ اکثر تقریبات میں انہیں دیکھ لیا کرتے تھے۔ اور پھر ہمارے قریبی حلقے میں جو لوگ تھے خصوصاً ڈاکٹر قمر عباس ندیم توان کا ذکر اتنی محبت اور احترام سے کیا کرتے تھے کہ ہمیں فیض صاحب کا شعر یاد آ جاتا تھا:

وہ تو وہ ہے تمہیں ہو جائے گی الفت مجھ سے
اک نظر تم مرا محبوب نظر تو دیکھو

جس زمانے میں ہم نے ڈاکٹر سرور کو دیکھا اس زمانے میں وہ بہت زیادہ فعال نہیں تھے، البتہ پس منظر میں رہ کر ان کی اپنے ترقی پسند ساتھیوں کی پشت پناہی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں تھی۔ ایک لحاظ سے یہ اچھا ہی تھا کیوں کہ ہم نے بہت سے ایسے لوگوں کو بھی دیکھا ہے جو اپنی جوانی کے زمانے سے ہی طالب علم لیڈر مشہور ہو گئے تھے اور اپنے نواسوں اور پوتوں کو جب اسکول چھوڑنے جاتے تھے اس وقت بھی اپنے آپ کو طالب علم رہنما ہی کہلوانا پسند کرتے تھے۔ ڈاکٹر سرور بلاشبہ ان طالب علم لیڈروں میں سے نہیں تھے۔

در اصل ہر انسان کی زندگی کا ایک دورانیہ ہوتا ہے۔ اس دورانیے میں انسان جو کچھ کر لیتا ہے وہی اس کی زندگی کا اثاثہ ہوتا ہے۔ عموماً یہ اثاثہ انسان کے اپنے ذاتی فلاح و بہبود سے متعلق ہوتا ہے جس میں اس کے ماں باپ، بیوی بچے دوست احباب یا رشتہ دار وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔ یہ کوئی ایسی بری بات بھی نہیں لیکن اس سے ایک بلند سطح اور بھی ہوتی ہے، اور وہ سطح، خلق خدا کی فلاح و بہبود سے متعلق ہوتی ہے۔ زندگی کے کسی موڑ پر اگر انسان نے اپنی ذات سے ہٹ کر خلق خدا کے لیے کچھ کیا ہوتا ہے تو اس کی زندگی کے بعد بھی اس کا ذکر اچھے لفظوں میں کیا جاتا ہے اور کیا بھی جانا چاہیے۔ زندہ معاشروں کی ایک بڑی پہچان یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ اپنے محسنوں کے ہمیشہ شکر گزار ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر محمد سرور کی زندگی کے دورانیے میں قیام پاکستان کے فوراً بعد کا زمانہ بہت اہم تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب وہ کراچی میں ڈاؤ میڈیکل کالج کے ایک مقبول طالب علم تھے۔ یونین لیڈر کی حیثیت سے شہرت بھی مل چکی تھی، تقریر کا سلیقہ بھی تھا، تعلیم کی لگن بھی تھی، غرض یہ کہ ایک روشن اور تابناک مستقبل ان کے سامنے تھا۔ اگر وہ اپنی زندگی کو اسی دائرے تک محدود رکھتے توبھی یہ ایک کامیاب زندگی کی نوید ہوتی لیکن پھر وہ اس گروہ انسانی میں شامل نہ ہو پاتے جو اپنے معاشرے، اپنے لوگوں اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے سوچتے ہیں۔

سب سے پہلا قدم تو انہوں نے اسٹوڈنٹس یونین کے قوانین میں تبدیلی کے لیے اٹھایا۔ آج سے ستر سال پہلے کا ڈاؤ میڈیکل کالج، اس کا پرنسپل ایک کرنل جو نہ صرف پرنسپل بلکہ ازروئے قانون اسٹوڈنٹس یونین کا صدر بھی تھا، اس کے کمرے میں داخل ہو کر کہنے لگے کہ اس قانون میں تبدیلی ہونی چاہیے۔ پرنسپل کے بجائے طالب علموں کے نمائندوں ہی کو یونین کا صدر ہونا چاہیے۔ پرنسپل نے ایک نظر ان کی طرف دیکھا اور یونین کے قانون میں تبدیلی کردی۔ بس پہلا پتھر پھینکنے کی دیر تھی کہ اس کے بعد یہ تبدیلی تمام تعلیمی اداروں میں رائج ہو گئی۔ ایک چھوٹی سی نا انصافی کے خلاف ڈاکٹر سرور کا یہ پہلا احتجاج تھا۔ شاید ایسے ہی موقعوں پر ہی کہا جاتا ہے کہ پوت کے پاؤں پالنے ہی میں نظر آ جاتے ہیں۔

ڈاؤ میڈیکل کالج کی یونین کا پلیٹ فارم اہم ضرور تھا لیکن ان کی جد و جہد کے لیے بہر حال یہ ایک چھوٹا پلیٹ فارم تھا۔ غالب نے کہا تھا :ع ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب اور بقول اقبال: ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔ چنانچہ ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھ دی گئی جس کی قیادت کا پرچم اب ان کے ہاتھ میں تھا۔ ڈاؤ میڈیکل کالج سے نکل کر مختلف کالجوں میں ڈی ایس ایف کے جھنڈے گاڑے جانے لگے۔ جب کارواں میں اور لوگ بھی شامل ہو گئے تو پھر 7 جنوری 1953 کو ڈی ایس ایف اور انٹر کالجیٹ باڈی کے کنوینیر کی حیثیت سے انہوں نے یوم مطالبات کا اعلان کر دیا، 8 جنوری کو ارباب اقتدار کی جانب سے کراچی کی سڑکیں خون میں نہلا دی گئیں۔ طالب علموں کے انتہائی معقول اور بنیادی مطالبات تسلیم کرنے کے بجائے، بہت سی ماؤں کے جگر گوشوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا گیا۔

وہ جو اصحاب طبل و علم
کے دروں پر
کتاب اور قلم کا تقاضا لیے
ہاتھ پھیلائے پہنچے
مگر لوٹ کر گھر نہ آئے
وہ معصوم جو بھولپن میں
وہاں، اپنے ننھے چراغوں میں لو کی لگن
لے کے پہنچے
جہاں بٹ رہے تھے
گھٹا ٹوپ، بے انت راتوں کے سائے

پاکستان میں طلبا تحریک کی تاریخ میں 7۔ 8۔ اور 9 جنوری 1953 کے احتجاج کو کبھی نہیں بھلایا جاسکتا۔ اسی احتجاج نے کراچی میں نہ صرف ڈاکٹر محمد سرور بلکہ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی، ڈاکٹر ہارون احمد، ڈاکٹر جعفر نقوی، محمد کاظم بیرسٹر صبغت اللہ قادری جیسے کمیٹڈ لوگ دیے۔ اس کے بعد آنے والے دنوں میں فتحیاب علی خان، معراج محمد خان، علی مختار رضوی، جوہر حسین اور نہ جانے کتنے لوگ اس کارواں کا حصہ بنتے گئے۔

ڈاکٹر محمد سرور نے طالب علموں کی اس تحریک کی جس طرح قیادت کی اور جس طرح انہوں نے اپنے معاشرے اور اپنے لوگوں کے حقوق کے لیے اپنا کردار ادا کیا وہ ان کے بعد آنے والوں پر ایک طرح کا قرض ہی تو ہے جسے خوش دلی سے ادا کیا جانا چاہیے۔

اٹھیں کہ نہ اٹھیں یہ رضا ان کی ہے جالب
لوگوں کو سر دار نظر آ تو گئے ہم


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments