اب ان سے ملنے قبرستان جانا پڑتا ہے


آج صبح برمنگھم کے نزدیک ایک چھوٹے سے قصبے کے قبرستان میں مدفون اپنے ماموں جان کی قبر پر فاتحہ کے لئے حاضری دی۔ قبرستان کی حالت دیکھ کر دل بہت خوش ہوا۔ خوبصورتی سے تراشیدہ گھاس کے قطعوں کے درمیان واقع قبرستان کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ درمیان میں سڑک ہے جس کے ایک طرف عیسائی لوگوں کی قبریں ہیں اور دوسری طرف مسلمانوں کی قبور ہیں۔ دونوں اطراف کی قبریں کچی ہیں، ایک قطار میں بنی ہوئی ہیں۔ دونوں اطراف کی زیادہ تر قبروں پر بڑے خوبصورت کتبے نصب ہیں جن پر مدفون کا نام اور تاریخ وفات درج ہیں۔ ایک بات جو عیسائی قبرستان کو دوسری طرف کی قبور سے ممتاز کرتی نظر آئی وہ تھی تازہ پھولوں کی موجودگی۔ ہر قبر پر تازہ پھولوں کی موجودگی بتا رہی تھی کہ ان قبروں پر کوئی اپنا حاضری دینے آیا ہے۔

ہم ماموں جان کی قبر پر فاتحہ پڑھ کر واپس آنے لگے تو ہماری نظر ایک عمر رسیدہ صاحب پر پڑی جو ایک قبر کے سامنے رکھے ہوئے لکڑی کے ایک بینچ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ میں ان کے پاس گیا اپنا تعارف کروایا اور ان سے اجازت لے کر ان کے ساتھ بینچ پر بیٹھ گیا۔ انہوں نے بھی بڑی خوش دلی سے اپنا تعارف کروایا، ان کا نام ڈرکن تھا اور وہ بھی ہمارے قصبے کے رہائشی تھے۔ وہ اپنی مرحومہ بیوی کی قبر پر آئے تھے جو ایک سال قبل کرونا کی وجہ سے وفات پا گئی تھیں۔

انہوں نے بتایا کہ وہ روزانہ اپنی مرحومہ بیوی کی قبر پر آتے ہیں ایک گھنٹہ یہاں بیٹھ کر اس کے ساتھ گزرا ہوا وقت یاد کرتے ہیں اور پھر گھر جاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کا اپنی بیوی سے پچاس برسوں کا ساتھ تھا۔ ان کا اپنی بیوی کے ساتھ بہت اچھا وقت گزرا۔ یہ بینچ چند ماہ قبل انہوں نے اپنے یا قبرستان کا وزٹ کرنے والے کسی بھی فرد کے لئے یہاں رکھوایا تھا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ وہ گھر میں اکیلے رہتے ہیں، دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے جو اپنے اپنے گھروں میں رہتے ہیں۔

دن کو جب بھی گھر میں وہ تنہائی محسوس کریں یا بیوی کی یاد آئے تو وہ یہاں آ جاتے ہیں اور کچھ وقت یہاں گزار کر واپس چلے جاتے ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ مغرب کا کلچر تو بہت مختلف ہے وہ کیسے یہاں کے لئے وقت نکال لیتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ مشرق والے سمجھتے ہیں کہ وفا اور محبت صرف مشرق میں ہی رہ گئی ہے۔ ہر معاشرے میں مختلف قسم کے لوگ ہوتے ہیں ایسے ہی مغربی معاشرے میں بھی ہیں۔ یہاں پر بھی درد دل اور محبت کرنے والے لوگ بستے ہیں گو کہ اب مغربی معاشرہ زوال پذیر ہے۔

لیکن ہمیں بڑی شدت سے اس بات کا ادراک ہے اور ہماری کوشش ہے کہ خاندانی معاشرت کو زندہ رکھا جائے۔ میاں بیوی کے رشتے کو جس طرح مشرقی عورت اور مرد نبھاتے ہی ہیں اسی طرح مغرب والوں کی نظر میں بھی یہ ایک مقدس رشتہ ہے جس کو وہ آخری دم تک نبھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی اجازت سے ان کی تصویر کے ساتھ ان کی شریک حیات کی قبر کی تصویر میں نے لی۔ اس سے چند ہفتے قبل یارکشائر کے شہر لیڈز میں اپنے مرحوم دوست کی قبر پر حاضری دی۔ وہاں بھی بہت بڑے قبرستان کی بہت اچھے طریقے سے دیکھ بھال ہوتی دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ برطانیہ والوں نے زندگی میں اپنے لوگوں کو تمام بنیادی سہولتیں دے کر نہ صرف ان کا ہر طرح سے خیال رکھا ہوا ہے بلکہ مرنے کے بعد ان کی قبر کا بھی بہت اچھی طرح خیال رکھتے ہیں۔

برطانیہ آنے سے قبل اپنے شہر کے بڑے اور قدیمی قبرستان میں جانے کا اتفاق ہوا۔ خود رو پودوں اور بے ترتیبی سے اگی ہوئی جھاڑیوں نے قبروں کے درمیان راستوں کو بند کر رکھا تھا۔ قبروں پر لگے کتبوں کے ساتھ اگی ہوئی لمبی گھاس نے ان کو چھپایا ہوا تھا۔ کچھ قبروں کے آس پاس جگہ صاف تھی لیکن زیادہ تر قبروں کا برا حال تھا جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ کافی عرصہ سے ان کو دیکھنے کوئی نہیں آیا۔ یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوا کیونکہ ان میں ایسی ایسی نابغہ روزگار ہستیوں کی قبریں تھیں جنہوں نے اپنی اولاد کے لئے کیا کچھ نہیں کیا تھا۔ ہمارے اکثر قبرستانوں کا یہی حال ہے۔ ہم جیتے جی انسانوں کی قدر نہیں کرتے ہیں اور مرنے کے بعد تو ان کو بالکل ہی بھول جاتے ہیں۔ ہم میں سے کتنے ہیں جو اپنے والدین، بہن بھائیوں یا اپنی شریک حیات کی قبر پر باقاعدگی سے حاضری دیتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments