منی بجٹ، شہباز شریف کی شرائط اور قومی خود مختاری


اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے قومی اسمبلی میں حکومت کے پیش کردہ منی بجٹ پر گفتگو کرتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ اس کے ذریعے پاکستانی معیشت کو عالمی مالیاتی ادارے کے پاس گروی رکھا جا رہا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اگر حکومت اس بل میں آئی ایم ایف کے خلاف مؤقف اختیار کرے تو اپوزیشن ضمنی بجٹ کی حمایت کے لئے تیار ہے۔

شہباز شریف کا یہ مؤقف اس لحاظ سے دلچسپ ہے کہ جو ضمنی بجٹ آئی ایم ایف کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کو پورا کرنے اور اس فنڈ سے ایک ارب ڈالر کی قسط لینے کے لئے تیار کیا گیا ہے، اپوزیشن اسے ہی آئی ایم ایف مخالف بیانیہ بنانے کی بات کررہی ہے۔ تاہم اس سوال کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھا گیا کہ مالی تخمینہ کو ایک سیاسی بیان میں کیسے تبدیل کیا جائے گا؟ اگر پاکستان اور اس کی سیاسی پارٹیاں عالمی ا داروں کے مقابلے میں پاکستان کے ان مفادات کا ’تحفظ‘ کرنا چاہتی ہیں جن کا بظاہر سوائے نعروں کے کوئی دوسرا نام نہیں ہے تو اس طرز عمل سے کون سے وسیع تر قومی مفاد کی حفاظت مطلوب ہے۔ منی بجٹ کو 360ارب روپے کے اضافی محاصل کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا کیوں کہ ماہرین اور سیاسی لیڈروں کا عام طور سے خیال ہے کہ اس طرح مہنگائی میں اضافہ ہوگا اور لوگوں کی زندگی مزید مشکل ہوجائے گی۔ تاہم اس طویل ، صبر آزما اور پیچیدہ بحث میں کہیں یہ نہیں بتایا جاتا کہ اگر آئی ایم ایف کی شرائط پوری نہیں کی جاتیں تو پاکستان کے پاس عالمی مالیاتی اداروں کے سامنے اپنی ساکھ برقرار رکھنے اور مستقبل میں معاشی امکانات کھوجنے کا کیا امکان باقی رہ جائے گا؟

اپوزیشن لیڈر ایک ایسے دن قومی اسمبلی میں جذبات سے معمور تقریر میں آئی ایم ایف سے ’آزادی‘ حاصل کرنے کی بات کررہے تھے جب کہ قومی اسمبلی کی فنانس قائمہ کمیٹی نے اسٹیٹ بنک کی خود مختاری سے متعلق سرکاری بل کو اپوزیشن کی چند مصنوعی تجاویز شامل کرنے کے بعد منظور کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ حالانکہ منی بجٹ میں عائد کئے گئے محاصل کے مقابلے میں اسٹیٹ بنک کی خود مختاری سے متعلق بل آئی ایم ایف کے مطالبے پر قومی خود مختاری سے دست برداری کا اعتراف ہے۔ اپوزیشن کی قائمہ کمیٹی میں اس بل کو منظور کر کے دراصل اس کی منظوری کی راہ ہموار کردی گئی ہے لیکن اپوزیشن لیڈر منی بجٹ کو آئی ایم ایف کے خلاف مؤقف کی علامت بنانے کی غیر واضح اور غیر حقیقی بات کررہے ہیں۔ قائمہ کمیٹی نے اسٹیٹ بنک کی خود مختاری کے بارے میں جو مسودہ قانون منظور کیا ہے اس میں اپوزیشن کےاصرار پر یہ امور شامل کئے گئے ہیں: ’اسٹیٹ بینک کے گورنر کے عہدے پر دوہری شہریت کے حامل افراد کے تقرر پر پابندی ہوگی۔ گورنر اسٹیٹ بنک کے طور کام کرنے والا کوئی شخص اس عہدہ سے علیحدگی کے دو سال بعد تک کسی ایسے ادارے میں ملازمت نہیں کرسکے گا جس کے ساتھ اس نے بطور گورنر مذاکرات یا معاہدہ کیا ہو۔ اس کے علاوہ اسٹیٹ بنک کا گورنر اور بینک کی اعلیٰ انتظامیہ کو پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ بنایا جائے گا‘۔

دیکھا جاسکتا ہے کہ ان شرائط میں کوئی ایسی قابل ذکر بات موجود نہیں ہے جس سے اسٹیٹ بنک کی خود مختاری کے حوالے سے کوئی رعایت حاصل کی گئی ہو۔ البتہ اپوزیشن الفاظ کے گورکھ دھندے میں کچھ سیاسی سہولت حاصل کرنا چاہتی تھی تاکہ وہ یہ دعویٰ کرسکے کہ اس کے دباؤ پر اس بل میں پاکستان کی خود مختاری بال بال بچ گئی۔ حالانکہ یہ بات اتنی ہی درست ہوگی جتنی وزیر خزانہ شوکت ترین کا یہ دعویٰ ہے کہ : ’اس بل میں اسٹیٹ بنک کی مکمل خود مختاری کا تصور نہیں بلکہ صرف اس کی آزادی کو بڑھانے کی کوشش کی گئی ہے۔حکومت بورڈ آف ڈائریکٹرز کا تقرر کرے گی جو مرکزی بنک اور اس کی اعلیٰ انتظامیہ کو کنٹرول کرے گی۔ اگر کسی بھی وقت حکومت نے محسوس کیا کہ مالیاتی شعبے کا ریگولیٹر مکمل اختیارات کا لطف اٹھا رہا ہے تو اس کے پاس پارلیمنٹ میں سادہ اکثریت کے ساتھ مجوزہ قانون میں ترمیم کرنے کا اختیار ہے‘۔ وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ اسٹیٹ بنک کے گورنر کو سینئر مینجمنٹ کے تقرر یا برطرفی کا مکمل اختیار نہیں ہوگا ۔ حکومت کے پاس ایسے فیصلوں کا جائزہ لینے کے اختیارات ہوں گے۔

گویا وزیر خزانہ خود یہ اعتراف کررہے ہیں کہ اسٹیٹ بنک کو خود مختاری دینے کے بعد مرکزی بنک کی پالیسی سازی پر پاکستانی حکومت کی بجائے عالمی مالیاتی اداروں کا کنٹرول ہوجائے گا۔ البتہ اگر ان اختیارات کا ضرورت سے زیادہ ’لطف‘ اٹھایا گیا تو حکومت سادہ اکثریت سے اس قانون کو تبدیل بھی کرسکتی ہے۔ یہ ایسی ہی سادہ خیالی ہے جس کا اظہار وزیر اعظم عمران خان اقتدار سنبھالنے سے پہلے کبھی آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے کا اعلان کرتے ہوئے کیا کرتے تھے اور اقتدار سنبھالنے کے ایک سال ہی کے اندر ان کی حکومت کو آئی ایف سے امداد ی پیکیج کی درخواست کرنا پڑی تھی۔ اسی طرح شوکت ترین نے بھی گزشتہ سال جون میں قومی بجٹ پیش کرتے ہوئے آئی ایم ایف کو شرائط نرم کرنے پر مجبور کرنے کا بلند بانگ دعویٰ کیا تھا اور اب خرابی بسیار کے بعد منی بجٹ کے ذریعے ان شرائط کو مؤثر کرنے کے لئے کوشش کی جا رہی ہے۔

کسی ملک کی معیشت اسی وقت عالمی اداروں کے پاس ’گروی‘ رکھی جاتی ہے جب کسی ملک میں معاشی بحران ہو، پیداواری صلاحیت مسلسل دگرگوں اور سیاسی انارکی کی وجہ سے قومی حالات ناقابل اعتبار بنا دیے گئے ہوں۔ ملک میں بلاشبہ یہ صورت حال موجود ہے لیکن اس صورت حال کی ذمہ داری تن تنہا حکمران جماعت پر عائد نہیں ہوتی بلکہ اپوزیشن نے بھی مسلسل حکومت کو کمزور کرنے اور اس کے اختیار کو چیلنج کرنے کا اہتمام کیا ہے۔ انتخابات میں دھاندلی کے دعوؤں کے ساتھ ہی ایسا ماحول پیدا کردیا گیا تھا کہ برسر اقتدار آنے والی حکومت پوری یکسوئی سے کسی معاشی منصوبے پر توجہ مبذول نہ کرسکے۔ تحریک انصاف کی قیادت بھی یہ سمجھتی رہی ہے کہ اگر وہ ملکی اپوزیشن کو کمزور اور اس کے اہم لیڈروں کو جیل بھجوا سکے تو وہ بہتر طور سے ملکی معاملات چلا سکے گی۔ اسی کھینچا تانی میں نہ سیاسی احترام و تعاون کا ماحول پیدا ہؤا اور نہ ہی مارکیٹ کو یہ یقین دلوایا جا سکا کہ سیاسی اختلافات سے قطع نظر معاشی فیصلوں پر یکسوئی سے عمل درآمد ہوگا۔

آج بھی قومی اسمبلی میں ہونے والی بحث سے محسوس کیا جاسکتا تھا کہ اپوزیشن اور حکمران جماعت کوئی مسئلہ حل کرنے کی بجائے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے میں مصروف ہیں۔ شہباز شریف کی تقریر کے جواب میں وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے شریف خاندان پر جی بھر کے ذاتی حملے کئے اور ایک بار پھر کرپشن کے علاوہ سابقہ حکومتوں کی مالی بدانتظامی کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ موجودہ حکومت کی مالی مشکلات کی بنیاد دراصل نواز شریف کی حکومت کے دور میں رکھی گئی تھی۔ شہباز شریف نے حکومت پر تنقید تو خوب کی لیکن ساتھ ہی بالواسطہ طور سے منی بجٹ کی حمایت کا اعلان بھی کیا۔ البتہ اسد عمر کی باتوں سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ بھی بین السطور یہ بتانے کی کوشش کررہے تھے کہ اپوزیشن کے پاس اس مالی تجویز کو منظور کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ حکومت اس سے رعایت نہیں مانگ رہی بلکہ اپوزیشن کو خود وہاں سے رعایت لینے کے لئے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ تسلیم کرنا پڑے گا جن کے اشارے کے بغیر ملک میں کوئی فیصلہ ممکن نہیں ہو پاتا۔ منی بجٹ کی منظوری دراصل مملکت پاکستان کی عزت و وقار کا معاملہ بن چکا ہے۔ اس بار بھی آئی ایم ایف کے ساتھ طے پانی والی شرائط کے مطابق اقدامات نہ ہوسکے تو مستقبل میں پاکستان کے لئے کسی بھی عالمی فورم پر کوئی رعایت حاصل کرنا آسان نہیں رہے گا۔

منی بجٹ کی منظوری اور اسٹیٹ بنک کی خود مختاری کے بعد ہی آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر سے کچھ زائد کی قسط وصول ہوسکے گی۔ اس قسط کے بحال ہونے سے ایک تو پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر کو سہارا ملے گا تو اس کےساتھ ہی متعدد عالمی اداروں اور منڈیوں میں پاکستان کو لین دین کی سہولت حاصل ہوگی۔ اس کے برعکس اگر منی بجٹ منظور نہیں ہوتا اور آئی ایم ایف کے ساتھ کیا گیا مالی معاہد ہ ختم ہوجاتا ہے تو غیر ملکی سرمایہ کاری میں فوری رکاوٹ آئے گی، قومی وسائل پر دباؤ میں اضافہ ہوگا اور قومی اخراجات پورے کرنے کے لئے نت نئے بچت منصوبے شروع کرنا پڑیں گے جس کا براہ راست اثر ملک میں افراط زر اور مہنگائی سے ہوگا۔ یعنی جس عذر پر منی بجٹ کو بلاک کرنے یا آئی ایم ایف کے خلاف ’کھڑے ہونے‘ کا دعویٰ کیا جارہا ہے ، آئی ایم ایف کی سرپرستی کے بغیر حالات اسی رخ میں دگرگوں ہونے کا امکان ہے۔

اس معاملہ کا سب سے نازک پہلو یہ ہے کہ قومی مصارف میں کمی کا فوری ا ور براہ راست اثر ملک کے دفاعی اخراجات اور عسکری تیاریوں پر پڑے گا۔ کسی مناسب پیش بندی کے بغیر یہ صورت حال نہ قومی مفاد میں ہوگی اور نہ ہی فوج کے لئے قابل قبول ہوگی۔ فوج ابتر مالی حالات کی وجہ سے پہلے ہی دفاعی بجٹ میں کمی کا سامنا کررہی ہے تاہم وسائل میں اچانک کمی سے ملک کے دفاعی نظام کی بنیاد کمزور ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی الزام تراشیوں کے ہجوم میں منی بجٹ منظور تو ہوجائے گا ۔ لیکن ان عوامل کا تدارک نہیں ہوسکے گا جن کی وجہ سے قوموں کو آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق قومی پالیسیاں بنانے پر مجبور ہونا پڑتا ہے ۔

ستم ظریفی ہے کہ فوج کو ملکی خود مختاری کی علامت سمجھا جاتا ہے اور اس کی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے ملک کے سب سے اہم مالی ادارے اسٹیٹ بنک کی خود مختاری پر سمجھوتہ کیا جا رہا ہے۔ اس پیچیدہ مسئلہ کا حل نعروں اور غیر واضح دعوؤں سے تلاش نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے لئے تصادم کی بجائے مفاہمت اور ایک پیج کی سیاست مضبوط کرنے کی بجائے، سول ملٹری تعاون کی اصطلاح پر نظر ثانی کی شدید ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments