’’جگت تھیٹر‘‘ کے تماشائی


منگل کی صبح چھپے کالم میں آندرے میر نامی محقق کا ذکر ہوا جس نے علمی تحقیق کے بعد ’’اخبار کی موت‘‘ کا اعلان کررکھا ہے۔ مذکورہ مصنف صحافت کی ہر طرز پر کڑی نگاہ رکھتا ہے۔ دورِ حاضر کو وہ ’’مابعدصحافت‘‘ عہد بھی پکارتا ہے۔ وہ مصر ہے کہ انٹرنیٹ کے فروغ کے بعد موبائل فون کا ہر صارف بھی ان دنوں ’’صحافی‘‘ بن چکا ہے۔ یہ اب کوئی مخصوص دھندانہیں رہا جس کے لئے آپ کو خاص تربیت اور استادوں جیسے مدیر کی ضرورت ہوتی ہے۔ حال ہی میں مری میں رونما ہوئے المناک واقعات پر غور کریں تو ان کی ’’خبر‘‘ اصولی طورپر ہمیں روایتی صحافیوں اور میڈیا سے نہیں ملی تھی۔ سوشل میڈیا پر چند تصاویر،وڈیو اور پیغامات وائرل ہوئے تو ان کی وجہ سے روایتی میڈیا کے ’’معتبرین‘‘ بھی متحرک ہوئے۔

آندرے میر کی تحقیق یہ تقاضہ بھی کرتی ہے کہ صحافت میں زندہ رہنے کے لئے اس دھندے کی مبادیات سے کامل آگاہ ہونے کے دعوے دار مجھ جیسے قلم گھسیٹوں کو اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوئے فریقین میں سے کسی ایک کے ساتھ ڈٹ کر کھڑا ہونا پڑے گا۔ صحافتی ہنر صرف اسی صورت کام آئے گااگر یہ متحارب فریقین کے دلوں میں ابلتے غصے اور نفرت کو مزید بھڑکاسکے۔

’’غیر جانب داری‘‘ کا منافقانہ دعویٰ میرا کبھی شعار نہیں رہا۔ اپنے مشاہدے سے اخذ کردہ رائے سادہ ترین الفاظ میں بیان کرنے کو ہمیشہ ترجیح دی۔ ’’نوائے وقت‘‘ مگر کلاسیکی حوالوں سے ایک مستند اخبار بھی تصور ہوتا ہے۔ اپنی اشاعت کے پہلے دن سے یہ چند نظریات کا شدت سے دفاع بھی کرتا رہا ہے۔ اس کے علاوہ حقیقت مگر یہ بھی ہے کہ اس میں چھپنے والے کالموں کو وہ قوانین بھی ذہن میں رکھنا ہوتے ہیں جو سرکار نے اخبارات کو ا ن کی حد میں رکھنے کے لئے لاگو کررکھے ہیں۔

میں کسی موضوع پر اپنے دل میں ابلتے جذبات کو ’’عوامی‘‘ یا ’’بازاری‘‘ زبان میں برجستہ بیان کر نہیں سکتا۔ ایسی برجستگی بلکہ خود غرض غیر ذمہ داری شمار ہوگی۔ میرے ہذیانی کالم کی وجہ سے ادارے کو سو طرح کی مشکلات بھی درپیش آسکتی ہیں۔ ممکنہ مشکلات کو ذہن میں رکھتے ہوئے آپ کو ان سینکڑوں گھرانوں کی بابت بھی سوچنا ہوتا ہے جہاں کے چولہے اس ادارے سے وابستگی کی وجہ سے جلتے ہیں۔

لمبی تمہید کی ضرورت یہ اعتراف کرنے کو محسوس ہوئی ہے کہ پیر کی شام ہوئے قومی اسمبلی کے اجلاس کی کارروائی دیکھنے کے بعد سے میرا دل مسلسل کھول رہا ہے۔ مذکورہ اجلاس کے انعقاد سے دوروز قبل روایتی اور سوشل میڈیا کی بدولت مری میں ہوئے المناک واقعات نے عوام کی اکثریت کو اداس وپریشان کردیا تھا۔ ہماری نمائندگی کے دعوے دار اراکین کے لئے یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ وہ مذکورہ واقعات کو نظرانداز کرتے ہوئے منی بجٹ کی حمایت یا مخالفت میں تقاریر فرمانا شروع ہوجاتے۔ ’’عوامی نمائندگی‘‘ کا واہمہ برقرار رکھنے کے لئے سپیکر کو لہٰذا مجبور کیا گیا کہ وہ اس دن کے ایجنڈے کو بھلاکر سانحہ مری کو زیر بحث لائیں۔ سپیکر اسد قیصر کو اس امر پر آمادہ کرنے میں ڈیڑھ گھنٹہ صرف ہوا۔ کافی تاخیر کے بعد اجلاس شروع ہوا تو مری میں ہوئے واقعات ہی زیر بحث آئے۔

پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے صدر شہباز شریف صاحب قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بھی ہیں۔ اس حیثیت میں انہیں یہ حق حاصل ہے کہ ایوان میں کسی بھی اہم موضوع پر ہوئی بحث کا آغاز ان کی تقریر سے ہو۔ وہ اگر قائد حزب اختلاف نہ بھی ہوتے تو مری میں ہوئے المناک واقعات پر بحث کا آغاز ان کی جانب ہی سے ہونا چا ہیے تھا۔ موصوف 2008ء سے 2018ء تک پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہے ہیں۔ اس حیثیت میں وہ ہمہ وقت متحرک اور سخت گیر منتظم شمار ہوتے تھے۔ ان کے انداز گورننس کا اگرچہ اس کالم میں اکثر میں نے مذاق اڑایا۔ میری دانست میں یہ گورننس کا ’’ٹاپ ڈائون(Top Down)‘‘ ماڈل تھا جو فقط حکمران کی ذات سے وابستہ ہوتا ہے۔ اسے طویل المدت بنیادوں پر برقرار رکھنے کے لئے ادارتی یا Institutional بنیادیں میسر نہیں ہوتیں۔ ہمہ وقت متحرک حکمران اگر سین سے غائب ہوجائے تو اس پنجابی محاورے والا ماحول بن جاتاہے جو بیڑیوں کے ساتھ ملاحوں کے غائب ہوجانے کا تذکرہ کرتا ہے۔ میں شہباز صاحب کی متعارف کردہ گورننس کے بارے میں اپنے تحفظات پر آج بھی قائم ہوں۔

اس اعتراف کے باوجود مگر یہ تسلیم کرنے کو بھی مجبور ہوں کہ جن دنوں مری میں شدید برفباری پریشان کن مناظر کا باعث ہورہی تھی تو بے تحاشہ افراد نے ازخود مجھ سے فون پر رابطہ کرتے ہوئے شہباز شریف کے دور حکومت کو فکرمندی سے یاد کیا۔ کئی ریٹائرڈ اور حاضر سروس سرکاری افسروں نے کافی تفصیلات کیساتھ یہ اطلاع بھی دی کہ برفباری کے سیزن کا آغاز ہوتے ہی شہباز صاحب چوکناہوجاتے تھے۔ راولپنڈی کے کمشنر،ڈپٹی کمشنر اور مری میں تعینات اے سی خود کو ان دنوں عذاب میں مبتلا محسوس کرتے۔ ان سے مسلسل پوچھ گچھ ہوتی کہ برفباری کے دوران معمول کی زندگی رواں رکھنے والا بندوبست کس طرح یقینی بنایا جارہا ہے۔

اسمبلی کی کارروائی کا پرانا رپورٹر ہوتے ہوئے مجھے قوی امید تھی کہ شہباز صاحب پیر کی شام اپنی تقریر کے دوران شدید برفباری سے نبردآزما ہونے کے لئے کئی برسوں سے لاگو طریقہ کار کی تفصیلات منظر عام پر لاتے ہوئے ان کی بنیاد پر چند ٹھوس سوالات اٹھائیں گے۔ حکومت کو مجبور کریں گے کہ وہ وضاحت کرے کہ گزشتہ ہفتے برفباری کے آغاز کے دن مری میں سڑکوں کو برف سے صاف رکھنے کے لئے مختص گاڑیاں کونسے مقامات پر کتنی تعداد میں کھڑی تھیں۔ وہ بروقت ان مقامات تک پہنچ کیوں نہیں پائیں جہاں مسافر اپنی گاڑیوں سمیت گہری برف میں دھنسے پائے گئے۔ ٹھوس معلومات پرمبنی کلیدی سوالات شہباز صاحب کامل یکسوئی سے مگر اٹھانہیں پائے۔ فروعات میں الجھے رہے۔ ان کی تقریر مجھے اس اعتبار سے کافی پھسپھسی محسوس ہوئی۔

شہباز صاحب کی تقریر کے بعد مائیک فواد چودھری صاحب کے حوالے کردیا گیا۔ مری میں ہوئے واقعات پر توجہ مرکوز رکھنے کے بجائے وہ اپوزیشن میں بیٹھے لوگوںکے قدماپنا شروع ہوگئے۔ جاتی امراء کے محلات کاذکر کیا۔ ان کی تقریر کا واحد ہدف اپوزیشن کو طنزیہ الفاظ کے بے دریغ استعمال کے ذریعے نکما اور بدعنوان ثابت کرنا تھا۔

موضوع سے ہٹ کر ہوئی اس تقریر نے اپوزیشن میں بیٹھے افراد کو ان پر آوازیں کسنے کو مجبور کیا۔ فواد صاحب مگر ڈھیٹ ہڈی کے حامل ہیں۔ مسکراتے ہوئے شہباز شریف کے لتے لیتے رہے۔ جگتوں سے بھری اس تقریر نے ماحول کو غیر سنجیدہ بنادیا اور ہمارے نام نہاد نمائندے کسی ’’معزز‘‘ ایوان میں بیٹھے ہونے کے بجائے لاہور کے الحمرا ہال میں ’’جگت تھیڑ‘‘ کے تماشائی نظرآنا شروع ہوگئے۔

ماحول کی غیر سنجیدگی نے سپیکر اسد قیصر کو پریشان کردیا۔ انہیں گماں تھا کہ ہمارے عوام کی اکثریت روزمرہّ فرائض بھلاکر ٹی وی سکرینو ںپر نگاہ رکھے ہوئے ہے اور بہت اشتیاق سے یہ جاننا چاہ رہی ہے کہ ’’ان کے نمائندے‘‘ مری کے واقعات کس انداز میں زیر بحث لارہے ہیں۔ بارہا موصوف اراکین سے سنجیدہ رویہ اختیار کرنے کی التجا کرتے رہے۔ ایک مرتبہ لاچارگی میں یہ کہنے کو بھی مجبور ہوئے کہ عوام کو یہ پیغام نہیں جانا چاہیے کہ مری میں ہوئی اموات کو اراکین قومی اسمبلی سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔ سوگوار محسوس کرنے کے بجائے ایک دوسرے کا ٹھٹھہ اڑانے میں مصروف ہیں۔

سپیکر کی جانب سے ایوان میں ادا ہوئے مذکورہ کلمات میرے اور آپ جیسے بے اختیار شہری نہیں بلکہ رعایا کو یہ بتانے کے لئے کافی ہیں کہ قومی اسمبلی میں ’’ہمارے نمائندے‘‘ ہرگز نہیں بیٹھے ہوئے۔ زندگی کی تمام را حتوں سے مالا مال افراد کا ایک طاقتورگروہ ہے جو حکومت اور اپوزیشن میں منقسم ہونے کا ڈھونگ رچاتا ہے۔ اس ایوان سے ہمارے حقیقی مسائل کا حل ڈھونڈنا تو دور کی بات ہے ان کی بابت سنجیدہ بحث کی توقع بھی نہیں رکھنا چاہیے۔ یہ و ہ ’’شہرسنگ دل‘‘ ہے جسے منیر نیازی ’’جلادینا‘‘ چاہتے تھے۔ میری بھی خواہش تقریباََ ویسی ہی ہے۔ میں اگرچہ ہماری زندگی پر نازل ہوئے آسیبوں کو منیر صاحب کی طرح للکارنے کی جرأت سے محروم ہوں۔ خوف کے اس عالم میں مقید جہاں غالبؔ ’’دام شنیدن‘‘سے گھبراکر ’’بک رہا ہوں جنوں میں …‘‘والے ہذیان میں مبتلا ہوجاتے تھے۔

بشکریہ: نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments