دل دلی میں، بدن ملتان میں


حقے کے دھویں کی ہلکی سی باس نے کمرے کی فضا پہ قبضہ جما رکھا تھا، یہ چاچا وزیر علی کی چوپال تھی جس میں تین چار کھاٹ ترتیب سے پڑی ہوا کرتی تھیں جن کے سرہانے تکیے اور پائنتی کی اور صاف ستھری دو تہیاں بچھی ہوتی تھی، گدی اور کشن کے تکلفات سے پاک لکڑی کی دو کرسیاں بھی ایک کونے میں رکھی ہوتی تھیں، سردی ہو یا گرمی پانچ، سات بوڑھے عصر کی نماز کے فوراً بعد یہاں آ جاتے اور حقے کے چوگرد حلقہ لگا کر بیٹھ جاتے، بس فرق اتنا پڑتا کہ گرمیوں میں یہ چارپائیاں اور کرسیاں باہر صحن میں ایک سایہ دار جگہ پر آ جایا کرتی تھیں

تازہ چلم کو رواں کرنے میں چاچا بخشو بہت طاق تھا، وہ ایسے داب کے گھونٹ بھرتا کہ دبی ہوئی چلم کی چولیں ہلا کے رکھ دیتا، اسی لیے جیسے ہی وہ چوپال میں آتا، سارے بوڑھے اسے کڑوی کڑوی نظروں سے دیکھتے مگر وہ کسی کو خاطر میں نہ لاتا اور حقے کی نے اپنے ہاتھ میں لے کر چھوڑنے کا نام ہی نہ لیتا، ایسے میں کوئی نہ کوئی بوڑھا بول پڑتا اور وہ بھی بڑبڑاتا ہوا، نے آگے بڑھا دیتا۔ ہر بوڑھے کا نے پکڑنے اور گھونٹ بھرنے کا اپنا ہی انداز تھا، کوئی ایسے پکڑتا جیسے یہ حقے کی نے نہ ہو کسی نازک اندام حسینہ کی کلائی ہو اور کوئی ایسے جیسے ایک پہلوان مد مقابل کو پچھاڑنے کی غرض سے پکڑتا ہے، مگر سب میں ایک بات مشترک تھی کہ وہ اپنے ہاتھ کے انگوٹھے اور شہادت کی انگلی کو گھما کر حقے کی نے پر ایسے رکھتے کہ ہونٹ نے کو چھونے نہ پائیں، اگر کسی کے ہونٹ نے سے مس ہو جاتے تو اس کو معیوب سمجھا جاتا اور ایسے شخص کو حقہ پینے کے فن سے عاری گردانا جاتا۔

چھوٹی موٹی باتوں پر بحث مباحثے میں اکثر گرمی سردی ہو جایا کرتی تھی مگر مجال ہے کوئی کسی سے ناراض ہوا ہو یا کوئی چوپال آنا چھوڑ دے یا کسی سے بولنا ترک کردے، دلوں میں کوئی میل نہ چہروں پہ کوئی کرب، ہنستے تو کھلکھلا کر ہنستے، کچھ برا لگتا تو منہ پہ کہہ دیتے تھے۔ کوئی ایک دن غیر حاضر ہو جاتا تو باقی پریشان سے ہو جاتے تھے، دیر سے آتا تو باز پرس کرتے تھے۔ اپنے پیسے تہبند کی ڈب یا سلوکے کی جیبوں میں چھپا کر رکھتے تھے جنھیں باہر نکالتے ہوئے کم و بیش سب کی جان جایا کرتی تھی۔

عصر سے مغرب کے درمیان قلیل وقت میں یہ سن رسیدہ مبصرین بوسنیا، کشمیر اور فلسطین کے مسائل کے ساتھ ملکی سیاسی اور دفاعی صورتحال پر سیر حاصل گفتگو کر لیا کرتے تھے، کوئی اپنی پرانے ڈانڈے نرسیما راؤ سے ملاتا تو کوئی دیوے گوڑا سے، نماز مغرب کی اذان کے بول کان پڑتے ہی سلسلہ کلام از خود منقطع ہوجاتا اور بنا کسی آلکس کے سب نماز کے لیے مسجد کا رخ کرتے۔

تقسیم کے بعد تو یہ سب ایک جگہ آباد ہو گئے تھے مگر ہندوستان میں سب کے ضلعے مختلف تھے، کوئی روہتکی تھا کوئی امبر سریا، کوئی یو پی کا تھا کوئی دلی کا، کوئی ہریانے کا کوئی لدھیانے کا۔ تقسیم ہند کے وقت سب کی عمریں اگرچہ کم تھیں مگر وہ سب دلخراش واقعات انھیں ایسے یاد تھے گویا کل کی بات ہو۔ اگر کبھی تقسیم اور غدر کے موضوعات پہ بات چل جاتی تو سب ایسے بے کل اور رنجیدہ سے ہو جاتے تھے جیسے کسی نے ان کی دکھتی رگ پہ ہاتھ دھر دیا ہو، ان کے چہروں پہ اداسی کی دبیز چادر پڑ جاتی تھی، یوں لگتا تھا جیسے کسی نے ان کے رگ و ریشوں میں اپنی مٹی کے بروگ کا زہر اتار دیا ہو، ہر ایک کو اپنی جنم بھومی سے بے انتہا پیار تھا، اپنی مٹی کا ہجر ان کے ہر جملے سے عیاں ہوتا تھا، وہ اپنے گاؤں کی مٹی، فصل، کھیت کھلیان، جانوروں، بازاروں، تہواروں، موسموں بارشوں، کھانوں حتیٰ کہ سبزی دال تک کو یاد کیا کرتے تھے، وہ اپنے گھر کی دیواروں، برآمدوں، ممٹی، آنگن اور آنگن میں لگے درختوں تک کو بھی نہیں بھولے تھے، کبھی کھانے کا ذکر چلتا تو کہتے یہاں کے کھانے ویسے کہاں جیسے ہمارے گاؤں میں ہوتے تھے، یہاں کی سبزی میں وہ ذائقہ ہے نہ دال میں، میٹھے کا ذکر چلتا تو تایا رحیمو کو گنور کی مٹھائی یاد آجاتی، وہ فوراً کہتا ”بھئی گھیور جیسے گنور میں کھائے ویسے کہیں نہیں کھائے“ ”بھائی وہاں تو ماش کی دال کی بھی الگ ہی لذت تھی“ چاچا بخشو بات کو آگے بڑھاتا، چاچا جمالو انگریزوں کو موٹی موٹی گالیاں دیتے ہوئے اکثر کہا کرتا تھا ”ارے یار انگریج کی ماں کھسم نہ ہوتی تو ہم یوں برباد نہ ہوتے“ اسے تو اس بات کا پکا یقین تھا کہ وہ واپس اپنے گاؤں میں ضرور جائے گا اور بالکل پہلے کی طرح جا کر آباد ہو جائے گا۔

مہنگائی کا رونا یہ بوڑھے بزرگ بہت دلچسپ انداز میں روتے تھے، کوئی کہتا ”بھائی پہلے سو روپے میں بھینس آجاتی تھی اب دو سیر دودھ نہیں آتا“ کوئی کہتا ”یار ایک بار میرے باپ نے مجھے ایک روپیہ دیا اور کہا کہ جا کے فلاں کے گھر سے ایک سیر دیسی گھی لے آ، میں چھوٹا ہی تھا، پوہ ماہ کے دن تھے کڑاکے کی سردی پڑ رہی تھی، گھی والے نے مجھے گھڑے میں سے جما ہوا گھی کاٹ کاٹ کے دیا تو وہ گڑ کی پیسی جیسے ٹکڑے سے بن گئے، میں نے رستے میں آتے ہوئے ایک ٹکڑا کھا لیا تو مجھے اچھا لگا، لے بھئی میں تو سارا ہی کھا گیا، اب گھر جاتا ڈروں کہ باپ مارے گا، پر جب باپ کو پتہ چلا، اس نے کہا کوئی بات نہیں، لے ایک روپیہ اور لے اور گھی لے آ، بھئی میں سیر گھی کھا بھی گیا اور پچا بھی گیا، اب کوئی چھٹانک پچا کے دکھائے ناں“ ۔

ان بزرگوں میں سب سے زیادہ خواندہ چاچا وزیر علی تھا جس نے ہندوستان میں کسی ہندو استاد کے زیر سایہ تین جماعتیں پڑھ رکھی تھیں، وہ حساب کتاب کا اتنا ماہر تھا کہ دو، سوا دو، اڑھائی اور پونے تین جیسے پہاڑے اسے ازبر تھے، مشکل سے مشکل حساب سیکنڈوں میں کرنا اس کے بائیں ہاتھ کا کام تھا۔ چاچا وزیر کے علاوہ باقی سب بوڑھے تقریباً ناخواندہ تھے لیکن پھر بھی بھی ان کا تجربہ و مشاہدہ کمال کا تھا، وہ باتوں باتوں میں ایسی قیمتی بات کر دیا کرتے تھے جس کے سامنے کتابوں کا علم بھی ہیچ دکھائی دیتا تھا۔

وہ میرا طالب علمی کا دور تھا کہ جب میں کبھی کبھار ان کی محفل میں جاکر بیٹھ جایا کرتا تھا، میرے دل میں ان بزرگوں کے لیے عجیب سا انس پیدا ہو گیا تھا، میں ان کی باتوں اور ہنسی کھیل سے بہت لطف اندوز ہوا کرتا تھا، پھر یوں ہوا کہ وقت نے عمر رواں کے صفحے ایسے تیزی سے پلٹنے شروع کیے کہ سالہا سال گزرنے کا پتہ ہی نہ چلا، حصول معاش کی تگ و دو نے قیمتی ترین رشتوں اور گھر بار چھوڑنے پہ مجبور کر دیا، آج کم و بیش دو دہائیوں کے بعد چاچا وزیر کی چوپال کے سامنے سے گزرا تو قدم رک سے گئے اور دل و دماغ پھر انھی یادوں میں کھو گیا جب یہ چوپال حقے کی گڑگڑاہٹ اور قہقہوں سے آباد ہوا کرتی تھی اور میں ایک کونے میں بیٹھ کر ان بزرگوں کی باتیں غور سے سنتا، ان کی حرکات و سکنات کا مشاہدہ کرتا اور ان کے چہروں پہ موجود لکیروں کے جال میں الجھے زمانوں کی کھوج لگایا کرتا تھا۔ وہ تمام بزرگ میری آنکھوں میں ستاروں کی طرح تیرنے لگے جو اپنے وطن کی مٹی کی یاد سینے میں لیے کسی اور ہی خاک کا پیوند ہو گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments