سیاسی بصیرت کا اعجاز
دوسری دستور ساز اسمبلی میں یوں تو مسلم لیگ ہی سب سے بڑی پارٹی تھی، مگر کچھ ہی عرصے بعد صدر اسکندر مرزا نے گورنمنٹ ہاؤس میں ریپبلکن پارٹی کی داغ بیل ڈال دی تھی۔ مشرقی پاکستان سے جناب حسین شہید سہروردی کی عوامی لیگ، شیر بنگال اے کے فضل الحق کا یونائیٹڈ فرنٹ اور مولانا عبدالحمید بھاشانی کی نیشنل عوامی پارٹی منتخب ہو کر آئی تھیں۔ اسمبلی کے کل ارکان کی تعداد 80 تھی جو مختلف سیاسی جماعتوں میں بٹے ہوئے تھے۔ وزیراعظم چودھری محمد علی نے غیرمعمولی تحمل اور ذہانت سے دستور پر اتفاق رائے پیدا کر لیا تھا جسے دستور ساز اسمبلی نے 29 فروری 1956 کی رات گیارہ بجے شرف منظوری بخشا اور وہ 23 مارچ کو نافذ ہوا۔
یوم جمہوریہ کا ’یوم پاکستان‘ نام رکھا گیا۔ اس رات عوام نے چراغاں کیا تھا۔ اس آئین کے خد و خال غیرمعمولی نوعیت کے تھے کہ ان میں پروانہ حقوق (Rights Bill) کے علاوہ ریاست کی پالیسی کے راہنما اصول بھی شامل تھے۔ اس امر کا بھی اہتمام کیا گیا تھا کہ ریاست کسی بھی شہری کو بلاجواز گرفتار کر سکے نہ حبس بے جا میں رکھ سکے۔ صوبائی خودمختاری کے دائرے میں وسعت کے سبب صنعتیں اور ریلویز بھی صوبوں کی تحویل میں دے دی گئی تھیں۔
دستور کی جمہوری، پارلیمانی اور اسلامی تشکیل میں جماعت اسلامی نے جاندار کردار ادا کیا تھا، لیکن بدقسمتی سے پاکستان کے حصے میں پہلے صدر میجرجنرل اسکندر مرزا آئے جن کی ابتدائی ملازمت کا بڑا حصہ برطانوی دور کی پولیٹیکل سروس میں گزرا تھا۔ وہاں سرکاری عمال کو ’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘ جوڑ توڑ اور جبر کے ہتھکنڈوں سے کام لینا سکھایا جاتا تھا۔ یہی طور طریق ان کی گھٹی میں پڑ چکے تھے جن پر وہ زندگی بھر کاربند رہے۔
1956 کا دستور ایک ایسی دستاویز کی حیثیت اختیار کر گیا جس میں پاکستان کے دونوں بازوؤں کے سیاست دانوں نے ایک ساتھ رہنے کا عمرانی معاہدہ کیا تھا۔ شومئی قسمت سے صدر اسکندر مرزا نے دستور پر حلف اٹھانے کے چند ہی روز بعد بیان دیا کہ مذہب کو سیاست سے جدا ہونا چاہیے جبکہ بہت پہلے شاعر مشرق حضرت اقبالؔ مسلم امہ پر یہ واضح کر چکے تھے کہ جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی۔ صدرمملکت کا یہ بھی ارشاد تھا کہ دستور میں اتنی زیادہ صوبائی خودمختاری دے دی گئی ہے جو یکسر ناقابل عمل ہے۔
قدرت اللہ شہاب جو ان کے بھی سیکرٹری تھے، انہوں نے ایک انتہائی دلخراش واقعہ ’شہاب نامہ‘ میں رقم کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں : ”22 ستمبر 1958 کو دن کے ایک بجے جب اسکندر مرزا اپنے دفتر سے اٹھے، تو حسب معمول میری کھڑکی کے پاس آ کر نہ رکے، بلکہ مجھے باہر برآمدے میں اپنے پاس بلا بھیجا۔ ان کے ہاتھ میں آئین کی ایک جلد تھی۔ انہوں نے اس کتاب کی طرف اشارہ کر کے مجھ سے پوچھا تم نے اس trash (فضول چیز) کو پڑھا ہے۔ جس آئین کے تحت حلف اٹھا کر وہ کرسیٔ صدارت پر براجمان تھے، اس کے متعلق ان کی زبان سے trash کا لفظ سن کر میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ میرا جواب سنے بغیر انہوں نے آئین پر تنقید و تنقیص کی بوچھاڑ کر دی۔ ان کے بہت سے فقرے ہتھوڑی کی طرح کھٹ کھٹ میرے کانوں میں گونج رہے تھے۔ اچانک میری ٹانگیں بے جان سی ہو گئیں۔“
میجرجنرل اسکندر مرزا اور بیگم ناہید مرزا کے آتے ہی گورنر جنرل ہاؤس میں دعوتوں اور پارٹیوں کا دور شروع ہو گیا جو شام کو شروع ہو کر رات کے ڈیڑھ دو بجے تک چلتا رہتا تھا۔ خواتین کے لیے یہ تقریبات ایک طرح کی فیشن پریڈ ہوتی تھیں۔ کچھ خواتین ایسے لباس پہننے میں مہارت رکھتی تھیں کہ جسم کو چھپانے کے بجائے اسے فنکاری سے عریاں کرنے میں مدد دیتا تھا۔ کثرت مے نوشی سے مہمان کھانے پر گدھ کی طرح گرتے تھے۔ لہو و لعب کے ان مشغلوں میں انسانیت سسک سسک کر دم توڑ رہی تھی۔
سنجیدہ قومی حلقوں کی نظر میں صدر اسکندر مرزا کا سب سے بڑا جرم ریپبلکن پارٹی کا قیام تھا۔ ان کے ہاتھ میں جادو کی چھڑی آ گئی تھی جس کے ذریعے وہ اپنے تین سالہ دور صدارت میں یہی ثابت کرتے رہے کہ آئین ناقابل عمل ہے اور ملک میں کوئی بھی ایسی سیاسی جماعت اور شخصیت موجود نہیں جسے دونوں بازوؤں کا اعتماد حاصل ہو اور وہ خوش اسلوبی سے امور حکومت چلانے کی صلاحیت بھی رکھتی ہو۔ ان کا دوسرا بڑا جرم کمانڈر ان چیف جنرل ایوب خاں کی میعاد ملازمت میں تیسری بار جون 1958 میں دو سال کی توسیع تھی جس کی بدولت انہیں مارشل لا لگانے کی فوجی طاقت میسر آ گئی تھی۔
اس پراسرار ماحول میں آئینی حکومت کے خاتمے کا منصوبہ تیار ہو رہا تھا جبکہ بیشتر سیاسی جماعتیں اپنے انجام سے بے نیاز ایک دوسرے پر تیر اندازی کی مشق فرما رہی تھیں، البتہ امیر جماعت اسلامی سید ابوالاعلیٰ مودودی اس منڈلاتے ہوئے خطرے کا گہرا ادراک رکھتے تھے۔ اپریل 1958 میں جماعت اسلامی نے کراچی کارپوریشن کے انتخابات میں 23 امیدوار کھڑے کیے جن میں سے 19 کامیاب ہوئے۔ اس حیرت انگیز کامیابی پر صدر اسکندر مرزا اور ان کے سیکولر ٹولے کی تلملاہٹ سے یہ تاثر مل رہا تھا کہ وہ پاکستان کو ’مولویوں سے محفوظ‘ رکھنے کے لیے پر تول رہے ہیں۔ کسی نشست میں کراچی میں ہونے والے اس ولولہ بخش تجربے کی تفصیلات پیش کروں گا۔
سید ابوالاعلیٰ مودودی نے 7 ؍اکتوبر کی رات موچی گیٹ میں جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے اہل وطن کو خبردار کیا کہ آپ کسی صبح سو کر اٹھیں گے، تو مارشل لا لگا ہو گا۔ ان کی سیاسی بصیرت کا اعجاز اس طرح منصہ شہود پر آیا کہ اسی رات ملک پر مارشل لا نازل ہوا جس کا اعلان صدر اسکندر مرزا نے کیا، آئین کی بساط لپیٹ دی اور کمانڈر ان چیف جنرل محمد ایوب خاں کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنا دیا۔ آئین کا وجود ختم ہوتے ہی صدر کی حیثیت کٹی ہوئی پتنگ کی سی تھی۔ وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ بندوق کی نوک پر ایوان صدر سے بے دخل کر دیے گئے اور انہیں جلاوطنی کے دوران ہوٹل کی ملازمت پر ذلت بھری زندگی کاٹنا پڑی۔ ان کی انتہائی بدقسمتی یہ تھی کہ انہیں پاکستان میں دفن ہونے کی اجازت بھی نہیں ملی۔ اس کے بعد وہ ہمیشہ کے لیے ماضی کے دھندلکوں میں گم ہو گئے۔
- کارناموں پر فخر کرنا چاہیے - 22/03/2024
- کامن سینس مطلوب ہے - 15/03/2024
- کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟ - 08/03/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).