پولیس ریکوری سترہ سو روپے حکومتی خرچہ سترہ لاکھ روپے


میرے پیارے اللہ کا احسان ہے کہ مجھے اپنی زندگی میں مالی مسائل کا زیادہ سامنا نہیں رہا۔ میرے والد صاحب کو اپنے والد یعنی میرے دادا سے وراثت میں کچھ زرعی زمین ملی۔ والد صاحب جاب کرتے تھے۔ صبح گاؤں سے شہر آتے اور شام کو واپس چلے جاتے۔ تنخواہ کی رقم سے گھر کے اخراجات چلتے اور فصلوں کی آمدن کی وہ بچت کر لیتے۔ اپنی اولاد خصوصاً میرے ساتھ انھیں بہت زیادہ پیار تھا۔ بہت سادہ طبیعت آدمی تھے۔ فضول خرچی کو ناپسند کرتے تھے لیکن اللہ کی راہ میں اور اپنی اولاد پہ کھل کے خرچ کرتے۔

غریب اور مجبور لوگوں کی خاموشی سے مالی مدد کرتے رہتے تھے۔ میرے بارے میں ان کی خواہش ہوتی کہ میں ویل ڈریسڈ ہو کر رہا کروں۔ اپنے کزنز کی طرح مہنگے کپڑے پہنوں لیکن قدرت نے میرے اندر الٹ معاملہ رکھ دیا تھا۔ کپڑوں جوتوں کے معاملہ میں راقم ملنگوں والے حساب میں رہتا اور کھانے پینے کے معاملہ میں نوابوں والا شوق تھا۔ حلال کھانوں میں دنیا کا وہ کون سا کھانا ہو گا جو میں نے نہیں کھایا ہو گا یہاں تک کہ کئی سالوں تک بار بی کیو اور کڑاہی گوشت جیسے کھانے کھانے کے بعد طبیعت خود بخود اس طرح کے کھانوں سے بھر گئی اور ہلکے پھلکے کھانوں، دال چاول اور دال روٹی کی طرف رجحان ہو گیا۔ دال کا سالن ویسے بھی نسل در نسل ہمارے خاندان کا پسندیدہ ترین سالن رہا ہے۔ دال اور مکھن میں فرائی کیا ہوا ساگ صبح دوپہر شام ہمیں کھلاتے رہیں ہم لوگ بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔ آج بھی نظامی صاحب کے ٹھیلہ پہ جا کے مکھن میں ساگ کو تڑکا لگوا کے کھایا تو طبیعت کو سکون ملا۔ خیر۔

والد صاحب کی سوچ تھی کہ انسان کو کبھی بھی چادر سے باہر پاؤں نہیں پھیلانا چاہیے۔ اگر وہ اپنی آمدن سے اپنے اخراجات زیادہ رکھتا ہے تو وہ یا تو مالی طور پہ قلاش ہو جاتا ہے یا دوسروں کا محتاج ہو کے رہ جاتا ہے اور مقروض ہو کر کشکول اٹھا کے دوسروں کے سامنے کھڑا رہتا ہے۔ اپنی آمدن سے زیادہ اور غیر ضروری اخراجات تو ریاستوں اور ملکوں کو بھی مالی طور پہ کمزور اور دوسرے ملکوں کے سامنے کشکول اٹھائے رکھنے پہ مجبور کر دیتے ہیں اور وہ پھر بظاہر تو ”آزاد خارجہ پالیسی“ بنانے کا دعوٰی کر رہے ہوتے ہیں لیکن درپردہ وہی کرتے ہیں جس کی ہدایات انھیں کشکول میں آئی غیر ملکی خیرات کے بدلہ میں ملی ہوتی ہیں۔

میں سوشل میڈیا پہ بنے انٹرنیشنل ٹریول چینلز پہ یورپ امریکہ، جاپان چین اور معاشی طور پہ طاقتور ممالک کے نظام اور سسٹم کا جائزہ لیتا رہتا اور ان کا تقابل جنوبی ایشیائی ممالک کے ساتھ کرتا رہتا ہوں۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ میرا مزاج بھی یہ رہا کہ اپنی تنخواہ میں سے کچھ نہ کچھ پس انداز کر لینا تاکہ ایمرجنسی اور مشکل حالات میں کام آئے۔ میری کوشش رہی کہ میرے اخراجات میری آمدن سے زیادہ نہ ہوں۔ میں نے اپنی ضروریات کو بھی محدود رکھنے کی کوشش کی اور سادہ طرز زندگی کو اپنایا۔

اس طرح سے میں ایک تو کسی کا مقروض نہ ہوا دوسرا اپنی تنخواہ سے کچھ نہ کچھ بچت کر لیتا تھا۔ گزشتہ ڈیڑھ سال سے کویڈ۔ 19 کرونا اور نئے ٹیکسوں کو بھرمار کی وجہ سے مہنگائی کا جو طوفان آیا، راقم بھی اس سے بہت متاثر ہوا۔ تنخواہ وہی پرانی رہی اور ضروریات زندگی کی اشیاء کی قیمتیں آسمان تک جا پہنچیں۔ میرا معمول رہا کہ جیسے مہینے کے آخر میں تنخواہ آتی میں صابن، ٹوتھ پیسٹ، ٹوتھ برش، ہینڈ واش، شیونگ ریزر، ٹشو رول، بسکٹ کے پیکٹس اور جو بھی ضرورت کی چیزیں ہوتیں اکٹھی خرید کر الماری میں رکھ دیتا۔

یہ معمول میرا گزشتہ کئی سالوں سے تھا۔ اب ڈیڑھ سال سے ہو یہ رہا ہے کہ چیزیں وہی خریدتا ہوں۔ تعداد بھی وہی ہے لیکن پے منٹ کئی گنا زیادہ کرنا پڑ رہی ہے۔ اب تنخواہ سے پہلے کی طرح بچت نہیں کر سکتا۔ اپنی گزشتہ تنخواہوں سے جو رقم میں نے پس انداز کر کے مشکل وقت کے لیے رکھی ہوئی تھی وہ میں گزشتہ ڈیڑھ سال میں چیزوں کی قیمتیں بڑھ جانے کی وجہ سے اضافی ادائیگی اور یوٹیلٹی بلز کے اضافی ٹیرف کی ادائیگی وغیرہ پہ خرچ کر چکا ہوں۔

پہلے میرے دوست احباب کو ایمرجنسی میں پیسوں کی ضرورت ہوتی تھی تو ان کے ساتھ بھی تعاون کر دیتا تھا لیکن اب اپنے پاس ہی بچت نہیں ہو رہی تو کیا کروں۔ جس چھوٹے سے مکان میں رہتا ہوں وہ میرے والد صاحب نے ہی اپنی بچتوں سے بنا کر دیا۔ مجھے کہا جائے کہ اکبر شیخ اکبر تم اپنی ذاتی آمدن سے ابھی نیا مکان بناؤ تو بھائی یہ ناممکن ہے۔ نیا مکان بنانا تو ایک طرف فی الحال تو میں سستا سا رہائشی پلاٹ بھی نہیں خرید سکتا۔

ویسے بھی یار لوگوں نے افواہ اڑا دی تھی کہ مرکزی دارالحکومت کو زلزلوں سے بچانے کے لیے اسلام آباد سے بہاول پور میں منتقل کیا جا رہا ہے کیونکہ بہاولپور زلزلہ پروف ریجن ہے بس پھر اس کے بعد پانچ ہزار روپے مرلہ والا رہائشی پلاٹ چار لاکھ روپے سے لے کر دس لاکھ روپے مرلہ تک کا ہو چکا ہے۔ میرے بچپن میں چندی پور اور اردگرد کے گاؤں میں شادیاں ہوتیں تو لاؤڈ اسپیکر پہ گانے چلائے جاتے اور جب کھانا تیار ہو جاتا تو لاؤڈ اسپیکر والا اعلان کرتا۔

”روٹی تیار ہے۔ سجنوں کا انتظار ہے“ ایسے ہی بہاول پور میں پراپرٹی میں بھاری سرمایہ کاری کرنے والوں کو بھی ملک کے مرکزی دارالحکومت کا بہاول پور میں شفٹ ہو جانے کا انتظار ہے۔ نہ خالص واشنگ پاؤڈر ملے گا نہ دھوبن کپڑے دھوئے گی۔ ہاں پراپرٹی مافیا بہاول کینال کے پل پہ بیٹھ کے آنٹی نور جہاں کا گیت گنگنایا کرے ”سانوں نہر والی پل تے بٹھا کے خود ماہی کتھے رہ گیا“ ۔ خیر۔

شکر کرتا ہوں کہ جیسے تیسے سفید پوش زندگی والا گزارہ ہو تو جاتا ہے۔ یہ بھی اوپر والے کا بہت بڑا احسان ہے کہ کسی کا مقروض نہیں ہونے دیا۔ اپنی ضروریات کو پہلے سے بھی زیادہ محدود کر چکا ہوں۔

10 جنوری 2022 کو پنجاب پولیس کے ایک ضلعی ترجمان نے میڈیا کو ایک سرکاری پریس ریلیز جاری کی جس میں بتایا گیا کہ دو تھانوں کی دو مختلف ٹیموں نے چھاپے مار کر آٹھ جواری جواء کھیلتے ہوئے گرفتار کیے اور ان سے مبلغ سترہ سو ساٹھ ”1760“ روپے برآمد کیے۔ گرفتار جواریوں کے خلاف مقدمات درج کر لیے گئے ہیں اور قانون کے مطابق ان کے خلاف کارروائی جاری ہے۔ راقم یہ پریس ریلیز پڑھنے کے بعد سوچ رہا تھا کہ پولیس نے تو جواریوں سے سترہ سو ساٹھ روپے برآمد کر لیے اب یہ جواری حوالات میں رہیں گے پھر جیل بھیجے جائیں گے جہاں ان کو حکومت کھانا کھلائے گی پھر وہ جیل یا پولیس کی گاڑیوں میں عدالت میں لائے جائیں گے جن کے پٹرول یا ڈیزل کے اخراجات بھی حکومت برداشت کرے گی۔

عدالت میں سماعت ہوا کرے گی۔ کئی پیشیاں اور سماعتیں ہو گی ان پہ بھی حکومت کا خرچہ ہو گا۔ ملزمان کو سزا ہوئی تووہ جیل میں حکومتی خرچ پہ کھانا بھی کھائیں گے حکومتی خرچ پہ علاج معالجہ بھی لیں گے۔ اگر تخمینہ لگایا جائے تو اس سارے عمل پہ حکومت کا سترہ لاکھ روپے سے بھی زیادہ خرچ ہو جائے گا یعنی برآمدگی سترہ سو روپے کی اور حکومتی خرچہ سترہ لاکھ روپے کا۔ میرے اس بلاگ کا ٹارگٹ پولیس کا محکمہ نہیں بلکہ سسٹم ہے۔

پولیس نے وہی کرنا ہے جس کا انھیں حکم ملے گا۔ بھائی! دیکھو، دیہات کے لوگ نہر کنارے بیٹھ کر وقت پاس کرنے کے لیے تاش بھی کھیلیں گے لڈو یا کیرم بورڈ بھی کھیلیں گے آپ چاہیں تو انھیں پکڑ کر حوالات میں بند کر دیں۔ چرس اور بھنگ کا نشہ کرنے والے پہ جس قدر چاہے آپ پابندی لگا لیں اس نے چھپ کر ان کا استعمال کر لینا ہے۔ یورپ اور امریکہ نے کسینوز بنا کر کلبز کھول کر ان پر بھاری ٹیکس لگا کر اپنے لیے اربوں کھربوں ڈالرز کی آمدن کے ذرائع بنا لیے۔ میرے اس بلاگ کا مقصد ہر گز یہ نہیں کہ آپ اپنے ملکوں میں کسینوز کھولیں۔ اپنے عوام کو جائز حد تک تفریح کی اجازت دے دیں۔ فرسودہ قوانین اور غیر ضروری پابندیوں کے ذریعے انھیں گھٹن کا شکار نہ بنائیں۔ خیر۔

سوال یہ ہے کہ برصغیر کی تقسیم کو ستر سال سے زیادہ عرصہ ہو چلا ہے لیکن جنوبی ایشیا کے ممالک اپنی آمدن اور اخراجات میں توازن لانے کے لیے اپنے سرکاری اداروں، محکموں اور اپنے سسٹم میں اصلاحات لانے کی بجائے بس امریکہ، روس، چین، جاپان اور یورپ کے سامنے کشکول اٹھا کے کھڑے ہیں۔ جنوبی ایشیائی حکومتیں اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش ہی نہیں کرتیں کہ ہمارے وہ کون سے انتہائی غیر ضروری اخراجات ہوتے ہیں جن کو پورا کرنے کے لیے ہم اپنے اربوں یا کھربوں روپے خرچ کر بیٹھتے ہیں اور پھر آئی ایم ایف، ورلڈ بنک اور معاشی طور پہ طاقتور ممالک کے سامنے بھکاری بن کر کھڑے ہوتے ہیں۔

یا تو جنوبی ایشیائی ریاستوں کا مزاج بھکاری کا سا ہے اور وہ مستقبل میں بھی بھکاری ہی رہنا چاہتی ہیں۔ مثلاً جنوبی ایشیا کے تقریباً ہر ملک میں سالانہ اربوں روپے صرف سڑکوں کی مرمت پہ خرچ ہو جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ ہوتی کیوں ہے؟ جواب آئے گا کہ یہ روٹین کا معاملہ ہے۔ ارے بھائی! یہ روٹین کا معاملہ نہیں ہے۔ آپ نے کبھی اپنے عوام کے مزاج کا جائزہ لیا۔ خواتین روزانہ اپنے گھروں کا اور دکاندار اپنی دکانوں کا فرش دھو کر پانی باہر سڑک پہ نکال دیتے ہیں جہاں وہ جوہڑ بن کر ٹھہر جاتا ہے۔

آپ نئی سڑک بنانے پہ تو دسیوں کروڑ روپے خرچ کر دیتے ہیں لیکن بارش کے پانی کی نکاسی کے لیے اس کے دائیں بائیں کوئی نالی نہیں بناتے۔ ساتھ ساتھ یہ ہوتا ہے کہ دکاندار اور گھروں کے رہائشی لوگ اپنی دکانوں اور گھروں کے گیٹ کے سامنے اونچے ریمپ تعمیر کر لیتے ہیں اور نتیجہ یہ کہ بارش کا پانی سڑک پہ ہی تالاب بنا کر کھڑا ہوتا ہے۔ اب سڑک ٹوٹے گی نہیں تو اور کیا ہو گا؟ لوگوں کا جب دل چاہتا ہے جہاں سے دل چاہے اپنے گھر کے کسی پائپ کو گزارنے کے لیے سڑک کی توڑ پھوڑ شروع کر دیتے ہیں۔

آپ نے روڈ سیفٹی محکمہ بنا کے یہ سب کنٹرول کرنے کی تو کوئی کوشش نہیں کی بس یہ کہا کہ یہ فلاں کی ذمہ داری ہے اور فلاں کی اور ہر سال سڑکوں کی مرمت پہ ہی اربوں روپے خرچ کر نے میں لگے ہوئے ہیں اور پھر بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے سامنے ہاتھ باندھ کے کھڑے ہوتے ہیں۔ کچھ فرسودہ قوانین ایسے بنائے ہوئے ہیں جن کے نفاذ میں ہاتھ تو کچھ نہیں آتا البتہ حکومت کے کروڑوں اربوں روپے خرچ ہو جاتے ہیں۔ یورپ امریکہ کی اشرافیہ اور جنوبی ایشیا کی اشرافیہ میں بہت زیادہ فرق ہے وہاں تو خیر سرمایہ دار اور کاروباری اشرافیہ ہے البتہ جنوبی ایشیا میں اشرافیہ کے کئی روپ ہیں۔

باوردی اشرافیہ، بے وردی اشرافیہ، انتظامی اشرافیہ، سیاسی اشرافیہ، مذہبی اشرافیہ، پیری مریدی والی اشرافیہ، جاگیردار اشرافیہ، سرمایہ دار اشرافیہ، کاروباری اشرافیہ، بلڈر اشرافیہ اور قبضہ مافیا اشرافیہ وغیرہ۔ امریکہ یورپ کی اشرافیہ تو ملٹی نیشنل بزنس کمپنیاں بنا کر اپنا پیٹ بھی بھرتی ہے اور اپنے ممالک کی حکومتوں کو اربوں کھربوں ڈالرز کما کے بھی دیتی ہے۔ جنوبی ایشیا کی کئی روپ رکھنے والی اشرافیہ تو بس سفید ہاتھی ہے اور اس ہاتھی کے عیش و عشرت پہ ہی جنوبی ایشیا کی حکومتوں اور عوام دونوں کے کھربوں روپے خرچ ہو جاتے ہیں۔

بھائی! دیکھیں اگر آپ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک وغیرہ سے جان چھڑانے کے لیے واقعی سنجیدہ ہیں تو پھر آپ کو اپنے اپنے ملک میں غیر ضروری اخراجات ختم کرنا ہوں گے۔ پرانے فرسودہ قوانین ختم کرنا ہوں گے۔ اپنے سرکاری اداروں میں اصلاحات لانا ہوں گی۔ اشرافیہ کے غیر ضروری اخراجات ختم کرنا ہوں گے۔ اپنے عوام کی بھی سوچ بدلنا ہو گی۔ اور چلتے چلتے ایک نئی بات بھی بتا دوں، مغربی ممالک اپنے لیے ویب تھری انٹرنیٹ ٹیکنالوجی لا رہے ہیں۔

آپ تو ابھی تک ویب ون اور ویب ٹو میں کھڑے ہیں وہاں انٹرنیٹ اپنی شکل ہی تبدیل کرنے جا رہا ہے۔ یہ نہ ہو کہ نئی کلاؤڈ ٹیکنالوجی اور ہیک نہ ہو سکنے والی نئی بلاک چین ٹیکنالوجی سے وہ آپ کے بزرجمہر خود ساختہ ”عظیم معیشت دانوں“ کو تگنی کا ناچ نچا ڈالیں۔ بہتر ہے اپنے خول سے باہر آئیں اور اپنے فرسودہ قوانین کو جدید دنیا کی ضرورت کو پورا کرنے والے قوانین میں تبدیل کریں۔ ہم نے تو اپنا ”پی پا“ بجا دیا ہے اب آپ کو اس کی آواز سنائی دے یا نہ دے ہم کیا کر سکتے ہیں۔

یہ کیا کہ اپنی ہی ذات کے لیے جیے جانا
تاریک ہوں راہیں تو انھیں روشن کر جاؤں
صدائے لاذات کی رات میں اکبر میاں
ٹمٹماتا ہی سہی چراغ بن کر جل جاؤں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments