_سانحہ مری میں برپا گیس چیمبر اور انسانی ہلاکتوں کی کہانی_


طاقت کی اپنی نفسیات,اپنے قاعدے قوانین اور اپنے جھوٹ سچ ہوتے ہیں جس کا ادراک اِس وقت پاکستان میں آباد کسی بھی معقول انسان کو تیزی سے ہو رہا ہے کہ تاریخ کے تمام سچ اور تجربہ بنیاد ادراک ایک اضافی حقیقت بن چکے ہیں جبکہ ہر معاملے اور ہر مسئلہ پر ریاست خود کے بے قصور اور عام آدمی کو گناہ گار ثابت کرنے پر بضد ہے_افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ طاقت ور کی طرف سے باور کرانے کے عمل میں کسی سطح پر کمی واقع نہیں ہو رہی خواہ نتیجے میں انسانی جان ہی کیوں نہ صرف ہو جائے,معاشرتی تفاعل بھلے جامد ہو کر رہ جائے مگر طاقت کے ایوانوں سے جڑے یہ لوگ اپنی ہٹ پر قائم آئے دن عام آدمی کی جہالت اور بے توقیری کے قصے عام کرتے ہیں کہ کوئی ایسا نہیں جو ان سے انصاف کا خواہاں ہو اور نہ ہی کوئی ایسا ہے جو ٹوئٹر ہینڈل پر متحرک حکومت سے عوام کی زندگی سے متعلق کوئی سوال پوچھنے کی جسارت کر سکے_نئے سال کی آمد کے ساتھ ہی سانحہ مری میں بڑے پیمانے پر ہونے والی اموات نے جرمن افواج کی طرف سے کیے جانے والے مظالم کی یاد تازہ کر دی اور ان گیس چیمبرز کو زندہ کر دیا جن کو نازیوں نے اپنے مخالفین کی زندگیاں چھیننے کے لیے ایسا آباد کیا کہ ان کی دہشت آج بھی انسانی دماغوں پر ثبت ہے_
یہ سال 1939 کا آخری حصہ ہے جب نازی بے حس افواج نے بڑے پیمانے پر قتل و غارت گری کا بازار گرم کرنے اور اپنے دشمن کے جڑ سے خاتمہ کے لئے زہریلی گیس سے انسانی ہلاکتوں کا سلسلہ وار آغاز کیا_اس سلسلے میں سب سے پہلے ذہنی طور پر کمزور افراد کو منتخب کیا گیا تاکہ اس منصوبے کے نتائج پر نگاہ رکھی جا سکے اور کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ انسانوں سے زندگی چھیننے کا موثر منصوبہ تیار کیا جا سکے ساتھ ہی یہ دلیل بھی گھڑی جائے کہ ہم تو ایسا مشکل میں پھنسے افراد کی بھلائی کے لیے کر رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان اموات کو ابتدائی طور پر رحمدلی پر مبنی اموات کے نام سے یاد کیا گیا_برن برگ,برینڈن برگ,گریفین یک,ہاڈامار,ہارت ھائم اور سونین سٹائن ان چھ مراکز میں شامل ہیں جن کی اصلیت مقتل کی تھی کہ ان جگہوں پر انسانی جان کو جانور سے بھی کم تر اور بے مول سمجھ کر ختم کیا گیا_اِن قتل گاہوں میں کیمیائی طور پر تیار کی ہوئی کاربن مونو آکسائیڈ گیس کو استعمال کیا گیا تاکہ مخالفین کو سست مگر بے حد اذیت ناک موت سے دوچار کیا جائے_
جون 1941 تک سوویت اتحاد پر جرمن افواج کے حملوں,قتل و غارت گری کے بعد اور متحرک(گشتی)قاتل جتھوں کی طرف سے وسیع پیمانے پر گولی مار کر شہریوں کی ہلاکت سے بھی اطمینان نہ پا کر,نازیوں نے بڑے پیمانے پر قتل کیلئے گیس سے لیس گاڑیوں کا استعمال کیا_یہ گیس گاڑیاں دراصل ایسے بند ٹرک تھے جن کے انجنوں کے اخراج کا رُخ ہوا بند سیل شدہ انداز میں گاڑی کے اندرونی حصے کی جانب کر دیا جاتا تھا تاکہ بظاہر گاڑیوں سے خارج ہونے والا زہریلا دھواں گاڑی میں موجود لوگوں کے لیے موت کا سامان بن سکے_زہریلی گیس سے ہلاک کرنے کا یہ سلسلہ کم خرچ تھا کہ نہ تو بندوق کی ضرورت پیش آتی اور نہ ہی گولیوں کی اور اس سے بڑھ کر سفاک فوجیوں کو چیختے چِلاتے بچوں اور بال نوچتی عورتوں سے بھی نجات مل گئی_اس پر تس مرتے ہوئے بے بس لوگوں کو دیکھ کر جو دشمنی اور نفرت کی آگ ٹھنڈی کرنے کا موقع ملتا وہ الگ_ 1942 میں گیس چیمبرز میں وسیع پیمانے پر منظم قتل کا آغاز(ڈیزل انجنوں سے پیدا کی جانے والی کاربن مونوآکسائیڈ گیس سے)بیل زیچ,سوبی بور اور ٹریب لنکا میں کیا گیا_یہ تمام گیس چیمبر پولینڈ میں تھے جب ہلاکت کے لیے منتخب کئے جانے والے لوگوں کو مویشی لانے والی گاڑیوں سے اتارا جاتا تو اُنہیں بتایا جاتا کہ اُنہیں شاور کے دوران(نہاتے ہوئے)جراثیم سے پاک کرنا ضروری ہے لہذا وہ سب ہاتھ اوپر کر کے غسل خانوں میں داخل ہو جائیں تاکہ ان کے جسم کو ٹرک سے ملنے والی غلاظت سے پاک کیا جائے_نازی اور یوکرین کے بد مست حیوان صفت گارڈ بعض اوقات ان سست اور متشکک مزاج قیدیوں پر چیختے چِلاتے اور اُنہیں زدوکوب کرتے جو اس عمل کے بارے کوئی سوال کرتے یا سستی دکھاتے_اُن قیدیوں کو حکم دیا جاتا کہ وہ اپنے بازو اوپر اُٹھا کر غسل خانوں میں داخل ہوں تاکہ گیس چیمبروں میں زیادہ سے زیادہ افراد سما سکیں کہ ان چیمبروں میں ایک وقت میں جس قدر زیادہ لوگ ہوتے اُتنی ہی جلدی اُن کا دم گھٹتا اور وہ ہلاک ہو جاتے_روما خانہ بدوشوں, پولش لوگوں اور سوویت جنگی قیدیوں کی اس غیر انسانی اموات کا سلسلہ اس قدر سفاکیت پر مبنی تھا کہ روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں افراد کو اس عمل سے گذارا جاتا_خیال پایا جاتا ہے کہ اس طریقہ کے ذریعے پچیس لاکھ سے زیادہ لوگوں کی جان لے لی گئی_
ہلاک کرنے کا یہ عمل ایسا تھا کہ اس میں انسان کے جسم میں سے آکسیجن گیس کو مکمل طور پر خارج کر دیا جاتا جبکہ اس کی سانس کی نالی میں کاربن مونو آکسائیڈ داخل کرنے کے علاؤہ اس کے اطراف بھی اسی گیس کو بھر دیا جاتا تھا جس سے انسان تیزی کے ساتھ اپنا توازن کھونے لگتا اور نہایت سست روی کے ساتھ موت کی وادی کی طرف سفر شروع کر دیتا تھا_وہ اپنے اردگرد کے ماحول پر نگاہ رکھ سکتا تھا مگر اپنے جسم کو حرکت میں نہیں لا سکتا تھا_اپنے ہاتھ پاؤں کو جنبش نہیں دے سکتا تھا آواز نہیں نکال سکتا تھا چیخ نہیں سکتا تھا سوائے اس کے کہ اس کے آنسو ڈھلکتے ہوئے اس کے گالوں سے گردن تک پہنچ جائیں اور وہ خود نیند کی اندھیری وادی میں چلا جائے_
 یہ ہے وہ منظر جس میں مرکزی دار الحکومت کے دیگر کئی خاندانوں کے علاؤہ اے ایس آئی نوید اقبال نے اپنے بچوں,بہن اور بھانجی کے درمیان نہ صرف خود موت کو قبول کیا بلکہ اپنے ساتھ موجود اپنی دو بیٹیوں کو بھی مرتے ہوئے دیکھا_ اپنی گاڑی کی پچھلی نشست پر موجود اپنی بہن کو موت کی وادی میں اترتے دیکھا مگر وہ کچھ بھی کرنے سے قاصر تھا_وہی پولیس افسر جو مرکزی دارالحکومت کے سب سے اہم علاقے تھانہ کوہسار میں تعینات تھا,وہی باپ جو بیس گھنٹوں سے سوئی ہوئی انتظامیہ کو جگانے کے لیے بار بار فون کر رہا تھا اپنی لوکیشن بھیج رہا تھا بار بار چیخ رہا تھا کہ ہمیں یہاں سے نکالو مگر کوئی اس کا پرسان حال نہ ہوا تئیس کروڑ لوگوں کی حفاظت پر مامور وفاقی دارالحکومت میں ایک بھی شخص ایسا نہ تھا جو اپنے دفتر سے نکل کر اس بے یار و مددگار شخص تک پہنچ کر اس کی مدد کرتا اور اس کے اور اس کے خاندان کی جان بچانے کے علاؤہ وہاں موجود بے شمار خاندانوں کو موت کے اس سفر سے بچا سکتا_ذرا سوچیں کہ جو ادارے,جو حکومت ,جو ریاست اپنے ایک اہم اہلکار کی چیخ و پکار پر بھی اس کی داد رسی کو نہ پہنچ سکے,اس کی جان نہ بچا سکے,اس کے پھول سے بچوں کے سر پر شفقت سے بھرا ہاتھ نہ رکھ سکے,اس نے مرکز سے ہزار میل دور بے آب و گیاہ علاقوں میں لوگوں کی مدد کیونکر کرنی ہے؟_وہی سرکاری ملازم جو ہر مہینے کی پہلی تاریخ کو اپنی مجموعی تن خواہ سے محصول ادا کرتا ہے جو پانی, بجلی,گیس,چینی, گھی,بسکٹ,سگریٹ,پٹرول,لباس سمیت ہر شئے پر بالواسطہ اور بلا واسطہ ٹیکس پر ٹیکس ادا کرتا رہا کہ ریاست اسے تحفظ فراہم کرے گی وہی ریاست جو بیس گھنٹوں تک مسلسل پکارنے کے باوجود ٹس سے مس نہ ہوئی_جس کے پاس کرین میں ڈالنے کے لیے ڈیزل نہ ہو مگر شاہ مملکت کے لیے تین ہزار سے زیادہ پاسبان موجود ہوں_جس کے قاضی لاکھوں روپے تن خواہ وصولیں اور انصاف عنقا ہو_
مری و گلیات کا المیہ ہماری قومی تاریخ کا ایک اور سیاہ باب قرار دیا جائے گا جو ریاستی مشینری کے چہرے پر بدنما داغ کے طور پر ہمیشہ موجود رہے گا_اپنی صدیوں کی جون پر رواں موسم سرد تھا,برف باری کا طوفان جبکہ دوسری جانب سیاح, وہی سیاح جو اپنے بچوں,عیال کی خوشی کے لیے شمالی علاقہ جات کا رخ کرتے ہیں کہ اپنے بچوں کے چہروں پر رقص کرتی مسکان سے لطف لے سکیں_یہ سادہ لوح سیاح ان بنیادی معلومات سے نابلد تھے جو ایسے مواقع پر بطور خاص ان کے پاس ہونی چاہئیں تھیں کہ نہ تو ریاستی اور نہ ہی نجی سطح پر جڑواں شہروں سمیت ملک کے کسی بھی حصے میں عوام کی ایسی کوئی تربیت کی جاتی ہے_ہاں یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ انتظامیہ کو علم تھا کہ کیا ہو رہا ہے اور عنقریب کیا ہونے جارہا ہے_محکمہ موسمیات کے الرٹ اور 5جنوری کا ریڈ الرٹ دونوں اس امر کے متقاضی تھے کہ ہنگامی بنیادوں پر پیش بندی کرلی جائے ناں کہ نازیوں کی طرز پر اپنے ہی ملک کے شہریوں کو گاڑیوں میں محبوس کر کے انہیں گیس چیمبروں میں مرنے کے لیے بے یار و مددگار چھوڑ دیا جائے کہ وہ بے بسی اور لاچارگی کی موت سے ہم کنار ہوں_ابتر موسم میں مری, کلڈنہ,گلیات اور گردونواح میں پھنسے سیاحوں نے شکایت کی کہ ایک عام کمرے کا کرایہ 50 سے 70ہزار فی شب طلب کیا گیا جو کہ مری میں سال ہا سال سے روایت ہے کہ یہاں پولیس اور انتظامیہ عام آدمی کی بجائے سادھو سیٹھ کی باندی بنی ہوتی ہے_ایک سیاح نے الزام لگایا کہ ہوٹل والوں نے کریڈٹ کارڈ قبول کرنے سے انکار کر دیا جس پر اسے اپنی اہلیہ کا زیور گروی رکھوانا پڑا کہ یہی ہمارا اجتماعی چہرہ ہے کہ ہم مجبور کی مجبوری سے فایدہ اٹھاتے ہیں اور بے کس کی بے کسی پر تمسخر کستے ہیں جیسا تمسخر ان بد نصیبوں پر خود شاہ مملکت نے کسا کہ ریاست خواب دیکھنے میں مصروف ہے تو لوگ کیوں برف باری میں مری کی طرف گئے اور گویا اب بھگتیں اپنی غلطی کی سزا اور مریں اپنی اولادوں سمیت ان گیس چیمبروں میں_اس طرح کی شکایات مری میں ہمیشہ سے رہی ہیں کہ پانی کی بوتل,فی کپ چائے یا ایک ابلے ہوئے انڈہ کی قیمت معمول سے کئی سو گنا زیادہ وصول کی جاتی ہے,اسی طرح گاڑیوں کو دھکا لگانے کا معاوضہ وغیرہ,مگر متوسط طبقے کے لوگ کیا کریں جو فرانس جانے کی ہمت نہیں رکھتے,جو روس کی برف باری دیکھنے کی استطاعت نہیں رکھتے,جو دوبئی کی رنگینی سے لطف لینے کی جیبی قوت نہیں رکھتے؟تو کیا ریاست و حکومت انہیں مشکل حالات میں مرنے کے لیے اکیلا چھوڑ دے گی؟
ہمارے معاشرے کی سڑاند اب چاروں طرف آگ لگانے کے قابل ہو چکی ہے_ہمارا پورا سماج حکومتی نا اہلی کے سبب سے کاربن مونو آکسائیڈ سے بھرا گیس چیمبر بن چکا ہے جس میں پھنسے بے بس اور مجبور لوگ دھیرے دھیرے اپنی جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں_یہ ایسے بے بس ہیں جو اپنی موت کا تماشہ دیکھنے پر مامور ہیں یہ اپنے بچوں کے تاریک مستقبل سے آگاہ ہیں مگر کچھ نہیں کر سکتے یہ اپنی بہنوں کے درمیان رہ کر ان پر مسلط موت سے مقابلہ کرنے سے عاری ہیں یہ چیخ چیخ کر ریاست اور حکمرانوں کو اپنی مدد کے لیے بلاتے ہیں اور پھر تھک ہار کر اپنی موت کو آہستگی سے قبول کرتی آنکھوں کے جھروکوں سے دیکھتے ہیں_یہ اپنے بچوں,اپنی بہنوں, اپنی بہنوں کے بچوں کو مرتے ہوئے دیکھتے رہتے ہیں کہ کوئی نہیں جو ان کی گاڑی کے اطراف پھیلتی برف کو صاف کرے,کوئی نہیں جو ان کے جسم میں کم پڑتی آکسیجن کی ضرورت پوری کرے,کوئی نہیں جو اسلام آباد کے ریڈ زون میں سستائے ہوئے نیم غنودہ بدیسی مشروب کی حدت سے اپنے جسموں کو گرم کیے ہوئے حکمرانوں کو گرم بستروں سے باہر نکال لائے کہ وہ صبح دس بجے سے پہلے لاشوں تک پہنچنے سے بھی گریزاں رہتے ہیں_نازی اپنے دشمنوں کو پچکارتے ہوئے,پاک کرنے کا لالچ دیتے ہوئے,کھڑے ہاتھوں سے غسل خانوں میں لے جا کر موت کے گھاٹ اتارتے ہیں تو ہمارے حکمران ایک ایک گاڑی کو گن کر,ایک ایک فرد کو گن کر اپنے ہی ملک کے متوسط طبقے کے لوگوں کو مونو آکسائیڈ کے گیس چیمبر میں اکیلا چھوڑ دیتے ہیں تاکہ وہ خود مرتے ہوئے اپنے بچوں اور بہن بھائیوں کو بھی مرتا ہوا دیکھیں,جن میں خود کو اور اپنے بچوں کو مرتا دیکھنے کی ہمت نہیں ہے وہ خبردار جو گھر سے باہر نکلے کہ موسم بہت خراب ہے برف باری ہو سکتی ہے جبکہ برف ہٹانے والی مشینری میں ڈیزل موجود نہیں_اس کا ڈرائیور اسلام آباد بڑے صاحب کی بیگم صاحبہ کا سوٹ پہنچانے گیا ہوا ہے اور صاحب تھک کر سو گئے ہیں جن سے اب کل دس بجے کے بعد ملاقات ممکن ہے بشرطیکہ سورج نکلا اور دھوپ چمکی تو_

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments