حیدر آباد میں مکھی ہاؤس اور دیگر ہندو آثار


ماضی میں حیدرآباد کو نیروں کوٹ کہا جاتا تھا، حیدرآباد کو اس وقت سندھ کا دوسرا بڑا شہر کہا جاتا ہے، برصغیر کی تقسیم نے جہاں لوگوں کو بھی تقسیم کر دیا تھا وہاں ماضی میں نیروں کوٹ کے نام سے مشہور حیدرآباد شہر بھی ٹکڑوں میں بٹ گیا، ماضی میں حیدرآباد سیاسی، سماجی اور ثقافتی حوالے سے بھی ایک اپنی تاریخی حیثیت رکھتا تھا، موجودہ دور میں بھی حیدرآباد میں سندھو دریا، پکا قلعہ، مکھی ہاؤس سمیت کئی قدیم اور تاریخی عمارتوں کی وجہ سے تاریخی حیثیت رکھتا ہے، کئی برس پہلے حیدرآباد میں ایک بڑی تعداد میں ہندو برادری آباد تھی، حیدرآباد شہر کی ترقی اور تعمیر میں ہندو برادری کی شخصیات کا بڑا کردار رہا ہے، تقسیم کے دوران ہزاروں ہندو خاندان خوف کے مارے اپنے قدیمی شہر حیدرآباد کو الوداع کر کے بھارت چلے گئے، انہوں نے جو عمارتیں یہاں چھوڑیں ان پر بھارت سے نقل مکانی کر کے آنے والے لوگ رہائش پذیر ہیں، وہی لوگ آج ان گھروں کے مالکان تصور کیے جاتے ہیں۔
حیدرآباد میں ہیرآباد، اڈوانی لین، شاہی بازار، پریت آباد، ہوم اسٹیڈ چاڑھی سمیت سیکڑوں ایسے علاقے موجود ہیں جہاں ہندوؤں کی عمارتیں بنی ہوئی ہیں جو اس دور میں تعمیر کی جانے والی عمارتوں سے مختلف ہیں۔ حیدرآباد مکھی ہاؤس بھی ان عمارتوں میں سے شمار ہوتا ہے، حیدرآباد کے پکا قلعہ کے قریب اور ہوم اسٹیڈ ہال کے سامنے فاطمہ جناح روڈ پر واقع مکھی ہاؤس 1902 میں تعمیر ہوا، اس وقت کے شہر کی معزز شخصیت مکھی جیٹھ انند نے تعمیر کروایا.

مکھی ہاؤس دو منزلوں پر مشتمل ہے، جس میں اوپر اور نیچے 6،6 کمرے بنے ہوئے ہیں، اور دونوں فلور پر دو خوبصورت اور بڑے ہال بھی بنے ہوئے ہیں، مکھی ہاؤس کی عمارت گوتھک طرز پر تعمیر کی گئی تھی، جس میں لکڑی کی سیڑھیاں لگائی گئی تھی، جبکہ عمارت راجستھانی طرز کی طرح نمایاں ہے، اس وقت حیدرآباد کے مشہور کاریگروں نے مکھی ہاؤس میں لکڑی کا کام کیا، جبکہ مکھی میں چٹسالی کا کام بھی تاریخی حیثیت کی عکاسی کرتا ہے، سنہ 1927 میں مکھی جیٹھ انند دیہانت کر گئے، مکھی صاحب کے دیہانت کے بعد یہ گھر ان کی اہلیہ اور ان کے دو بچوں کے حوالے کیا گیا تھا۔

دوران تقسیم مکھی خاندان سنہ 1957 میں نقل مکانی کر کے بھارت چلا گیا۔ اس کے بعد وقتاً فوقتاً مکھی ہاؤس نجی اور سرکاری لوگوں کے قبضے میں رہا، شروعات میں مکھی ہاؤس محکمہ ریونیو کے قبضے میں رہا اس کے بعد محکمہ اوقاف نے قبضہ جما لیا، اس دنوں میں مکھی ہاؤس کی نیچے کچھ دکانیں تعمیر کی گئی، اس عرصے کے دوران نئی لسانی تنظیم کے لوگوں نے مکھی ہاؤس کو آگ لگا دی جس کے نتیجہ میں مکھی ہاؤس اپنی خوبصورتی گنوا بیٹھا۔ ایسی صورت حال کو دیکھ کر سرکار نے مکھی ہاؤس کو رینجرز کے حوالے کر دیا، جب رینجرز وہاں سے روانہ ہوئے تو وہاں سرکار نے مکھی ہاؤس میں خدیجہ گرلز اسکول قائم کیا اور بچیوں کو تعلیم کی سہولیات فراہم کی گئیں۔

Mukhi-House

یہ سلسلہ طویل عرصہ جاری رہا۔ اسی دوراں نچلے حصے میں محمکہ آثار قدیمہ نے اپنا دفتر کھول لیا جو کہ بعد میں پکا قلعہ منتقل کیا گیا، جب حیدرآباد میں ضلعی حکومت کا قیام عمل میں آیا تو حکومت کی جانب سے مکھی ہاؤس کی بحالی کا ذمہ اٹھایا گیا، جبکہ موجود حکومت کے محکمہ ثقافت کی جانب سے بھی مکھی ہاؤس سمیت شہر کی کئی عمارتوں کی بحالی کا کام کرانے کی کوششیں کی گئی، ان دنوں میں حکومت نے مکھی ہاؤس کی بحالی کے لیے ایک پراجیکٹ شروع کرنے کا اعلان کیا تھا، اس پراجیکٹ کے تحت مکھی ہاؤس کو خوبصورت بنایا گیا، مکھی ہاؤس کی مرمت کے ساتھ رنگ و روغن بھی کیا گیا، دوسری جانب محمکہ نوادرات کی جانب سے مکھی ہاؤس میں میوزیم قائم کرنے کا اعلان کیا گیا تھا اور وہاں تاریخی، ثقافتی اور انمول چیزیں رکھی گئی ہیں، اس وقت مکھی ہاؤس کو میوزیم میں تبدیل کر اس کو عوام کے لیے کھول دیا گیا ہے۔

مکھی ہاؤس کو تعمیر کرانے والا مکھی جیٹھ آنند کا خاندان اس وقت امریکہ میں رہائش پذیر ہے۔ اس وقت حیدرآباد مکھی ہاؤس کی طرح ہندو برادری کی سیکڑوں عمارتیں موجود ہیں، اڈوانی ہاؤس تلک چاڑھی، ہیرآباد، کشن چند آڈوانی بلڈنگ ہیرآباد، ہیرا لال، موہنی بائی اسپتال، میرا بائی، تارا چند، سول اسپتال، بسنت ہال، دیال داس کلب، دیا رام آرکیڈ، سمیت سیکڑوں عمارتیں حیدرآباد میں موجود جن پر ہندوستان سے نقل مکانی کر کے آنے والی لوگ رہائش پذیر ہیں اور یہ عمارتیں اسی حالت میں موجود ہے، حکومت کو چاہیے کہ ہندو برادری کی قدیمی عمارتوں کی دیکھ بھال کے لیے اقدامات کئے جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments