عورت اور سماجی رشتے


عورت کا دل مرد سے کئی سو گنا مضبوط ہوتا ہے، اگر اس میں گھر کا پیار اور اعتبار کی آنچ شامل کر دیں تو یقین کریں بیٹیاں دنیا فتح کرنے کا حوصلہ رکھتی ہیں۔

ہم جتنے بڑے ہو جائیں، دور رہیں ماں باپ سے لیکن وہ جو بچپن کی یاد ہوتی ہیں نا ماں کے دوپٹے سے کھیلنے کی، ابا کا بڑا چشمہ پہننے کی، ان کے جوتے پیروں میں اڑا کر چلنے کی، وہ سب کیوں تنگ کرتی ہیں؟ اس لیے کہ ان سے بھی لمس جڑا ہوتا ہے۔ تو یہ پیار اگر اتنا اہم ہے، تو ہم بیٹیوں کو اس سے محروم کیوں رکھتے ہیں؟

صرف اس لیے کے دوسرے گھر جائے گی تو کیا ہو گا؟ اسے لاڈ پیار کی عادت ہوگی؟ خود اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھ لیں، کسی کی بیٹی کو گھر میں لا کر کتنے کوئی سکھ دے دیے آپ نے؟

کوئی ایک سننے والا، پڑھنے والا ہو، جو سامنے آئے اور کہے کہ ہاں میں آج مطمئن ہوں۔ میں نے اپنی بیوی کو زندگی میں کبھی کوئی دکھ نہیں دیا! ہے کوئی ایک؟ جو کہہ دے کہ میں نے اپنی کسی دوست کو، فی میل کولیگ کو، کسی بھی رشتے میں موجود عورت کو زندگی میں کبھی تکلیف نہیں دی؟ ہے کوئی؟

تو دوسرے گھر جا کر، دوسرے رشتے میں بندھ کر، زندگی کی ٹھوکریں کھانے میں آزاد ہو کر، یہ تو سب بچیوں کے ساتھ ہونا ہوتا ہے۔ یا تو قسم کھا لیں کہ پرائی بچی کو حتی الامکان رنج نہیں پہنچانا یا پھر کم از کم اپنی اولاد جب تک اپنے پاس ہے، اپنے ساتھ ہے، اپنے گھر میں ہے اس کے اتنے لاڈ اٹھا لیں، اسے اتنا رجا دیں کہ وہ کبھی تنگ ہو بھی تو اس کے پاس زندگی کی بہترین یادیں ہوں، جو اس کے اپنے گھر کی ہوں۔

رشتے دو قسم کے ہوتے ہیں۔ وہ جو ہمیں پیدائش سے ہی وراثت میں ملے اور ایک وہ جو ہم نے خود بنائے۔ پیدائشی رشتے خون کے رشتے ہیں۔ ماں باپ، بہن بھائی اعزہ و اقربا۔ یہ سب رشتے بنے بنائے ہوئے ہیں۔ یہ رشتے نہ جوڑنے سے جڑتے ہیں اور نہ توڑنے سے ٹوٹتے ہیں۔ یہ دائمی رشتے ہیں۔ یہ ازلی وابستگیاں ہیں۔ یہ ہماری ذمہ داریاں ہیں، جنہیں ہم نے پورا کرنا ہوتا ہے۔ رشتہ خون کا ہو یا سماجی خلوص شرط ہے۔

یہ سب رشتے ہمارا وقت، ہمارا پیسہ، ہمارا سکون اور کبھی کبھی ہمارا ایمان کھاتے ہیں۔ یہی ہمارا سماج ہے اور یہی ہمارا معیار ہے۔ ہمیں ترغیبات میں پھنسانے والے رشتے ہی تو ہیں۔ ہمیں غریبی سے غیرت دلانے والے رشتے ہی تو ہیں اور پھر اس غیرت سے مجبور ہو کر ہم ایمان فروشی کر جاتے ہیں۔ ہم غریبی کو حرام کہتے ہیں اور رشوت کو حلال۔ رشتوں کے تقاضے، دین کے تقاضوں سے متصادم ہو جاتے ہیں اور پھر۔ ہم بے بس ہو کر گزرتے ہیں وہ کام، جو ہمیں نہ کرنا چاہیے۔

انسانیت ہر رشتے سے بڑھ کر ہے ایک خاندان وسیع آسمان کی طرح ہوتا ہے جس کو بے شمار ستارے اور چاند اپنی چمک دمک سے اسے سجائے ہوئے ہیں سب میدار کو سنبھالے ہوئے اپنی سمت میں رواں دواں ہیں اور یہ کہکشاں سجی ہوئی ہے کسی طرح خاندان کہ اگر فرد اپنے مدار میں رہتا ہوا اپنے حصے کی کارکردگی میں کھاتا رہے تو مدار چلتا رہے گا وگرنہ نظام زندگی بربادی کا رخ پکڑ لیتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments