کیا ایک دہریہ انسان دوست اور با اخلاق ہو سکتا ہے؟


ہم ایک ایسے بند معاشرے میں رہتے ہیں جہاں جامد ذہنیت کو قابلیت کا پیمانہ تصور کیا جاتا ہے اس کا اندازہ ہم کچھ اس طرح سے لگا سکتے ہیں کہ امتحانی پرچہ جات کی مارکنگ کے لئے مارکنگ عملے کو متعلقہ پیپر کی ”کی کاپی“ پیپرز کے بنڈلوں کے ساتھ ارسال کر دی جاتی ہے تاکہ اس ماسٹر کاپی کے مطابق عملہ مارکنگ کر کے رزلٹ تیار کر سکے۔ اس قسم کا لیول اور معیار مقابلہ کے امتحانات میں بھی پایا جاتا ہے جس امید وار کو رٹا لگانے کا فن آتا ہے وہ کوئی بھی مقابلہ کا امتحان چٹکیوں میں پاس کر سکتا ہے۔

تخلیقیت کس جوہر کا نام ہے اس سے دور دور تک کسی کا کوئی واسطہ نہیں ہوتا، اس پروفیسر کو سب سے قابل سمجھا جاتا ہے جو شارٹ کٹ اور سمارٹ سٹڈی کے فن سے آشنا ہو چاہے طلباء کو پریکٹیکل لائف میں کتنے ہی مسائل کا سامنا کرنا پڑے اس بات سے اس ”شارٹ کٹ مافیا“ کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لکھا ہوا ایک ایک لفظ ہمارے لئے مقدس اور زندگی کا انسائیکلوپیڈیا ٹھہرتا ہے اور انسانی تجربات و مشاہدات کی ہماری نظر میں کوئی اہمیت نہیں ہوتی اور یہ ناک کی سیدھ والا رویہ ہماری جنریشن کو روبوٹک بنانے میں بڑا اہم کردار ادا کرتا ہے۔

محدود ٹارگٹ، محدود سوچ اور محدود ٹالرنس لیول ہمارے سماج کا طرہ امتیاز ہے اسی لئے جو کوئی بھی ان محدود دائروں کو توڑنے کی سعی کرتا ہے اسے فوری طور پر ”سٹیٹس کو کے پجاری معاشرتی پنڈتوں“ کی طرف سے پروانہ نافرمانی مخصوص القاباتی ٹیگ کی صورت میں مل جاتا ہے اور ایسے بندے کی عمر اپنی پوزیشن کی صفائیاں دیتے دیتے بیت جاتی ہے۔ مطلب الگ سے سوچنا، منفرد سوچنا، روایت شکنی اور صدیوں سے قائم شدہ اتھارٹی پر سوال اٹھانا اس معاشرے میں جرم سمجھا جاتا ہے اور ایسے بندے کو گمراہ، لادین اور ملعون تصور کیا جاتا ہے نہ جانے کتنے لوگ اس بے ضرر جرم کی سزا بھگت رہے ہیں۔

اس مضمون کے لکھنے کی وجہ گل بہار بانو ہیں جو ہمارے ملک کی ایک مہان آرٹسٹ ہیں جس کی آواز میں ایک خاص طرح کا سحر ہے جو معاشرتی دکھوں کی وجہ سے آج ذہنی مریضہ بن چکی ہیں جسے تقریباً بھلا دیا گیا تھا کیونکہ وہ ایک لمبے عرصہ سے منظر سے غائب تھی مگر خدا بھلا کرے ڈاکٹر خالد سہیل کا جنہوں نے سات سمندر پار کینیڈا میں اس عظیم فنکارہ کی کمی کو محسوس کیا اور انھیں ڈھونڈ نکالنے کا قصد کیا۔ فیس بک پر پیغام اور پاکستان میں موجود اپنے دوستوں سے بار بار درخواست کی کہ گل بہار بانو کو ڈھونڈنے میں میری مدد کریں تاکہ ہم اس عظیم فنکارہ کا نفسیاتی علاج کروا سکیں۔

جب مختلف دوستوں نے اس عظیم فنکارہ کے کچھ عزیز و اقارب سے رابطہ کیا اور انہیں گل بہار کا اتا پتہ بتانے کی درخواست کی تو ان میں سے کچھ نے کہا کہ ان سے ملنے کے لیے آپ کو ہمیں ایک بھاری معاوضہ دینا پڑے گا بعد میں پتا چلا کہ ان کے عزیز و اقارب گل بہار کی جائیداد تک ہڑپ کر چکے تھے۔ آخرکار کوششیں بار آور ثابت ہوئیں اور پتہ چلا کہ وہ بہاولپور میں ہیں اور ان کی ڈپریشن کا علاج آغا خان ہسپتال کے ایک ماہر نفسیات کر رہے ہیں۔

سب سے اچھی بات یہ ہوئی کہ ڈاکٹر خالد سہیل گل بہار بانو کی خیریت والی ویڈیو حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے اور اسے اپنے کالم میں شیئر کر دیا تا کہ ہمارا منافق معاشرہ اپنی حقیقی تصویر اور برتاؤ اس ویڈیو کے ذریعے مشاہدہ کر سکے۔ یہ ہنر بھی ہمارے پاس ہے کہ ایک زندہ انسان کو منظر سے ہٹانا اور پھر اس سے ملوانے کے لیے بھاری معاوضہ بھی طلب کرنا شاید اس قسم کا سفاکانہ رویہ رکھنے والے واحد ہم ہی اس کرہ ارض پر ہوں گے۔ ریکارڈ کی درستی برقرار رکھنے کے لئے بتاتا چلوں کہ ڈاکٹر خالد سہیل مذہب سے لاتعلق ہیں مگر انسان دوستی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ جیسے لوگوں کے متعلق ہمارے سماج میں کیا رائے ہے؟

ان کی کوئی اخلاقیات نہیں ہوتی۔
یہ انسان اور سماج دشمن ہوتے ہیں۔
یہ بے خدا ہوتے ہیں اس لئے ان کے پاس زندگی کا کوئی لائحہ عمل نہیں ہوتا۔
یہ بے شرم اور بے حیا قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔
یہ جھوٹے اور فریبی ہوتے ہیں۔

ہمارے سماج کا شخصیتی پیمانہ اس کا ڈائی ہارڈ مذہبی ہونا یا کہلانا ہے چاہے وہ مذہب کی آڑ میں کچھ بھی کرے اس سے اس کے کردار پر کوئی فرق نہیں پڑتا چونکہ مخصوص مذہبی گیٹ اپ اس کا ”سیف گارڈ“ یا معاشرتی لائسنس ہوتا ہے۔ اسی فکس ذہنیت کے مطابق ہمارے سماج کا یہ چلن ہے کہ جو بندہ بھی لامذہب ہو گا وہ لازمی طور پر بد کردار اور تمام اخلاقی پیمانوں سے ماورا قسم کا شخص تصور کیا جائے گا۔ ڈاکٹر صاحب آپ نے ہمارے اعلیٰ اخلاقی ہونے کا معیار خود اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر لیا ہو گا کہ کیسے ہم نے ایک عظیم فنکارہ کو جیتے جی پاگل ڈیکلیئر کر کے منظر سے غائب کر دیا اور رشتہ داروں نے بڑے فخر سے اس کا سب مال و متاع ہتھیا لیا۔

کیا اب بھی آپ کو ہماری اعلیٰ اخلاقیات پر کوئی شک ہے؟ آپ کو کیا پڑی تھی ایک فنکارہ کا کھوج لگانے کی، رلنے دیتے نہ جانے روزانہ کتنے رلتے ہیں اور کتنوں کے فن کی موت ہوتی ہے، ہمارے مذہب میں موسیقی حرام ہے اور ہماری نظر میں گائیک جہنمی ہوتا ہے اور جو جہنمی ٹھہرا اس کا انسانوں کے بیچ رہنے کا کیا جواز بنتا ہے؟ ہماری نظر میں تو انسان ہونے کا صرف ایک ہی پیمانہ ہے اور وہ ہے مذہبی ہونا اس کے علاوہ جو کوئی بھی ہو گا وہ گمراہ اور جہنمی کہلائے گا۔

ہم لا مذہبی بندے کو کافر، ملحد یا ملعون تو کہہ سکتے ہیں مگر انسان کہنا یہ ہم سے نہ ہو پائے گا۔ اس لئے ڈاکٹر صاحب آپ نے انسانی بنیادوں پر گل بہار بانو کو زندگی کی جو نئی امید دکھائی ہے اس کا کریڈٹ بھی ہمارے کھاتے میں ہی شامل ہو گا کیوں کہ آپ ٹھہرے لا مذہبی اور اسی وجہ سے آپ جہنم کا ایندھن بنیں گے اور آپ کی نیکی کی لامذہب ہونے کی وجہ سے کوئی ویلیو نہیں ہے۔ آپ کی سب انسانی وابستگیاں، ٹیلی فون کال پر اندرون اور بیرون ملک کے نفسیاتی مریضوں کی بے غرض ہو کر مدد کرنا اور ”ہم سب“ پر اپنی تحریروں کے ذریعے سے لاکھوں لوگوں کی غائبانہ مدد کسی کام کی نہیں ہے کیونکہ آپ ہماری طرح کلمہ گو نہیں ہے اور بے کلمہ لوگوں کی نیکیاں بھی ضائع کر دی جاتی ہیں۔ ہم چاہے کلمہ گو ہو کر اپنے دین پر صرف دس پرسنٹ ہی عمل کرتے ہوں ہمیں پھر بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا اور آپ بے کلمہ ہو کر جتنے مرضی دکھی انسانوں کی مدد کریں آپ جنت کے حقدار نہیں بن سکتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments