کراچی والوں : مال دو یا پھر جان دو


کراچی میں غیر علانیہ طور پر جنگل کا قانون نافذ ہو گیا ہے۔ اس قانون کے تحت کوئی بھی درندہ بشر کے روپ میں آتا ہے اور انسان سے اس کی محنت کی کمائی کو بزور بندوق چھین لیتا ہے اور اگر کوئی مزاحمت کریں تو اس کو مار دیا جاتا ہے اور وہ درندہ دندناتے ہوئے نکل جاتا ہے۔ پھر ڈکیت کسی کے حلال پیسوں سے حرام کی عیاشیاں کرتے ہیں اور پھر اگلے شکار کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔

کراچی میں اس نئے سال کے 12 دنوں میں 5 پاکستانی شہری ڈکیتی کے باعث اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ جاں بحق ہونے والوں کی جان انتہائی قیمتی تھی اور اب ان کی پیارے ان کی یاد میں روز روز تڑپیں گے۔ لیکن ان پانچ میں دو واقعات نے پورے پاکستان بلکہ ہر انسان دوست شخص کو افسردہ کر دیا ہے۔ ایک چار سالہ ننھی حرمین کے قتل نے اور دوسرا 28 سالہ شاہ رخ کے قتل نے، یہ دونوں قتل ڈکیتی کے نتیجے میں ہوئے۔

جب جب حرمین اور شاہ رخ کی تصویریں نظروں کے سامنے آ رہی ہے تو بار بار جھنجھوڑ رہی ہے۔ ابھی ننھی حرمین نے صرف زندگی کی 4 بہاریں دیکھی تھی، جب کے شاہ رخ کی زندگی کا نیا آغاز تھا اور اس کی دو دن پہلے ہی شادی ہوئی تھی۔

ہم سب چند دنوں بعد یہ قتل اور یہ شکلیں بھول کر اپنی زندگی میں لگ جائیں گے مگر یہ ظلم ننھی حرمین کے والدین کو اور شاہ رخ کی والدہ اور اس کی نئی نویلی دلہن کو پوری زندگی رلائے گا۔

کراچی والوں کا سوال ہے کہ ہم نے آخر بگاڑا کیا ہے؟ کیا ہم ٹیکس نہیں دیتے؟ کیا ہم قانون کی پاسداری نہیں کرتے؟ ہم پر خود ساختہ طرح طرح کے عذاب کیوں برپا کر رکھے ہیں۔ کبھی بم بلاسٹ کا سلسلہ تھا وہ رکا تو ٹارگٹ کلنگ کا طویل سلسلہ شروع ہو گیا اور وہ کسی طرح ختم ہو گیا، مگر ڈکیتی اور چوری کا مسلسل سلسلہ ہے جو کسی صورت تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ آخر کیوں؟

حکومت کدھر ہے؟ قانون کی عملداری کدھر ہے؟ کراچی والے کیا کریں؟ صرف کپڑے پہن کر باہر نکلیں۔ نہ موبائل ساتھ رکھیں، نہ گاڑی میں گھومیں، نہ بائیک استعمال کریں، نہ والٹ رکھیں، بس ضرورت کی رقم رکھیں اور رکشے، بسوں میں خوار ہوں۔ لیکن حرمین کا کیا قصور تھا؟ اس کے پاس تو نہ کوئی رقم تھی اور نہ موبائل، شاہ رخ کی بھی کیا غلطی؟ جب دیکھا کے ماں کو کوئی لوٹ رہا ہے تو قابو نہ رکھ پایا۔ لیکن سوال وہ ہی ہے جن کو ڈکیتوں پر قابو پانا ہے وہ کہاں ہیں؟

بہت سے لوگ تاویل دیتے ہیں کہ نوکری نہ ہونے، کاروبار نہ ہونے کی وجہ سے ڈکیتیاں بڑھ گئی ہے۔ انتہا کی بھونڈی دلیل ہے۔ دیکھیں کام مارکیٹ میں ہے، وہ الگ بات ہے آپ کے مطلب کا نہیں ہو گا یا آپ کی ڈیمانڈ کے مطابق نہیں ہو گا، البتہ عزت کے ساتھ روزی روٹی کمائی جا سکتی ہے۔ آپ کو اپنا معیار تھوڑا مختلف یا الگ کرنا پڑے گا۔ یہ بیان ڈکیتوں کے لئے ہمدردی پیدا کرتا ہے، لیکن اصل میں اس کی کوئی حقیقت نہیں۔

دوسری جانب یہ بات بہت آرام سے کہہ دی جاتی ہے کے جب ڈکیتی ہو تو مزاحمت نہ کرو، سب کچھ فوری طور پر حوالے کردو، جان سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔ بے شک، جان سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں سوائے بچوں کے۔ جی جان سے بڑھ کر بچے ہیں لیکن اگر کسی کا رزق اس کی بائیک یا موبائل سے جڑا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے اس کے ذریعے وہ اپنے بچوں کا پیٹ بھرتا ہے۔ ممکن ہے وہ بائیک بھی قرضے سے لی ہو، ممکن ہے اس موبائل کی قسطیں چل رہی ہوں۔ یہ بات مزاحمت کرنے والے شخص کو پتا ہوتا ہے کہ چھیننے والے چیزیں اگر نا ہوئی تو پھر بچوں کو کیسے کھانا کھلائے گا؟

حیرت ناک بات یہ ہے، ڈکیتوں کی ویڈیوز بھی آتی ہیں اور تصویریں بھی آتی ہیں، مگر وہ گرفتار نہیں ہوتے اور اگر ہو بھی جائیں تو قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے چند مہینوں بعد رہائی پا لیتے ہیں۔ اور اس بار کی رہائی انھیں اس کام میں اور پکا کر دیتی ہے کیونکہ ان کو معلوم ہو چکا ہے کہ یہ کام آسان ہے اور جھٹکے میں مالا مال کرتا ہے اور اگر پھنس بھی جائیں تو نکلنے کا راستہ آسان ہے۔

خیر سوال قائم ہے۔ اداروں سے درخواست یہ ہے کہ اگر ڈکیتوں کو پکڑ نہیں سکتے تو کم سے کم شہریوں پر کسی قسم کی پابندی لگا دیں کہ وہ گھر سے باہر نکلیں تو یہ چیزیں لے کر نکلیں ورنہ گھر میں ہی رہیں۔ لیکن پھر ذہن میں سوال ابھرا کے گھر میں ہونے والی چوریوں اور گھر کے باہر سے ہونے والے چوری سے کیسے بچا جائے؟ سوال قائم ہے کاش کے کوئی جواب دے دے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments