مُندری


فرزانہ نے کمال ہوشیاری سے دروازہ بند کیا جو دروازہ تو نہیں کہا جاسکتا تھا۔ ایک ٹین کا جھولتا ہوا ٹکرا تھا جس میں ایک ہک لگادی تھی اور وہ ہک ٹوٹی دیوار کی ایک دراڑ میں اٹکا دی جاتی تھی مگر دو انگلی کا فاصلہ رہ جاتا تھا سو باہر سے بھی کنڈی اٹکائی جا سکتی تھی۔ یہ ”انجنئیرنگ“ بھی دو سال پہلے اسی نے انجام دی تھی ورنہ تو یہاں ایک ٹاٹ کا بوسیدہ پردہ ایک سپرنگ پر لٹکتا تھا اور رات کو اسے نیچے کھینچ دو اینٹیں رکھ کر گھر کو ”لاک“ کر دیا جا تا تھا۔ دل کو تسلی رہتی تھی کہ مبادا کوئی چور ہی نا گھس آئے مگر چور بھی جانتے تھے کہ ان لوگوں کے گھروں کیا ہو گا۔

بچپن میں فرزانہ بھی یہی سمجھتی تھی کہ اگر اینٹیں نا رکھیں تو چوری ہو جائے گی مگر جب ذرا بڑی ہوئی اور ایک رات ماں نے دھیان سے اینٹوں کو رکھنے کے لئے کہا تو اس پر تو ہنسی کا دورہ پڑ گیا

اماں یہاں کیا ہے جو چور لے جائے گا؟
وہ زمین پر گویا لوٹ پوٹ ہونے لگی تھی

نی مر جانئیے! تینوں نئی پتہ میری مندری اے تے او میرے نانکیاں (ننھیال) نے منوں پائی سی، ہن میں تینوں پاواں گی

ماں نے تفصیلی جواب دیا اور سات مہینے کی بیٹی کو دو ہتڑ مار مار کر سلانے کی نا کام کوشش کرنے لگی۔ فرزانہ کی ماں نذیراں کی عمر تو اتنی نہیں تھی یہی کوئی تینتیس چونتیس کی ہی ہوگی اور فرزانہ اس کی سب سے بڑی اولاد تھی اور ابھی سولہویں میں لگی تھی مگر اس سے چھوٹے آٹھ بچوں نے نذیراں کی جوانی کو لقمے بنا کر نگل لیا تھا اور وہ پچاس کی نظر آتی تھی۔ اس آخری لڑکی کی دوران پیدائش کوئی ایسی پیچیدگی ہو گئی کہ خون ہی رکنے کا نام نا لے رہا تھا اور دائی نے ہاتھ اٹھا لئے تھے،

پا مجید ہن تے ہسپ تال دا کم اے، وقتو وقتی لے جا

اور مجید نجانے کیا پاپڑ بیل کر خیراتی ہسپتال پہنچا اور تقریباً مردہ نذیراں کا آپریشن ہوا اور آئندہ کے لئے مزید بچوں کی خوشخبری کا دروازہ بند ہو گیا۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر اس صدمے سے روتا رہا کہ اب وہ کبھی باپ نہیں بن سکے گا۔ فرزانہ، اسحاق، اختر اور حسنہ چاروں ایک کمرے کے مکان میں وقت سے پہلے بالغ ہو چکے تھے سو انھوں نے شکر کیا کہ اب کوئی بچہ گھر میں نہیں آئے گا اور نذیراں بھی لوٹ پوٹ ٹھیک ہو گئی تھی اور اب تو اس واقعے کو بھی تین سال ہو گئے تھے۔

مجید منڈی میں کام کرتا تھا مگر گیارہ جی کھانے والے جن کو بیماری میں علاج، سردی گرمی کے کپڑے چاہیے تھے عیدیں آتی اور گزر جاتیں مگر رمضان اچھا گزرتا تھا۔ خدا ترس امرا بہت کھانا اور افطاری ان محلوں میں تقسیم کرتے تھے۔

فرزانہ پندرہ سال کی کیا ہوئی، اس نے خوب پر پرزے نکالنے شروع کئیے تھے اور محلے کے آوارہ لونڈوں سے آنکھ مٹکا بھی ہونے لگا اور چپس کا پیکٹ یا جوس کا پیکٹ اور کھٹی میٹھی گولیاں بھی تحفے میں ملنے لگیں تھیں اور حسنہ اس کے ساتھ پارٹنر ان کرائم تھی۔ اسحاق اور اختر کسی ورکشاپ میں کام سیکھنے لگے جہاں کام تو کم مگر غلیظ گالیاں اور محاورے اطمینان بخش سیکھ رہے تھے۔ باقی پانچ میں سے تین تو قریبی مدرسے میں رلنے لگے اور دو گھر میں ریں ریں کیا کرتے تھے۔

اماں میرا ویاہ کر دے
ایک دن اچانک فرزانہ نے فرمائش کر دی
مر جا نیے حیا کر
ماں نے ٹیڑھی آنکھ سے اسے دیکھا
تو اماں تیرے پاس مندری تو ہے نا تو بس مجھے اور کچھ نہیں چاہیے
وہ ماں سے لپٹ گئی
نئی وہ مندری میری ہے

حسنہ نے چمک کر کہا، وہ نلکے کے نیچے برتن دھو رہی تھی مگر اٹھ کر آ گئی اور دونوں لڑنے لگیں اور جھگڑا اتنا بڑھا کہ ایک دوسرے کے یاروں تک بات آ گئی تو ماں کو مجبوراً زبان اور جوتی دونوں استعمال کرنا پڑی

او میری مندری اے، میرے مامیاں (مامؤں ) نے پائی سی منوں تے میں کسے نوں نئی دینی
دونوں بہنیں جھگڑا بھول کر قہقہے لگانے لگیں۔
در فٹے منہ

ماں نے چارپائی پر کروٹ بدل لی۔ آج کل فرزانہ ہواؤں میں اڑ رہی تھی کیونکہ اس ٹانکہ ساجی سے لگ گیا تھا۔ اس کا نام تو ساجد تھا مگر ساجی مشہور تھا اور فرزانہ کے گھر سے تین گھر چھوڑ گھر رہتا تھا جو ہیروئن کا نشئی تھا۔ اس کے باپ کی چھوٹی سی کریانے کی دکان تھی جو اپنے گھر کے باہر ایک چھپر ڈال کر بنا رکھی تھی اور کبھی کبھی ساجی بھی وہاں بیٹھتا تھا۔ ساجی کو کئی باتوں میں فرزانہ پر فوقیت حاصل تھی جیسے کہ فرزانہ پہلی جماعت بھی پوری نا کر سکی تھی مگر ساجی چار جماعتوں کا منہ دیکھ چکا تھا اور ٹوٹی پھوٹی اردو لکھ پڑھ لیتا تھا، مکان ایک ہی کمرے کا تھا مگر اپنا تھا مگر فرزانہ کا کرائے کا تھا اور سب سے اہم ساجی گیارہ بہن بھائی تھے وہ بھی سب سے بڑا تھا اور اٹھارہ انیس سال کا تھا۔ اس سے چھوٹی تین بہنیں مختلف کوٹھیوں میں کام کرتی تھیں مگر اپنی تنخواہیں جہیز کے لئے جمع کرتی تھیں، بیگمات کی اچھی اترن پہنتی تھیں اور بچا ہوا مزیدار کھانا بھی گھر لاتی تھیں اور کبھی کبھی سو پچاس بھائی کے ہاتھ پر بھی رکھ دیتیں۔ ساجی کو نشے لت تھی اس لئے کچھ کام کاج نا کرتا تھا۔

ایک دن دکان پر بیٹھا تو فرزانہ آ گئی اور ایک پاؤ مسور کی دال اور آدھا کلو ٹوٹا چاول تولنے کا کہا مگر اپنی بادامی مدھ بھری آنکھوں کا ایسا جادو چلایا کہ ساجی نے نا صرف ایک کلو دال اور دو کلو ٹوٹا تول دیا بلکہ ٹھنڈی بوتل بھی پلائی جو فرزانہ نے بھری گلی میں بلا خوف و خطر ڈنکے کی چوٹ پر پی لی تھی اور بس عشق دھواں دار شروع ہو گیا۔

یہ ساجی ہی تھا جس نے پہلی بار فرزانہ کی زبان کو نان اور سیخ کباب کے ذائقے سے روشناس کرایا جو اسے بھولتا ہی نہیں تھا، یہ الگ بات تھی کہ ساجی کی بہن کوٹھی سے لائی تھی۔ وہ دونوں رات کو ملتے تھے۔ بالکل قریب صدیق حلوائی کی دکان تھی اور اس دکان کے سیدھے ہاتھ ایک باریک سی گلی تھی اور نجانے کتنی پرانی تھی۔ گلی اتنی تنگ تھی اور اتنی اندھیری کہ کسی گھر کا دروازہ اس میں نہیں کھلتا تھا اور کوڑے کے انبار اور نہایت غلیظ نالی تھی اور بد بو کے مارے وہاں ایک سیکنڈ بھی کھڑا ہونا محال تھا۔

یہاں نانک شاہی اینٹوں کا ایک چھوٹا سا تھڑا تھا جو گلی سے بھی زیادہ گندا تھا مگر ملاقات کے روز ساجی دکان سے دو شاپر لاتا تھا اور وہ دو نوٖں اپنے اپنے شاپر پر تشریف رکھتے تھے۔ وہ اسے نامناسب طریقے سے چھوتا اور بار بار منہ چومتا اور آنے والے دنوں میں باہر جا کر کمانے کی باتیں کرتا تو فرزانہ ہوا میں اڑنے لگتی اور ایسے ہی نازک لمحات میں اس نے ساجی کو ماں کی انگوٹھی کے بارے میں بتایا اور یہ بھی کہ وہ انگوٹھی اسے جہیز میں ملے گی تو ساجی نے اسے بھینچ کر سینے سے لگا لیا اپنی دست درازٖیاں مزید آگے بڑھائیں۔

ان ہی دنوں میں فرزانہ نے ماں سے ویاہ کی فرمائش کی تھی مگر منہ کی کھائی تھی۔ آج کل ساجی نجانے کہاں تھا چار پانچ دن سے اس کوئی خبر ہی نہیں تھی۔ فرزانہ نے اس کے گھر کا چکر لگانے کا سوچا کیونکہ دونوں گھرانے ایک دوسرے سے صرف دو گھر دور رہتے تھے اور جان پہچان بھی تھی مگر مگر پھر بھی کوئی بہانہ تو ہونا چاہیے لیکن اب پیار کیا ہے تو ڈرنا کیا اور وہ بلا خوف و خطر ساجی کے گھر چلی گئی۔ وہی غربت وہی جہالت اور گندگی ہن کی طرح برس رہی تھی اور ساجی کی ماں اپنے گیارہویں بچے کو آرام سے دودھ پلا رہی تھی اور مکھیاں اس کی چھاتی اور بچے کے منہ پر بھنبھنا رہی تھیں۔ اس کی بہن سلمی شاید آج کوٹھی نہیں گئی تھی اور نلکے پر بیٹھی کپڑے دھو رہی تھی اور اس سے فرزانہ کی تھوڑی بہت دوستی تھی۔

تو کہاں سے راہ پل گئی
وہ چادر نچوڑتے ہوئے بولی
بس دیکھ لے تو نا سہی میں تو آ ہی گئی

وہ اس کے پاس پڑی پیڑھی پر بیٹھ گئی، اتنے میں ساجی اپنی کوٹھڑی بر آمد ہوا جو دو تین سال ہوئے اس نے ٹین کی چھت اور دیواریں کھڑی کر کے صحن میں بنا لی تھی

سلمی کیا پکایا ہے؟
اس نے فرزانہ کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے بہن سے پوچھا
چلو نواب دا پتر ہن اٹھ پیا چنگا چوکھا کھان واسطے
اس کی ماں نے حقارت سے کہا
تن دن بعد اٹھیا توں، حیا ہی کوئی نہیں
وہ فرزانہ کو نظر انداز کر کے مسلسل لعن طعن کر رہی تھی
تو بیمار ہے ساجی؟
اس نے بے اختیار پوچھا

کیونکہ ساجی کا رنگ مٹیالا ساتھا، زندگی کی چمک سے محروم آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی تھیں اور چلتے چلتے وہ کانپ رہا تھا۔ سلمی اٹھ کھڑی ہوئی تھی اور بھائی کا ہاتھ پکڑ دوبارہ اس کو کوٹھڑی میں لے گئی تھی۔

توں وی کر جا کڑیے، عصر دا ویلہ اے

اس کی ماں نے بے رخی سے کہا تو اب فرزانہ جو ساجی کی طرف سے والہانہ استقبال کی منتظر تھی کے پاس گھر جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ غربت اور جہالت میں ڈوبے یہ ماں باپ بچوں کو اس جہان میں لاتے تھے مگر پھر راہ میں پڑے پتھروں کی طرح دنیا کی ٹھوکروں میں چھوڑ دیتے تھے۔ تعلیم، خوراک، علاج اور دوسری بنیادی سہولتوں کی عدم دستیابی نے ان کو اشرف المخلوقات کی سطح کو چھونے بھی نہیں دیا تھا۔

گھر آئی تو ماں کے پاس کوئی عورت بیٹھی تھی اور بات فرزانہ کے رشتے کے بارے ہو رہی تھی

میرے کول ودیا پنج جوڑے تے سونے دی مندری اے، میرے نانکے نے منوں پائی سی تے ہن میں فرزانہ نوں پاواں گی

ماں فخریہ لہجے میں کہہ رہی تھی۔ فرزانہ کے دماغ میں بجلی سی کو ندی
کیوں نا میں مندری کاروبار کے لئے ساجی کو دیدوں، مندری کو چاٹنا ہے بھلا

اگلے دن ساجی نے اپنی سات سالہ بہن کے ہاتھ میٹھی سونف بھیجی اور نو بجے اسی گلی میں بلایا۔ سردیوں کے ابتدائی دن تھے سو اس کے ماں باپ اور چھوٹی پود تو سر شام کوٹھڑی میں سما گئی تھی۔ اسحاق اور اختر دس بجے تک آوارہ گردی کے بعد آتے تھے۔ حسنہ ہر روز آٹھ سے دس بجے تک آپاں نصرت کے گھر جاتی تھی جہاں نصرت دن بھر کے برتن جمع رکھتی تھی اور حسنہ ان کو دھوتی

تھی اور معاوضے کے طور پر دو گھنٹے ٹی وی دیکھتی تھی کیونکہ پورے محلے میں ٹی وی صرف اسی گھر میں تھا اور نصرت کے شوہر جمیل سے معاشقہ بھی لڑا رہی تھی۔ فرزانہ اور حسنہ کو تو باپ کا ڈر بھی نہیں تھا جو گھر آ کر بلاتفریق جو بچہ بھی ہاتھ لگتا روئی کی طرح دھنک دیتا تھا۔

فرزانہ نے ایک بوسیدہ سی شال اوڑھی اور باہر نکل اندر کی کنڈی لگا دی اور تیز تیز قدموں سے آوارہ کتوں اور بلیوں سے بچتی بچاتی وہ ایک منٹ میں صدیق حلوائی کی دکاں تک پہنچ گئی جہاں ایک ٹمٹماتا چھوٹا سا زرد بلب جل رہا تھا اور صدیق دکان بند کر رہا تھا۔ ساجی نے اسے آتا دیکھ لیا کیونکہ وہ اسی بلب کے نیچے کھڑا تھا۔ ایک ہاتھ میں دو شاپر بیٹھنے کے لئے اور ایک شاپر دوسرے ہاتھ میں جو قدرے وزنی معلوم ہو رہا تھا۔ وہ تیزی سے لپکا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اس قبر نما گلی میں گھس گیا۔ فرزانہ اندھیرے اور بد بو اور سردی سے تھر تھر کانپ رہی تھی مگر ساجی نے اس کو سینے بھینچ لیا اور وہ یوں پگھلنے لگی جیسے گرمی میں دھوپ میں پڑی برف کی سل ہو۔

ساجی نے اس کو زور سے دبا کر چھوڑ دیا اگر نا بھی چھوڑتا تو فرزانہ کو کوئی اعتراض نا ہوتا۔
اس میں کیا ہے
وہ شاپر میں جھانکتے ہوئے بولی
وہاں جلیبیوں اور نمک پاروں ملا جلا چورا تھا جو صدیق نے تھال جھاڑ کر اس کو ڈال دیا تھا۔
فرزانہ کا موڈ ہی خراب ہو گیا کہ وہ نان کباب کیوں نہیں لایا
ساجی اسے گدگداتا اور نامناسب چھوتا رہا اور اسے یقین دلاتا رہا وہ اگلی دفعہ نان کباب اور تلی
مچھی بھی لائے گا۔
اونہہ تلی مچھی لائے گا، پلے نا دھیلہ تے کر دا میلہ میلہ
وہ حقارت سے بولی
اچھا اپنی ماں کو بھیج رشتے کے لئے، ورنہ پچھتائے گا
وہ چورے کا پھنکا مار کر بولی گویا رشتوں کی لائن لگی ہو
مگر میں تو بیروزگار ہوں نا حالانکہ ایک بہت اچھا کاروبار ہے میرے ذہن میں
لیکن تونے تو باہر کے ملک جانا ہے کمانے کے لئے ’
نہیں وہاں تو لاکھوں چاہئیں ایجنٹ کے لئے مگر جو کاروبار میں کرنا چاہتا ہوں نا تو تیس ہزار تک کافی ہے

اس نے فرزانہ کو گھسیٹ قریب کیا اور اس کے ہونٹ چوم لئے، وہ کسمسا گئی تھی مگر ساجی خود بھی کانپ رہا تھا اس کے جسم کی اینٹھن اس کو مارے دی رہی تھی

میں تیرے لئے انتظام کر سکتی ہوں ساجی
وہ اس کے بازو سے لپٹے ہوئے بولی
سونے کی مندری میں تجھے دیدوں گی۔ وہ میری ہے اب لوں یا تب
ساجی بہت ہشیار تھا
مگر تیری ماں نہیں مانے گی
اس کو بتائے گا کون
وہ بے خوفی سے بولی
مگر ساجی تیس ہزار سے اوپر کے سب پیسے میرے اور اگلی بار تو نان کباب اور مچھی لائے گا
وہ ٹھنک کر بولی
فرزانہ تو نے مجھے خرید لیا ہے، میں قسم کھاتا ہوں تجھے رانی بنا کر رکھوں گا

ساجی نے اس کا ہاتھ چوم کر کہا، اس کی آنکھوں کے سامنے تیس ہزار تھے جو مہینوں کی پڑیوں کے لئے کافی تھے اور اوپر کے پیسوں بھی وہی رکھے گا۔ کسی بھی روشنی اور سورج کی گرمی سے محروم گلی میں سردی اور سل تھی اور بدبو کے مارے سانس لینا مشکل ہو رہا تھا مگر وہ دونوں میٹھے نمکین چورے کے پھنکے مارتے ہوئے ایک دوسرے میں مدغم ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔

نہیں ساجی ایسے نہیں، بس تو اپنی ماں کو رشتے کے لئے بھیج دے
وہ اپنے گریبان کو اور سانسوں پر قابو کرتے ہوئے بولی تھی
ہاں پیسے ہاتھ میں آتے ہی میں اپنا کاروبار شروع کر لوں گا، میرا ارادہ نان چنے کا ٹھیلہ لگانے کاہے
ساجی نے ایسے کہا گویا سٹیل مل لگانے چلا ہو پھر وہ اسے گھر کے دروازے تک چھوڑ آیا۔

اگلے دو دن تو فرزانہ کو صندوق کی چابی اڑانے کا موقعہ نا مل سکا تھا کیونکہ چابی اس کی ماں اپنے ازار بند کے ساتھ باندھ کے رکھتی تھی۔ اس دن یونہی فرزانہ باہر گئی اور ساجی جو دکان بیٹھا تھا اس کی طرف دیکھ کر نفی میں سر ہلا کر گھر آ گئی۔ آ کر دیکھا کہ ماں نلکے کے سامنے چارپائی کھڑی کر کے نہا رہی تھی مگر اس کے کپڑے نجانے کیسے نیچے گر گئے تھے۔ فرزانہ بلی کی طرح گئی اور چابی کھول کر مٹھی میں دبا لی اور بھاگ کر اندر گئی وہاں اس کے چھوٹے چھوٹے بہن بھائی آپس میں لڑ لڑ کر مر رہے تھے مگر ان کو کیا پتا تھا کیا ہو رہا ہے۔

فرزانہ نے صندوق کی تہہ سے ایک چھوٹی سی بوسیدہ تھیلی نکا لی اور اسی میں گوہر مقصود تھا۔ اس نے تھیلی کو چادر کے پلو میں باندھ لیا اور ماں کے کپڑے بدستور زمین پر پڑے خاک چاٹ رہے تھے مگر وہ فوراً باہر نکلی اور ساجی کی دکان پر گئی اور سودا لینے کے پہنانے ایک پاؤ گھی، دو انڈے اور چھوٹی ڈبی پتی کی مفت ہی نکلوا لیے اور تھیلی اس کے حوالے کر دی تھی۔ رات ملنے کا پروگرام بنانا چاہا تو ساجی نے کہا کہ آج اس کو اپنے بھائی کو لے کر جو پو لیو کا شکار ہو چکا تھا پہلوان سے مالش کرانے جا نا ہے مگر کل لازمی ملاقات ہوگی اور وہ نان کباب مچھی اور گلاب جامن لے کر آئے گا اور پھر جشن ہو گا اور ہاں میں تین باری ٹین کھڑکاؤں گا تو اس گلی میں آ جانا۔

وہ گھر آئی تو ماں کپڑوں کے لئے چیخ و پکار کر رہی تھی مگر بچے ان کپڑوں کو زمین پر رولتے ہوئے ادھر ادھر گھسیٹ رہے تھے۔ اس نے سب کو طمانچے رسید کیے ، چابی ازار بند کے ساتھ باندھی اور کپڑے جھاڑ کر ماں کو پکڑا دیے جس کا چیخ چیخ کر گلہ بیٹھ چکا تھا مگر آج حسنہ بھی جانے کہاں دفعان ہو گئی تھی لیکن اچھا ہی ہوا تھا، اس کی موجودگی میں یہ کارروائی ناممکن تھی۔ فرزانہ نے ایک بار بھی ماں کے بارے نا سوچا کہ مندری گم جانے سے اس پر کیا گزرے گی۔ گھر میں مو جود واحد سونے کا زیور چوری ہو گیا تھا۔ وہ آئندہ کی سہانی زندگی کے خواب دیکھ رہی تھی جب ساجی کی تمام تر کمائی کی وہ اکیلی مالک ہوگی پھر مندریاں ہی مندریاں۔

ساری رات وہ بے چینی سے کروٹیں بدلتی رہی۔ بہت پہلے اس نے باتوں باتوں میں ماں سے مندری کے وزن کے بارے میں بھی پوچھا تھا تو ماں نے فخر سے کہا کہ بہت وزنی ہے تولے سے زیادہ ہے۔ فرزانہ کو ساجی نے ہی بتایا تھا کہ سونا بہت مہنگا ہے مگر کتنا مہنگا یہ تو وہ خود بھی نہیں جانتا تھا۔

صبح وہ اٹھی تو لگ رہا کسی نے اس کی ہڈیاں توڑ رکھی ہیں۔ ایک بے کلی تھی کہ کب ساجی سے ملاقات ہو گی مگر آج تو وہ سنیارے کے پاس جائے گا اور کیا پتہ سنیارے کے پاس یکمشت اتنی رقم ہوگی بھی نہیں۔ بہرحال وہ اسی ادھیڑ بن وہ کچھ کھا پی بھی نا سکی تو حسنہ نے دونوں انڈے تل کر کھا لئے۔ مگر وہ اپنی ہی ادھیڑ بن میں تھی۔ تین بجے کے لگ بھگ جب عصر کی اذانیں ہو رہیں تھیں تو ٹین پر ہلکی سی تین دفعہ دستک ہوئی اور فرزانہ نے تار پر لٹکی اختر کی چادر لپیٹی اور بجلی کی رفتار سے گلی تک پہنچ گئی مگر اس منحوس گلی میں اندھیرا ہی تھا۔ ساجی اسی تھڑے کے پاس کھڑا تھا

کی بنیا ساجی؟ کتنے کی بکی؟
وہ بے تابی سے ساجی کا کندھا جھنجھوڑ کر بولی

ساجی نے آؤ دیکھا تاؤ ایک زوردار طمانچہ اس کے منہ پر رسید کر دیا اور پھر دوسرا اور تیسرا، غلیظ گلیاں دیتا ہوا ساجی شیطان کا کوئی رشتے دار لگ رہا تھا۔ اس اچانک افتاد پر فرزانہ اپنا دفاع بھی نا کر سکی اور اس کے ناک سے خون نکل رہا تھا۔

میری ماں دے نانکوں نے اسے مندری دی تھی اور اب وہ مندری میری ماں مجھے پائے گی
تیری حرام زادی ماں کیا اتنی بھولی ہے
یہ مندری؟

ساجی نے ایک انگوٹھی جیب سے نکالی، پرانی وضع کی ایک بھدی انگوٹھی تھی جس میں ایک لال رنگ کا نگینہ جڑا تھا۔ اس نے زور سے انگوٹھی نیچے ماری، انگوٹھی نے ایک ٹھپا سا کھایا اور اچھل کر نا لی میں گری اور اس کی غلاظت کی تہوں بیٹھ گئی۔

فرزانہ جو ابھی تک شاک میں تھی، انگوٹھی کو نالی کی غلاظت ڈوبتا دیکھ کر ہوش میں آ گئی۔ اس نے لپک کر ساجی کا گریباں پکڑ لیا

کتے دے پتر کڈ میری مندری
صدمے سے اس کی آواز پھٹ رہی تھی اور اس نے ساجی کا گریبان تار تار کر دیا۔
پراں دفعہ ہو! میری مندری
ساجی نے فرزانہ کو بالوں سے کس کر پکڑ لیا اور دوسرے ہاتھ سے اس کا گلہ دبانے لگا

یہ مندری جعلی ہے سونے کی تو کیا پیتل کی بھی نہیں ہے۔ کسی مصالحے کی بنی ہوئی ہے اور سنہرا پانی پھرا ہے

تکلیف، صدمے اور دہشت سے فرزانہ کی آنکھیں باہر آ رہی تھیں جب ساجی نے ایک جھٹکے سے اس کو چھوڑ دیا اور وہ مندری کی طرح ہی ٹھپا کھا کر گری اور اس کا ماتھا تھڑے کے کونے سے ٹکرا کر پھٹ گیا تھا اور خون ایک فوارے کی طرح بہنے لگا۔

جا دفع ہو منحوس شکل گم کر اپنی اور آئندہ میرے سامنے آئی تو قتل کر دوں گا
وہ تھوک کر بولا اور کانپتا ہوا تھڑے پر بیٹھ گیا اور اپنا سر گھٹنے میں چھپانے لگا
سوچا تھا مندری کے پیسے ہاتھ آئیں گے تو آرام سے پڑیاں پیوں گا مگر ۔

وہ اپنے آپ سے باتیں کرتا پھر اس کی جانب لپکا اور دو تین ٹھڈے مارے اور لڑکھڑاتا ہوا گلی سے باہر نکل گیا۔ فرزانہ دھاڑیں مار مار کر روتی رہی، پتہ نہیں کیوں اسے لگ رہا تھا کہ آج اس کی ماں کا جنازہ اٹھ گیا ہے۔

ہائے میری مندری، ہائے میری ماں, کے الفاظ ٹوٹ ٹوٹ کر اس کی زبان سے نکل رہے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments