شیکھر گپتا کے دعوے اور میری حیرت


ذاتی طورپر میں اس دعوے پر اعتبار کرنے کو ہرگز تیار نہیں ہوں۔ بھارت کا مگر ایک بہت ہی سنجیدہ اور تجربہ کار صحافی ہے۔نام ہے اس کا شیکھر گپتا۔ کئی برس تک اپنے ملک کے ایک معتبر اخبار کا مدیر رہا۔اپنے تجربے سے چند سال قبل اس نے بھانپ لیا کہ ’’اخبار‘‘ نامی شے موت کی جانب بڑھ رہی ہے۔ ’’دی پرنٹ‘‘ کے نام سے ایک ویب سائٹ چلانا شروع ہوگیا۔ اس پلیٹ فارم کے لئے وہ “Cut The Clutter”کے عنوان سے ایک پروگرام بھی چلاتا ہے۔کیمرے کے سامنے اکیلا بیٹھامختلف موضوعات پر تبصرہ آرائی کرتا ہے۔

اس کے چند خیالا ت سے مجھے شدید اختلاف ہے۔اس کے باوجود میں اسے باقاعدگی سے دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں کیونکہ اس کا شو معلومات سے بھرپور ہوتا ہے اور خود کو میسر خبروں پر تبصرہ آرائی کرتے ہوئے وہ سنجیدہ صحافتی انداز اپناتا ہے۔گزشتہ کئی روز سے لیکن قومی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاس ہونے کی وجہ سے میں اس کے شو نہیں دیکھ پارہا تھا۔

بدھ کی شام قومی اسمبلی کی کارروائی کی بابت ’’دی نیشن‘‘ کے لئے پریس گیلری لکھنے کے بعد اسے دفتر بھجوادیا تو خیال آیا کہ سونے سے قبل سوشل میڈیا دیکھ لیا جائے۔ اس خواہش میں یوٹیوب کا رخ کیا تو بدھ کے روز ریکارڈ ہوا “Cut The Clutter”بھی رونما ہوگیا۔اس میں زیر بحث آئے موضوعات میں پاکستان بھی شامل تھا۔میں فی الفور Playکا بٹن دبانے کو مجبور ہوگیا۔

بدھ والے شو کے آغاز ہی میں شیکھر گپتا نے خوش گوار حیرت سے یہ دعویٰ کیا کہ وزیر اعظم عمران خان صاحب کے مشیر برائے قومی سلامتی ڈاکٹر معید یوسف صاحب نے ہمارے لئے جو قومی سلامتی پالیسی تیار کی ہے اس میں اس خواہش کا اظہار بھی ہوا ہے کہ پاکستان کو ’’آئندہ سو برس تک ‘‘ بھارت کیساتھ مخاصمانہ روش کی ضرورت محسوس نہ ہو۔یوسف صاحب کی مبینہ طورپر ’’سوبرس‘‘ والی خواہش کا شیکھرگپتا نے ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے ہوئے اس عہد سے تقابل کیا جو بھارت کے ساتھ ’’ہزار سالہ جنگ‘‘ لڑنے کو آمادہ تھا۔ شیکھرگپتا نے ’’سوبرس‘‘ تک مخاصمانہ نہ رہنے کی مبینہ خواہش کے ذکر کے بعد اس امر پر مزید خوش گوار حیرت کا اظہار بھی کیا کہ ڈاکٹر معید یوسف صاحب کی تیار کردہ ’’قومی سلامتی پالیسی‘‘ آئندہ پانچ برسوں کے دوران بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات بھی (بحال)کرنے کے بعد توانا تربنانا چاہے گی۔شیکھرگپتا کو یہ خواہش بھی حیران کن لگی کیونکہ بقول اس کے ماضی میں پاکستان ہمیشہ بھارت کیساتھ گہرے تجارتی روابط استوار کرنے سے قبل اس امر کا تقاضہ کرتا تھا کہ کشمیر کا مسئلہ حل کیا جائے۔بقول شیکھرگپتا پاکستان اب ماضی والے رویے کو ترک کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے حل جیسی کوئی پیشگی شرائط عائد کئے بغیر بھارت کے ساتھ تجارت کھولنا اور بڑھانا چاہے گا۔

ٹھوس حقائق اور ریاستی پالیسی سازوں تک رسائی کے بغیرمیں دو ٹکے کا ریٹائر ہوا رپورٹر شیکھرگپتا کی خوش گوار نظر آتی حیرتوں پر حیران ہوتا رہا۔پاکستانی اخبارات کا عام قاری ہوتے ہوئے مجھے تو دورِحاضر کے سلطانوں کی رعایا کی طرح فقط اتنا یاد ہے کہ آج سے چند ہی ماہ قبل اقتصادی امور سے متعلق وزراء پر مشتمل کمیٹی نے بھارت کے ساتھ چند مخصوص اشیاء کی درآمد پر آمادگی کا اظہار کیا تھا۔ یہ تجویز مگر جب وفاقی کابینہ کے روبرو پیش ہوئی تو اسے رد کردیا گیا۔ہمیں یہ تاثر بھی دیا گیا کہ بھارت جب تک اگست 2019میں مقبوضہ کشمیر کی بابت لئے یک طرفہ فیصلے کو واپس نہیں لے گا ہم اس کے ساتھ کسی بھی نوع کی تجارت کو آماد ہ نہیں ہوں گے۔میرا نہیں خیال کہ ڈاکٹر معید یوسف وفاقی کابینہ کے مذکورہ فیصلے کو بھلاتے ہوئے آئندہ پانچ برسوں کے دوران بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات بڑھانے کا اپنے تئیں فیصلہ کرسکتے ہیں۔شیکھرگپتا نے بہرحال یہ امید باندھ لی ہے اور اس کا خوش گوار حیرت کے ساتھ گویا خیرمقدم بھی کردیا۔

ڈاکٹر معید یوسف صاحب تک میری کوئی رسائی نہیں۔دو ٹکے کا ریٹائررپورٹر ہوتے ہوئے مجھے یہ خوف بھی لاحق ہے کہ اگر میں نے کسی طرح ان کا فو ن نمبر حاصل کرلیا تو غالباََ وہ میری جانب سے رابطے کے بعد گفتگو کوتیار ہی نہیں ہوں گے۔ان سے ون آن ون انٹرویو کے لئے ہمارے مقبول ترین چینلوں کے سٹار اینکرز بے چین رہتے ہیں۔وہ ان میں سے چند ہی لوگوں کو اپنے سے گفتگو کے قابل سمجھتے ہیں۔صحافی کی ہڈی اگرچہ ڈھیٹ ہونا چاہیے۔جن دنوں متحرک رپورٹر تھا تو میری ہڈی بھی کافی ڈھیٹ ہوا کرتی تھی۔اس کے بعد مگر تحریک انصاف کی سپاہ ٹرول کی جنونی کھوج کی بدولت دریافت ہواکہ میں تو نواز شریف جیسے سیاستدانوں سے لفافے حاصل کرتا رہا ہوں۔اسی باعث عمران حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے چند ہی ہفتے بعد ایک مؤقر ٹی وی چینل نے مجھے اپنے پر ’’مالی بوجھ‘‘ ٹھہراتے ہوئے ذلت آمیز انداز میں فارغ کردیا۔چند ہی دن قبل محترمہ مریم نواز صاحبہ کی ایک آڈیو بھی لیک ہوئی ہے۔اس کے ذریعے کل عالم کو اب یہ علم بھی ہوگیا ہے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف میرے لئے آذربائیجان سے ایک ٹوکری لائے تھے۔میرے کئی مہربان سوشل میڈیا کے ذریعے مجھ سے مسلسل پوچھے جارہے ہیں کہ اس ’’ٹوکری‘‘ میں کیا تھا؟۔

’’لفافوں‘‘ اور ’’ٹوکریوں‘‘ کے مبینہ طورپر عادی ہونے کے باوجود میں بھارتی صحافی شیکھرگپتا کا یہ دعویٰ تسلیم کرنے کو ہرگز تیار نہیں ہوںکہ پاکستان اگست 2019ء میں مودی سرکار کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے خلاف لئے جارحانہ اور یک طریفہ اقدامات کو یکسر بھلاتے ہوئے بھارت کے ساتھ آئندہ پانچ برسوں کے دوران تجارت بڑھانا چاہے گا۔پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے ’’ازلی دشمن‘‘ شمار ہوتے ہیں۔اس دشمنی کو ذہن میں رکھتے ہوئے دورِ حاضر کے بسمارک ہوئے ڈاکٹر معید یوسف صاحب آئندہ ’’سوبرس‘‘ تک دونوں ممالک کے مابین مخاصمت مفقود ہوجانے کے خواب دکھانا نہیں چاہیں گے۔فرض کیا وہ خواہش مند ہوں تب بھی آئندہ پانچ برسوں کی گارنٹی بھی نہیں دے سکتے۔ وہ موجودہ وزیر اعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی ہیں۔ان کے باس کی آئینی مدت 2023ء میں ختم ہوجائے گی۔ اس کے بعد نئے انتخابات ہوں گے۔اللہ کرے ان کی وجہ سے عمران خان صاحب دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہوجائیں اور اپنی دیانت دار قیادت میں پاکستان کو ترقی اور خوشحالی کی جانب بڑھاتے رہیں۔ یہ امکان مگر رد نہیں کیا جاسکتا کہ مبینہ طورپر قیمے والے نان کھانے کے عوض بدعنوان سیاست دانوں کو ووٹ دینے والے ’’جاہل عوام‘‘ کسی اور شخص کے لئے وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہونے کی راہ بنادیں۔2023ء میں اگر ’’تبدیلی‘‘ آگئی تو نیا وزیر اعظم ان دنوں تیارہوئی قومی سلامتی پالیسی کو مکمل طورپر رد کرنے کا اختیار بھی رکھتا ہے۔

1960ء کی دہائی کے آغاز میں ہمارے پہلے دیدہ ور فیلڈ مارشل ایو ب خان نے بھارت کو مشترکہ دفاعی معاہدے کی پیش کش کی تھی۔ بھارت کے جواہر لال نہرو نے حقارت سے اس پیش کش کو رد کردیا تھا۔اس کے نتیجے میں 1965ء والی جنگ ہوئی ۔ حالیہ تاریخ میں ایک اور دیدہ ور جناب پرویز مشرف صاحب نے بھی بھارت کیساتھ دائمی امن کے قیام کے لئے بھارت کے ساتھ طویل خفیہ مذاکرات کئے تھے۔ان دنوں کے وزیر خارجہ جناب خورشید محمود قصوری صاحب نے ایک ضخیم کتاب میں ان مذاکرات کی بدولت تیار ہوئے ممکنہ معاہدات کی تفصیلات بھی بیان کررکھی ہیں۔بیل مگر منڈھے نہیں چڑھ پائی تھی۔مجھ جیسے دو ٹکے کے رپورٹر کو لہٰذا ہرگز سمجھ نہیں آرہی کہ ایوب خان اور جنرل مشرف جیسے دیدہ ور بھارت کے ساتھ جو حاصل کرنے میں ناکام رہے جواں سال ڈاکٹر معید یوسف صاحب وزیر اعظم کے غیر منتخب مشیر ہونے کی حیثیت میں کیسے حاصل کر پائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments