مری میں رتی گلی کا وہ گاؤں جہاں دل اور گھر سیاحوں کے لیے کھلے رہے

فرحت جاوید - بی بی سی اردو، مری


مری
‘سیاحوں کے لیے مسجد اور ہوٹلوں کے دروازے کھلے ہیں، وہ یہاں رہیں اور کھانا کھائیں۔ پیسے نہیں لیے جائیں گے!‘

یہ اعلان مری کی رتی گلی کی چھوٹی سے بستی میں ہو رہا تھا۔

مگر اس سے چند گھنٹے پہلے قریب ہی ایک سڑک پر صورتحال خراب ہو چکی تھی۔ یہاں 10 سے 12 گاڑیاں برفانی طوفان کی زد میں آ گئی تھیں۔

‘ہم برف میں پھنسے ان لوگوں کے پاس گئے اور کہا کہ وہ گاڑی میں بیٹھنے کے بجائے ہمارے ساتھ چلیں اور ہمارے ہوٹل میں مفت قیام کریں۔ لیکن وہ سمجھے کہ ہم کوئی چور ڈاکو ہیں جو اُنھیں دھوکہ دے رہے ہیں۔‘

اور یوں مری میں رتی گلی کے قریب پھنسے سیاحوں نے عمر خطاب عباسی کے گیسٹ ہاؤس جانے کے بجائے رات گاڑی میں گزارنا ہی بہتر سمجھا۔ ان سیاحوں میں راولپنڈی کے رہائشی محمد ارتضیٰ راجہ اور ان کے اہلخانہ بھی شامل تھے۔

عمر خطاب عباسی اپنے دو کزنز کے ہمراہ جمعے اور سنیچر کی درمیانی شب مری میں برفانی طوفان آنے کے بعد سے ہی سڑکوں پر تھے اور وہاں موجود لوگوں کو اپنے گیسٹ ہاؤس میں قیام کی دعوت دے رہے تھے۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ ان کی کسی نے نہیں سنی۔

رتی گلی کے قریب سڑک کا یہ حصہ اس علاقے میں جنگل کے نام سے مشہور ہے۔ یہ کلڈنہ اور باڑیاں کے درمیان دریا گلی کا علاقہ ہے۔ یہاں سڑک کی دونوں جانب گھنے، سایہ دار جنگل ہیں اور یہ مری کے ان مقامات سے ایک ہے جہاں درجہ حرارت کم ترین سطح تک گر جاتا ہے۔

رتی گلی کے قریب اس سڑک کا تقریباً چار کلومیٹر حصہ ہے جہاں عمر خطاب عباسی اور ان کے ساتھی سیاحوں کو منانے کی کوشش کرتے رہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کا گیسٹ ہاؤس اس دن مکمل طور پر بُک تھا اور اُنھیں کسی قسم کی وارننگ کا علم نہیں جو مقامی حکام نے جاری کی ہو۔

مری

‘مجھے فیس بک سے پتا چلا کہ آج رات شدید برفانی طوفان آئے گا۔ میرے گیسٹ ہاؤس میں کچھ لوگوں نے اس شب اور اگلے دن کی بکنگ کروائی تھی۔ میں نے ان سے رابطے کیے اور اُنھیں بتایا کہ وہ نہ آئیں کیونکہ صورتحال خراب ہو سکتی ہے۔ جو قریب تھے اُنھیں بتایا کہ وہ جلد پہنچ جائیں۔ جب شام کو طوفان آیا تو یہ بہت شدید تھا۔

’برف تو پڑتی رہتی ہے مگر یہ قیامت خیز طوفان تھا۔ یہاں درختوں کی لکڑی کچی ہوتی ہے اور برف اور بارش کی وجہ سے درخت اکثر جڑوں سے اکھڑ جاتے ہیں۔ سیاحوں کو یہ باتیں نہیں پتا مگر ہم تو مقامی لوگ ہیں۔ جب رات 12 بجے کے قریب ہمیں اندازہ ہوا کہ سڑک بند ہے تو میں اپنے کزنز کے ہمراہ جنگل کی جانب چلا گیا کہ کہیں کوئی گاڑی پھنسی ہوئی نہ ہو۔‘

عمر خطاب عباسی کہتے ہیں کہ جب وہ وہاں پہنچے تو 10 گاڑیاں برف میں پھنسی ہوئی تھیں۔ ان میں فیمیلز موجود تھیں۔ ’اُنھیں اب بھی امید تھی کہ ان کی مدد کو کوئی آئے گا اور ہم اُنھیں سمجھا رہے تھے کہ یہ خطرناک علاقہ ہے اور سڑکیں بند ہو گئی ہیں۔ ان 10 گاڑیوں سے آگے ہم نے دیکھا تو برف سے ڈھکا روڈ خالی نظر آیا۔ ہم سمجھے کہ بس یہی گاڑیاں ہیں جو پھنس گئی ہیں اور آگے کوئی اور گاڑی نہیں ہو گی۔ مگر ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ چند کلومیٹر پر ہی سینکڑوں گاڑیاں برف میں دھنسی ہوئی ہیں۔ اسی علاقے میں اموات ہوئیں۔‘

بی بی سی نے رتی گلی میں پھنسی ان 10 گاڑیوں میں سے ایک میں سوار محمد ارتضیٰ راجہ سے بھی رابطہ کیا۔ اُنھوں نے تصدیق کی کہ عمر خطاب عباسی اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ان کی اور وہاں موجود دیگر خاندانوں کی مدد کے لیے آئے مگر ان پر کسی نے اعتبار نہیں کیا۔

’اُنھوں نے ہمیں مفت کھانے اور رہائش کی پیشکش کی مگر ہمیں شک ہوا کہ کوئی اتنی بڑی پیشکش کیسے کر سکتا ہے۔ وہ پہاڑی علاقے کی سنسان رات تھی اور ہر طرف سناٹا تھا۔‘

مری

عمر خطاب عباسی اپنے دو کزنز کے ہمراہ جمعہ اور سنیچر کی درمیانی شب مری میں برفانی طوفان آنے کے بعد سے ہی سڑکوں پر تھے اور وہاں موجود لوگوں کو اپنے گیسٹ ہاوس میں قیام کی دعوت دے رہے تھے۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ ان کی کسی نے نہیں سنی۔

‘یہ مقامی لوگ وقفے وقفے سے ہمارے پاس آتے رہے مگر ہم ان پر اعتبار نہیں کر رہے تھے۔ اگر ان کے ساتھ کوئی سرکاری اہلکار ہوتا تو ہم ان کے ساتھ چلے جاتے اور اس خواری سے بچ جاتے جو ہم نے اس قیامت خیز رات میں کاٹی۔‘

یہ پیشکش ٹھکرانے کے بعد ارتضیٰ اور ان کی اہلیہ نے اپنی گاڑی میں موجود ایک چھوٹا ایل پی جی سلینڈر نکالا اور سردی سے بچنے کے لیے گاڑی میں ہی اسے آگ لگا دی۔

یہ ایک خطرناک عمل تھا مگر وہ کہتے ہیں کہ ان کے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ بی بی سی کے پاس موجود ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ان کی گاڑی کی ونڈ سکرین اور دروازوں کی کھڑکیاں برف سے ڈھکی ہوئی ہیں اور درجہ حرارت نقطہ انجماد سے گر چکا ہے۔

عمر خطاب عباسی کہتے ہیں کہ صبح ہوئی تو اس مقام پر پھنسے تمام افراد ان کی آبادی کی جانب آ گئے اور ‘یہاں لوگوں نے ان سب کے لیے اپنے دل اور گھر کے دروازے کھول دیے۔ ہم نے ان سے کوئی کرایہ طلب کیا نہ ہی کسی شے کی قیمت وصول کی۔ میرے گیسٹ ہاؤس کے کمرے بک تھے اس لیے ہم نے اُنھیں ہالز میں ٹھہرایا، اپنے اور اپنے رشتہ داروں کے گھروں میں ان کے لیے انتظام کیا۔‘

ادھر ارتضیٰ راجہ کے مطابق اُنھیں صبح پتا چلا کہ رتی گلی میں اعلان کیا گیا ہے کہ سیاح مسجد اور ہوٹلوں میں قیام کر سکتے ہیں۔

‘ان لوگوں نے اعلان کیا کہ سیاحوں کے لیے اشیا کی قیمتیں آدھی کر دی جائیں۔ وہ چائے پراٹھا جو عام حالات میں یہاں 50 روپے کا تھا، ہم سب کے لیے 25 روپے کا کر دیا گیا۔ گیسٹ ہاؤس والوں نے ہم سے کرایہ نہیں لیا اور جو لوگ وہاں موجود تھے اور اب واپس نہیں جا سکتے تھے ان سے اضافی پیسے نہیں لیے گئے۔ میرے پاس الفاظ نہیں ہیں کہ آج بھی اتنے اچھے لوگ موجود ہیں۔ ان کے کمرے مکمل طور پر بک تھے۔ گیسٹ ہاؤس کے مالک نے آ کر کہا کہ ہر طریقے سے لوگوں کو سہولت دیں۔ میرے پاس کیش ختم ہو گیا تو میں ان کے اکاؤنٹ میں پیسے بھیجے تو اُنھوں نے مجھے وہ کیش دیا۔‘

https://www.youtube.com/watch?v=YOtCyyWZ8cI

اس علاقے میں 95 افراد کو پناہ دی گئی۔ یہاں کی جامع مسجد میں بھی کئی خاندان موجود تھے۔ بی بی سی کی ٹیم نے اتوار کے روز بھی دو ہوٹل مالکان سے ملاقات کی جنھوں نے یہیں اپنے ہوٹل اور گھروں میں کئی خاندانوں کو پناہ دے رکھی تھی۔

ارتضیٰ راجہ کہتے ہیں کہ اُنھوں نے اپنی اہلیہ کو گیسٹ ہاؤس میں چھوڑا اور خود ریسکیو کی کارروائیوں میں بھی حصہ لیا۔

اب یہاں سڑکیں برف سے صاف کر دی گئی ہیں مگر سیاحوں کی آمد پر پابندی کے باعث گیسٹ ہاؤسز اور دکانوں کا کاروبار رک گیا ہے۔

ایک طرف مقامی افراد کو انتظامیہ سے شکایت ہے جنھوں نے بروقت حفاظتی اقدامات نہیں کیے تو دوسری جانب وہ سوشل میڈیا پر چلنے والے ان ٹرینڈز سے بھی نالاں ہیں جن میں مری کے مقامی افراد کے خلاف مہم چلائی جا رہی ہے۔

خیال رہے کہ مری کے حوالے سے کئی سیاحوں نے حالیہ دنوں میں بتایا ہے کہ اُن سے ہوٹل مالکان نے ان کمروں کا کرایہ 20 سے 50 ہزار روپے کر دیا جو برفانی طوفان سے قبل ڈھائی ہزار سے پانچ ہزار میں مل جاتا تھا۔

متعدد سیاحوں نے یہ الزام بھی لگایا ہے کہ کھانے پینے کی اشیا انتہائی مہنگے داموں بیچی گئیں جبکہ برف میں پھنسی گاڑیوں کو دھکا لگانے کے لیے بھی پانچ ہزار یا اس سے بھی زائد رقم طلب کی گئی۔

سیاحوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے کے الزامات سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا پر ‘بائیکاٹ مری‘ کے ٹرینڈ نظر آئے۔ بعض افراد نے رسیدیں شیئر کیں اور ان ہوٹلوں کی نشاندہی بھی کی جنھوں نے کرائے بڑھائے۔

عمر خطاب سمجھتے ہیں کہ چند لوگوں کے رویے کی سزا تمام مقامی افراد کو مل رہی ہے۔

‘میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ اس گاؤں کے وہ غریب لوگ جن کے اپنے گھر میں دو وقت کی روٹی مشکل سے بنتی ہے، برف میں پھنسے لوگوں کی مدد کر رہے تھے۔ انتہائی غریب لوگ بھی گھر میں رکھی مرغیوں کے انڈے ابال کر مفت ان سیاحوں کو دینے آئے۔ ہر کسی نے اپنی استطاعت کے مطابق مدد کی۔‘

‘دوسری طرف ہم ہمارے پاس آنے والے سیاحوں کے رویے سے بھی متاثر ہوئے۔ سیاحوں نے تعاون کیا، ہم نے خواتین کو الگ کمروں اور مردوں کو الگ کمروں میں رکھا۔ ایک ایک بیڈ پر چار چار لوگ سوئے۔ جنھیں ایک پلیٹ کھانے کی بھوک تھی اُنھوں نے آدھی پلیٹ کھائی تاکہ سب میں کھانا پورا ہو اور میزبان پر بوجھ بھی نہ پڑے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32541 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments