“ہیرا منڈی” اور پیاسی آتماٸیں


سرما کی برفیلی رت میں ایک ادب پسند قاری کو کلاڈین لی ٹرنر کے ناول ”ہیرا منڈی“ پڑھنے سے جو لطف ملتا ہے وہ شاید کسی اور مادی سہولت کے ملنے سے نہ مل سکے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ صفدر سحر نے اس ناول کا اردو ترجمہ کر کے خواص کے ساتھ ساتھ عوام کے لیے بھی ذہنی تفریح کا سامان فراہم کیا ہے۔ اس ناول کے مرکزی کردار شاہنواز، نسیم اور لیلا ہیں۔ متوازی کردار جعفر، آصف صدیقی اور عائشہ ہیں۔ ناول کا خام مواد، تقسیم کے دوران میں شاہی قلعے کے گردونواح میں بسنے والا وہ عام معاشرہ ہے جو بہ ذات خود خواص کے لیے خام مواد کی حیثیت رکھتا ہے۔ ناول کو تحریک ان جذبات سے ملی ہے جو پاکستان کی تخلیق میں ممد و معاون رہے۔ لی ٹرنر نے واضح کیا ہے کہ جنسی گھٹن نقطہ ابلاؤ پر پہنچنے کے بعد مذہب، سیاست اور ادب میں کس طرح تحلیل ہوتی ہے، اور پھر اس معجون کا ایک صحت مند معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

ناول پڑھنا ایک مثبت سرگرمی ہے، جب کہ اس ناول کے پڑھنے کے لیے بڑا دل گردہ چاہیے۔ ناول پڑھنے کے دوران میں بعض اوقات قاری کو مدار سے ہٹنے کا گمان ہوتا ہے، اور بعض اوقات ناول نگار کی نیت پر سازشی ہونے کا شک گزرتا ہے۔ مگر جوں ہی ان عوارض سے فرار کا موقع ملتا ہے، تو ناول سے پیار ہونے لگتا ہے۔

ایک طہارت پسند قاری کے لیے طوائف، کھوٹا، گلابی پردے، نتھ اترائی، نامانوس آہیں، ہیرا منڈی، شاہی محلہ اور بازار حسن جیسے الفاظ پر اعتراض کے ساتھ ساتھ مخفی سی گدگدی بھی ہو سکتی ہے، مگر یہ ناول اس سے دو قدم اور بھی آگے ہے۔ تقسیم کے دوران میں نسیم (ہیرا منڈی کی شہرۂ آفاق طوائف) کا کاروبار کئی بار متزلزل رہا مگر جعفر نے ہر معاشی بحران اور کساد بازاری میں اپنی محبت کا خوب بھرم رکھا۔ ناول تصدیق کرتا ہے کہ موروثیت صرف سیاسی، مذہبی اور دیگر کاروباری امور میں منفعت بخش نہیں، بل کہ طوائفیت کا انحصار بھی اسی نظام پر ہے۔ یوں جعفر نے لیلا سے بھی خوب نبھائی کی۔

برصغیر میں طوائفیت کی آبیاری مغلوں نے سج دھج سے کی تھی۔ اگرچہ مغل گئے، مگر مغلانہ روش کی مہک شاہی محلات میں اب تلک محو رقصاں رہی ہے۔ طوائفوں تک جب تلک صرف شہزادوں کی پہنچ تھی، تب تک پیشہ ور اور پیشہ دونوں محفوظ تھے۔ مگر جب طوائفوں سے امراء، سیاست دان، بزنس مین، سفید پوش، اشرافیہ اور خواص کی تاک جھانک ہوئی تو۔

نہ تو تو رہا نہ تو میں رہا، جو رہی سو بے خبری رہی

ہندو۔ مسلم فسادات نے نسیم کے کاروبار کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا تھا۔ اب نسیم اچھی طرح سمجھ گئی تھی کہ اگرچہ ایک اسلامی ملک وجود میں آیا ہے، ساڑھی پہننے پر پابندی عائد ہو چکی ہے، ختنے کو ٹریڈ مارک قرار دیا گیا ہے، برقعہ اوڑھنا لازمی تصور کیا گیا ہے، اور قتل عام کو نجات کا ذریعہ ٹھہرایا گیا ہے ; مگر پھر بھی ہیرا منڈی کے طلب گار موجود ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے پولیس اور سیاست دانوں کی مداخلت نہیں ہوا کرتی تھی، سب کچھ بلا خوف و خطر جاری و ساری تھا; مگر اب معمولی راز کے انکشاف پر تیزاب گردی، قید و بند کی صعوبتیں اور حتیٰ کہ کاروکاری اور غیرت کے نام پر قتل کے واقعات بھی رونما ہونے لگے ہیں، جس سے صرف ایک عورت متاثر ہوتی ہے۔

ناول نگار نے پاکستان کی تخلیق سے زیادہ اس کی تخلیقی محرکات کا گہرا مشاہدہ کیا ہے کہ مذہب، سیاست اور معاشرہ کس طرح ایک دوسرے پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ یعنی کہ ایک معاشرے میں نسیم، شاہنواز، لیلا اور آصف صدیقی جیسے کردار کس طرح جنم لیتے ہیں؟ شاہنواز کو نشے کی لت کیوں پڑ جاتی ہے؟ ناول نگار یہ معلوم کرنا چاہتا ہے کہ شاہنواز نشہ چھوڑ کر مذہب اپنانے پر فوقیت کیوں دیتا ہے؟ یہ جاننا اہم نہیں کہ شاہنواز کو جیل کی ہوا کیوں کھانی پڑی، یہ سمجھنا ضروری ہے کہ جیل سے رہا ہونے کے بعد وہ کیا سے کیا بنا؟ شاہنواز نے کیوں اور کس کی تصاویر بنائیں، یہ اتنا دل چسپ نہیں جتنی مہیب وہ کھتا ہے کہ ان تصاویر کی نمایش کا نتیجہ کیا نکلا؟ ناول نگار متجسس ہے کہ ثنا اور ثریا کے ہوتے ہوئے شاہنواز کیوں لیلا کا سوگ منا رہا ہے، اور نسیم کیوں اس بات پر تلی تھی کہ شاہنواز کی شادی صرف اور صرف ثنا سے ہو؟

ناول میں گلشن کا کاروبار چلنے کے گر بتائے گئے ہیں۔ گلشن کے کاروبار کے لیے بھٹو اور بینظیر دور کو سازگار، جب کہ ضیاء دور کو پرخطر پیش کیا گیا ہے۔ آصف صدیقی کے رخ میں سیاسی شعبدہ بازی کے کمالات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ”کنڈا“ کو آگ لگانے کی صورت میں آرٹ کی وطن عزیز سے اڑان کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ ناول میں بتایا گیا ہے کہ نئے ملک کے بننے سے کچھ بھی نہیں بدلا، اگر بدلا ہے تو بہت کچھ کرنے کے صرف طور طریقے بدل گئے ہیں۔ ہیرا منڈی نہ سہی، شریف زادیوں کی محفلیں اب بھی شباب پر ہیں۔ نسیم، لیلا، جعفر، شاہنواز، محمود صاحب، عائشہ اور آصف صدیقی نہ سہی، ان سے ملتی جلتی پیاسی آتمائیں اب بھی موجود ہیں۔ تقسیم کے دوران میں ہونے والے فسادات نہ سہی، آزادی کے بعد ہونے والے فسادات اب بھی عروج پر ہیں۔

مجموعی طور پر ناول کو اپنی ذمے داری پر پڑھیں۔ ناول کے پلاٹ اور مواد سے اتفاق یا اختلاف صرف ایک سلیم العقل شخص ہی کر سکتا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق 50 ملین آبادی، یعنی 25 فی صد پاکستانی دماغی عارضے میں مبتلا ہیں۔ البتہ ناول ”ہیرا منڈی“ کو ضرور پڑھیں۔ اور فائدہ ہو نہ ہو، حد سے حد متجسس ضرور بنیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments