آر او پلانٹ کیا ہے اور یہ کیوں غیر قانونی ہے؟


”کراچی“ پاکستان کا وہ شہر ہے جو ملک بھر کے زیادہ تر آبادی کی معاشی پیاس کو بجھاتا ہی لیکن وہ ہی کراچی پینے کے صاف پانی کے لیے ترس رہا ہے۔ شہر قائد کی آبادی قریبا ڈھائی کروڑ سے زائد ہے لیکن پینے کا پانی صرف واٹر بورڈ کی جانب سے مہٰیا کیا جاتا ہے سہولیات کا فقدان اور عملے کی جانب سے غیر سنجیدگی کے باعث کراچی کے بیشتر علاقے صاف اور پانی سے محروم ہیں۔ مجبوراً پانی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے بورنگ کو عمل میں لایا جاتا ہے تاکہ زیرزمین ملنے والے پانی سے ضروریات زندگی پوری کرسکے اور اب تو کئی سالوں سے آر او پلانٹ کے ذریعے ملنے والا پانی ہی پینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

لیکن آخر یہ آر او پلانٹ ہے کیا؟

آر او یعنی ریورس اوسموسس پلانٹ جو کہ ایک مینوفیکچرنگ پلانٹ ہے جہاں ریورس اوسموسس کا عمل ہوتا ہے۔ ریورس اوسموسس میں آلودہ پانی کو صاف کر کے اضافی کیمیکل شامل کیے جاتے ہیں تاکہ اس کی نمکیات کو ختم کر کے میٹھا بنایا جا سکے۔ اب سوال یہ بنتا ہے کا یہ آر او پلانٹ کا پانی پینے کے قابل ہے یا نہیں اس سے کوئی بیماری یا تندرستی ملی ہے نہیں! اس حوالے سے تحقیق کے لیے ہم نے بات کی ماہر ماحولیات توفیق پاشا صاحب سے اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ انسانی جسم کے لیے صاف اور شفاف پانی ایک بنیادی ضرورت ہے اور جس پانی میں نمکیات ہوتی ہے وہ پانی انسانی صحت کے لیے مضر ہے آر او پلانٹ کے ذریعے پانی سے نمکیات کو کرتا ہے اور ساتھ ہی اس میں سے قدرتی منرلز کا بھی خاتمہ کر دیتا ہے اس ہی لیے آر او پلانٹ کا پانی بھی صحت کے لیے مضر ہے، منرل واٹر بھی آر او کے پروسیس کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے یہ بھی ڈیسٹل واٹر کی طرح دکھائی تو دیتا ہے لیکن ہوتا نہیں، ہمیں اس پانی کی ضرورت ہے جس میں ہیلتھی مکسچر آف منرلز ہوتے ہیں اور یہ منرل قدرتی پانی میں موجود ہوتے ہیں جو کہ صحت بخش زندگی کی اہم زندگی کی ضرورت ہے اگر ایک عام مثال لی جو جائے تو کہا جاتا ہے بارش کا پانی عام طور سے طاقتور مانا جاتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ بارش کے پانی سے نائٹروجن ختم ہوجاتی ہے اور یہ قدرتی صاف اور شفاف پانی ہوتا ہے اس لیے کہا جاتا ہے قدرتی پانی ہی صحت کے لیے بہتر ہے اور نمکین پانی جس طرح مضر ہے اس ہی طرح آر او پلانٹ سے حاصل کیے جانے والا بھی مضر ہے۔

لیکن اب سوال یہ بنتا ہے کہ کیا آر او پلانٹ غیرقانونی ہے؟ یہ جاننے کہ لیے ہم نے رابطہ کیا ڈاکٹر حسن عباس سے جو کہ نامور واٹر ایکسپرٹ میں سے ایک ہیں ڈاکٹر حسن عباس کا کہنا ہے کہ پانی کی قلت کے باعث آر او پلانٹ کی اب ایک کثیر تعداد دیکھنے کو ملتی ہے اور حکومت کی جانب سے اس کے لائسنس ایشو کیا جاتا ہے اس ہی لیے آر او پلانٹ غیر قانونی نہیں ہے لیکن اس کے لیے کچھ قانون اور ضوابط لاگو ہوتے ہیں جیسے آر او پلانٹ کس جگہ لگایا جائے، رجسٹریشن ہے یا نہیں، اس کی کوالٹی کیسی ہے، آخری اور سب سے اہم قانون کہ اس کا ڈسپوزل کہاں پھیکا جائے کیونکہ ڈسپوزل کی وجہ سے ہی زیر زمین پانی کی آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے اور آر او میں جو پانی پروسس کیا جاتا ہے وہ پانی بھی زیر زمین سے حاصل کیا جاتا ہے اگر ایک آر او پلانٹ دوسرے آراو پلانٹ سے نزدیک ہے تو زیر زمین پانی کی آلودگی میں اضافے کا امکان زیادہ ہے صرف پاکستان یا ایشیائی ملک نہیں بلکہ کئی امیر ممالک ایسے ہیں جو سمندر کے پانی سے صاف نمکیات کو ختم کر کے استعمال کرتے ہیں جس میں اسرائیل اور آسٹریلیا شامل ہیں لیکن پاکستان وہ ملک ہے جو قدرتی ذخائر سے مالامال ہے اس ہی طرح پاکستان کے قدرتی دریا بھی موجود ہیں جس صاف پانی باآسانی حاصل کیا جاسکتا ہے اگر دریائے سندھ کی بات کی جائے تو دریائے سندھ وہ دریا ہے جس کا شمار جنوبی ایشیا کے بڑے دریا میں کیا جاتا ہے دریائے سے ہر سال 145 ملین ایکڑ فٹ (ایم اے ایف) پانی حاصل کیا جاتا ہے ڈاکٹر حسن عباس کے مطابق پاکستان کو سالانہ دس سے پندرہ ملین ایکڑ فٹ پانی کی ضرورت پڑتی ہے، یعنی اگر صرف دریائے سندھ کے پانی کو ہی بہتر طریقے سے آبادی تک پہنچایا جائے تو پاکستان میں کہیں بھی پانی کی قلت نہیں ہوگی اور آر او پلانٹ سے پانی حاصل کرنے کی ضرورت بھی ختم ہو جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments