جنوبی وزیرستان، نیا ضلع، پرانے ضلع کے دفاتر کی منتقلی اور چیلنجز


گزشتہ ایک دو دنوں سے سن رہے ہیں کہ جنوبی وزیرستان کے ضلعی دفاتر مرحلہ وار طور پر وانہ منتقل کئیے جانے کا نوٹیفیکیشن کورکمانڈر خیبر پختون خوا، گورنر و وزیراعلی خیبر پختون خوا نے جاری کر دیا ہے۔ عدالتوں کی منتقلی سے شروع ہونے والا جوڈیشری اور سول انتظامیہ کا چوہے بلی کا کھیل بالآخر کورکمانڈر کے احکامات کے بعد ختم ہوا۔ عدالتوں کے لئے وانہ میں 80 کنال زمین لی جا چکی ہے۔ اربوں روپے دفاتر کی منتقلی کے لئے مختص ہوچکے ہیں جو سول و عسکری انتظامیہ نے دو تین سال میں لگانے ہیں۔

دوسرے سول دفاتر وغیرہ کا وانہ کیمپ کے اندر چونکہ ایف سی ہے تو ان کے لئے بشمول زراعت بازار کے آس پاس و دوسری سرکاری اراضی دی اور لی جا چکی ہے۔ کہنے کا مطلب ہے کہ جنوبی وزیرستان کے ہیڈکوارٹر کے طور پر وانہ میں تمام انتظامات مکمل کرلئے جا چکے ہیں۔ اور اگلے دو ماہ کے اندر اندر انتظامیہ جو پہلے سیکیورٹی مسائل کے بہانے بناتے رہی اب وہاں جانے پر رضامند ہو چکی ہے۔

لیکن یہی انتظامیہ اب محسود قوم کے کچھ ملکان و مشران کے ذریعے عوام کو خفیہ پیغامات بھی بھیج رہی ہے کہ اگر ایسا ہوتا ہے اور دفاتر وانہ منتقل ہو جاتے ہیں تو محسود قوم وزیر قوم کی غلام بن جائے گی، کل کو تھوڑا مسئلہ ہو گا۔ محسود قوم کے وانہ داخلے پر پابندیاں ہوں گی۔ وغیرہ وغیرہ۔ جو کہ پابندیوں کی حد تک تو ٹھیک کیونکہ ماضی قریب میں یہ سب کچھ ہوتا آیا ہے۔ اور دونوں قبائل ایک دوسرے کے علاقوں میں انٹری پر پابندیاں لگاتے رہے ہیں۔

آپریشن راہ نجات کے دوران محسود قوم کے افراد کو گاڑیوں سے اتارا جاتا، ان کو وانہ نہ جانے دیا جاتا رہا ہے۔ مہینہ پہلے دونوں قبائل ایک دوسرے کی گاڑیاں روکتے رہے ہیں، انٹری پر منع کرتے رہے ہیں۔ اور قبضے میں لیتے رہے ہیں جس کے دوران ایک بندے کی ہلاکت بھی ہوئی۔ دوسرا دوتانی آج بھی وانہ نہیں جا سکتے، وزیر اقوام کے افراد توئی خولہ نہیں جا سکتے۔ وانہ اور توئی خولہ میں آرمز ایکٹ چونکہ نافذ العمل نہیں اس لئے وہاں کے عوام کھلے عام اسلحہ بھی رکھتے ہیں، ہر جگہ لاتے لے جاتے ہیں۔ جبکہ محسود علاقوں میں آرمز ایکٹ کے تحت کوئی ایسا نہیں کر سکتا ہے۔

کچھ ذمہ داروں سے بات کرنے پر پتہ چلا کہ وزیراعظم عمران خان کے اعلان کے مطابق محسود قبیلے کے لئے الگ ضلع بنایا جائے گا اور بلدیاتی انتخابات کے بعد اس پر عمل شروع کر دیا جائے گا۔ لیکن وزیر قوم بیٹنی قوم کے ساتھ پہلے ان کے سرحدوں کا تعین ہو گا جو کہ کئی برس لے سکتا ہے۔ دوسرا جہاں محسود قوم نے مشترکہ زمین سپینکئی راغزئی میں دی ہے اس زمین پر بیٹنی قوم کا دعوی ہے جو کہ ایک حقیقت ہے۔ امریکی و برطانوی طرز پر قبضے اور پھیلاؤ کی پالیسیز میں محسود اور وزیر اقوام نے چھوٹے قبیلوں کو ہمیشہ دیوار سے لگایا ہے۔

محسود قبیلے کا یہی سٹانس رہا ہے کہ چونکہ وہ ضلعے میں رقبے و آبادی کے لحاظ سے ساٹھ ستر فیصد حصے و آبادی پر مشتمل ہیں جو 2017 کی مردم شماری کے بعد آبادی میں 56 % رہ گئے ہیں، ان کے ساتھ مردم شماری سے لے کر حلقہ بندیوں تک بہت زیادتیاں ہوئی ہیں۔ ستر فیصد قبیلے کے گھر بازار منہدم ہیں۔ آبادکاری کا سلسلہ جاری ہے، اس لئے انتظامیہ کے ساتھ زیادہ تعلق محسود قبیلے کا رہا ہے اور آپریشن کے بعد انتظامیہ پر قبیلے کا دار و مدار بہت زیادہ ہے، تو پرانی انتظامیہ و دفاتر محسود علاقوں میں رہیں تاکہ قبیلے کی مشکلات بڑھنے کے بجائے کم ہوں، وزیر قبیلے کو نئی انتظامیہ و دفاتر دیے جائیں جس پر ان کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا، اور منتقلی سے پہلے ضلع کی سرحد بندی ہو اور تمام متنازعہ علاقوں کے فیصلے ہوں۔ جو کہ ایک اچھا اقدام ہے اور مستقبل میں اس سے تنازعات سے بچا جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments