15 جنوری: شاعر اہل بیت سید محسن نقوی کی برسی


جام پور کے رہائشی اسلم عزیز درانی لکھتے ہیں کہ ”1965ء میں گورنمنٹ کالج ڈیرہ غازی خان کی بزم ادب کا میں جنرل سیکرٹری تھا اور اس بزم کے صدر محسن نقوی تھے۔ ایک دن کالج کی کینٹین پر چائے پی رہے تھے کہ ہم نے کالج کی بزم ادب کی طرف سے سرائیکی مشاعرہ کرانے کا پروگرام بنایا میں نے محسن سے پوچھا کہ اس مشاعرے کا مہمان خصوصی کون ہو گا؟ تو محسن نے فوراً جواب دیا کہ“ بھئی سائل ؔ صاحب سے زیادہ اس کا حقدار کون ہو سکتا ہے ”۔

محسن نے یہ نام اس قدر عقیدت اور احترام سے لیا کہ میں سائل ؔ کے نام سے مرعوب ہو گیا اس پر میں نے محسن نقوی سے کہا کہ جب بھی سائل صاحب کو دعوت دینے جاؤ تو مجھے بھی ساتھ لے چلنا میں ان سے ملنا چاہتا ہوں تو اس پر محسن نقوی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ ابھی ملاقات کرا دیتا ہوں اور میرا ہاتھ پکڑ کر چل پڑا ہم کالج کے ایک گراؤنڈ میں باغیچے میں گئے تو وہاں پر ایک سفید ریش بزرگ جو کہ کالج کے مالی تھے پودوں کی گوڈی کر رہے تھے میں حیران ہوکے ان کی طرف دیکھنے لگا اور سوچنے لگا کہ میں نے سائل صاحب سے ملنا تھا مگر یہ محسن مجھے کہاں لے آیا۔

اس دوران محسن نے میری طرف دیکھا اور پوچھا ان کو پہچانتے ہو تو میں نے جواب دیا کہ یہ بابا نور محمد ہیں اور کالج کے مالی ہیں تو محسن نے مسکراتے ہوئے کہا کہ یہی تو نور محمد سائل ؔ صاحب ہیں اس دوران بابا نور محمد کی نظر محسن پر پڑی تو انہوں نے کام چھوڑ کر کہا“ آؤ آؤ شاہ صاحب ”۔ محسن آگے بڑھا اور انتہائی محبت، عقیدت اور احترام سے سائل صاحب کے گلے لگ گیا۔ اور وہ دونوں باتیں کرنے لگے“ یہ تھا وہ محسن نقوی جس کی عقیدت اور محبت بتا رہی تھی کہ نور محمد سائل ؔسرائیکی کے کتنے عظیم شاعر ہیں اور محسن کی محبت اور عقیدت سے بھی اندازہ ہو رہا تھا کہ محسن نے مستقبل میں کتنا بڑا شاعر بننا ہے۔

سید محسن نقوی کو اگر وطن عزیز کے ادبی حلقوں میں ڈیرہ غازی خان کی پہچان اور شناخت کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ محسن محض ایک شاعر نہیں بلکہ ایک طاقتور و توانا آواز ہے ایک ایسی آواز جس نے مظلوموں کی حمایت میں ظالموں کو سرعام اور ہر سطح پر للکارا۔ ببانگ دہل ظلم و جبر کے خلاف لکھا۔ محسن نقوی کا شعری سفر ایک شعوری انداز میں منزل کی طرف گامزن رہا۔ بند قبا سے لے کر فرات فکر تک کے فکری سفر میں محسن نے زندگی کو بہت قریب سے پرکھا، دیکھا اور باریک بینی سے مشاہدہ کیا اور اپنے اس تجربے کو شاعری کے ذریعے لوگوں تک پہنچایا۔

ایک انٹرویو میں اپنی پیدائش سے متعلق سید محسن نقوی کچھ یوں بیان کرتے ہیں ”ڈیرہ غازی خان کی پسماندہ سرزمین، چھوٹا سا شہر، شہر کا ایک چھوٹا سا بلاک یا محلہ جسے بلاک نمبر 45 یا محلہ سادات کہتے ہیں اس محلے کی ایک چھوٹی سی گلی اور اس گلی میں ایک نیم تاریک مکان جہاں 5 مئی 1947 کی صبح کی پہلی کرن کے ساتھ دنیا کے بے شمار جانداروں میں ایک اور معمولی سی جان کا اضافہ ہوا۔ چھوٹا سا گھر تھا حسب روایت خوشی منائی گئی دو چار لمحوں کی، مبارک باد اور پھر سناٹا۔ بچے کا نام گھر والوں نے غلام عباس رکھا جو آٹھویں جماعت پاس کرتے ہی غلام عباس محسن نقوی بن گیا۔

محسن نقوی نے پرائمری تعلیم اپنے محلے کے ساتھ ہی ایک پرائمری سکول نمبر 6 میں حاصل کی، میٹرک ڈیرہ غازی خان گورنمنٹ ہائی سکول نمبر 1 سے فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ ایف اے اور بی اے گورنمنٹ کالج ڈیرہ غازی خان سے کیا اور ایم اے گورنمنٹ کالج بوس روڈ ملتان سے 1970 میں پاس کیا۔ اس عرصہ میں ایوب خان کی آمریت کے خلاف نظم لکھنے کے جرم میں مقدمات میں ملوث بھی ہوئے۔ ڈیرہ غازی خان کے کالج کے مجلہ ”الغازی“ کے دو مرتبہ مدیر بھی رہے۔ ملتان میں ایم اے کے دوران ملتان کالج کے رسالہ نخلستان کے ایڈیٹر بھی رہے۔ امروز ملتان میں مسعود اشعر کے زمانے میں کام بھی کیا۔ محسن ان کا تخلص تھا جبکہ لفظ نقوی کو وہ تخلص کے ساتھ استعمال کرتے تھے۔ تاہم ادب کی دنیا میں انہوں نے محسن نقوی کے نام سے شہرت پائی اور یہی نام زبان زد عام ہوا۔

پہلا شعر آٹھویں جماعت میں کہا۔ شاعری کی طرف رجحان سے متعلق ایک بار محسن نقوی نے جواب دیا کہ ”طبیعت بچپن سے ہی شاعرانہ تھی۔ آپ سے ایک بھید کہیں کہ چاندنی ہماری کمزوری ہے اور جب سے ہوش سنبھالا ہے ہر چاند کی چودہویں کو کبھی نہیں سوئے۔ خدا جانے کیا وجہ ہے؟ عجیب و غریب کیفیت ہوتی ہے۔“ گھر رہیں تو ویرانی دل کو کھانے کو آوے ”والا معاملہ ہوتا ہے، چاندنی، سگریٹ کا دھواں اور آوارگی ہماری تین شدید کمزوریاں ہیں جواب تک پوری تابندگی سے جاری ہیں۔ سفر، سگریٹ اور چاندنی، تینوں بے وجہ ذہن کو الجھا کر رکھ دیتے ہیں اور ہماری شاعری ان کے بغیر سانس لینا بھی گوارا نہیں کرتی“ ۔ انہی قلبی کیفیات میں 1969 ء میں محسن نقوی کا پہلا مجموعہ کلام بند قبا منظر عام پر آیا اور اس وقت کے شعراء میں محسن نے اس کلام کی بدولت اپنی بھرپور موجودگی کا احساس دلایا۔

محسن نقوی کو شاعر آل محمد ﷺ بھی کہا جانے لگا۔ محسن لاہور منتقل ہوئے اور لاہور کی ادبی محفلوں میں انہیں بے پناہ شہرت حاصل ہوئی اور اس دوران 1978ء میں محسن نقوی کی دوسری کتاب برگ صحرا، اس کے بعد 1985 ء میں ریزہ حرف، 1990ء میں عذاب دید اور اس کے دو سال بعد 1992ء میں طلوع اشک، 1994ء میں رخت شب، 1996ء میں خیمہ جاں اور اس کے بعد موج ادراک اور فرات فکر محسن نقوی کے فکری اور علمی اثاثہ کے طور پر آج بھی تشنگان علم کے لیے زاد راہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔

محسن نقوی نے محض اردو میں ہی اشعار نہیں کہے بلکہ محسن نقوی کا سرائیکی میں بھی بہت سا کلام موجود ہے۔ محسن نقوی کی سرائیکی میں آزاد نظم ”ہن کیا تھیسی؟“ نے سرائیکی شاعری کے ادبی حلقوں میں کافی شہرت پائی۔ اس نظم سے محسن نقوی کی سرائیکی وسیب سے متعلق معلومات اور آشنائی کا اندازہ ہوتا ہے۔ بکروال ایک ایسا لفظ ہے جس کے معنی و مفہوم سرائیکی زبان سے گہری واقفیت رکھنے والے کے سوا کوئی نہیں جان سکتا۔ بکروال شمال مغربی کونے سے نکلنے والا وہ بادل ہوتا ہے جس کی رنگ بالکل سیاہ ہوتا ہے اور یہ بادل جب نمودار ہوتا ہے تو برستا ضرور ہے اور موسلا دھار بارش ہوتی ہے۔ اسی نظم میں محسن نقوی نے سرائیکی کا لفظ ”واچھڑ“ استعمال کیا ہے جس کے معنی موسلادھار بارش کے ہیں اور یہ لفظ اس وقت متروک ہو چکا ہے۔ صرف اردو ہی نہیں سرائیکی کے الفاظ بھی محسن کی سرائیکی شاعری میں اپنی خوبصورتی، موقع محل، معنویت کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔

محسن نے کربلا کو اپنا موضوع سخن بنایا اور شاعر اہلبیت کے نام سے بھی شہرت پائی۔ خانوادہ نبوت سے محسن کی محبت نے جنون کی شکل اختیار کرلی اور واقعات کربلا اور ذکر اہلبیت نے محسن کی شاعری کو عظمتوں سے ہمکنار کر دیا۔ محسن کے سرائیکی کلام میں بھی اہل بیت سے محبت کی خوشبو کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ اہل بیت کی محبت اور غلامی کے طفیل روز محشر بخشش کے لیے پر امید محسن نقوی کا یہ انداز بھی ایسا ہے جیسے موتی لڑی میں پروئے ہوئے ہوں۔

سرائیکی غزل میں بھی محسن نے زندگی کی تلخیوں کو بہت ہی شاندار اور خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔ اور سرائیکی وسیب کے ہر ممکنہ استعارے اور کیفیت کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے اور اس میں محسن نقوی کامیاب بھی رہا ہے۔ محسن کی سرائیکی شاعری کو پڑھ کر جدید اور قدیم کا ایک حسین امتزاج محسوس ہوتا ہے۔ رات کی غربت کا ذکر کرتے ہوئے ”ہنج دی زکواۃ“ دینے کا مشورہ محسن نقوی جیسا شاعر ہی دے سکتا ہے۔ محسن نقوی صرف اردو شاعری کا ہی بڑا نام نہیں ہے اگر محسن نقوی کے سرائیکی کلام کو جمع کیا جائے تو یہ سرائیکی ادب اور سرائیکی زبان کی ایک بہت بڑی خدمت ہوگی اور محسن نقوی کا کلام سرائیکی ادب میں ایک بہترین اضافہ ہو گا۔ 15 جنوری 1996 کو لاہور کی مون مارکیٹ میں سید محسن نقوی پر قاتلانہ حملہ ہوا اور ان کو 45 گولیاں لگیں۔ ہسپتال لے جایا گیا مگر جانبر نہ ہو سکے۔ محسن نقوی آبائی شہر ڈیرہ غازی خان کی کربلا میں آسودہ خاک ہوئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments