فاٹا اور پشتونوں کی جنگ


قبائلی علاقہ کہیں یا علاقہ غیر،غیرستان،آزاد سرزمین،فاٹا یا کچھ اور، ستائیس ہزار دو سو بیس مربع کلو میٹر پرمحیط یہ خطہ ان دنوں خبروں میں خوب گرم ہے پاکستان کے یہ قبائلی علاقے، اس کی سات ایجنسیاں اور مختلف قومیتیں ہمشیہ سے اہم رہی ہیں۔ قیام پاکستان سے پہلے بھی یہاں کے عوام جری تھے اور پاکستان بننے کے بعد بھی۔ لیکن فطری بہادری کے باوجود یہاں کے عوام نے جرات نہیں کی کہ وہ انگریزوں کے بنائے قانون ایف سی آر کے خلاف علم بغاوت کرتے۔ یہ کئی دہائیوں تک پستے رہے۔ اب جہاں یہاں شعور کے دئیے روشن ہونا شروع ہوئے ہیں اور خواتین جہاز کو اڑتے دیکھ کر بے پردگی کے خوف سے کمروں میں بھاگتی نظر نہیں آتیں تو امید پیدا ہو رہی ہے کہ یہ اب قبائل نہیں رہیں گے باقاعدہ پاکستان کے شہری بن جائیں گے۔

وزیراعظم نوازشریف نے سرتاج عزیز کی سربراہی میں فاٹا میں اصلاحات سے متعلق کمیٹی بنائی تاکہ وفاق کے زیر انتظام ان علاقوں کے عوام کو بھی شہری سہولتیں دے سکیں ورنہ تو یہاں منشیات، کلاشنکوف کلچر اور لاقانونیت کا راج ہی رہے گا، تعلیم، صحت، روزگار اور انفرسٹرکچر کے معاملے میں بھی یہاں کے باسی مسلسل نظر انداز کئے گئے ہیں۔ پولیٹکل ایجنٹ کو دیوتا کا درجہ حاصل ہے، ایک شخص کے جرم کی سزا پورے گاؤں کو ملتی ہے۔ فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن کالا قانون بن چکا ہے۔ ایسے میں جب حقوق کی باتیں شروع ہوئیں تو ان پڑھ قبائل خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا، مرد ہو یا خاتون ہر ایک کو اپنے حقوق کا ادراک ہونے لگا۔

فاٹا اصلاحات کمیٹی نے سفارشات تیار کر لی ہیں جس کی روشنی میں ن لیگ کی حکومت نے فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس سلسلے میں کابینہ کی منظوری اور پارلیمنٹ سے بل پاس ہونا باقی ہے لیکن اس انتہائی اہم معاملے کو آخری وقت میں کابینہ کے ایجنڈے سے اچانک نکال دیا گیا جسے فاٹا کے پارلیمانی لیڈر گل آفریدی نے قبائل دشمنی قرار دیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ عوام کی نمائندگی کرنے والے ان ایم این اے صاحب نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اصلاحات پر عمل درآمد نہ ہوا تو 12 مارچ کو ایوان صدر، ایوان وزیراعظم، پارلیمنٹ اور سیکریٹریٹ سمیت کسی بھی عمارت میں کام کرنے نہیں دیا جائے گا۔ قبائلی عمائدین نے فاٹا اصلاحات نافذ نہ ہونے پر اسلام آباد میں دھرنے کی کال بھی دے دی ہے۔ یہ بعینہ ویسی ہی دھمکی ہے جیسے ماضی قریب اور ماضی بعید میں تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور ن لیگ دے چکی ہے۔

دھرنے کی بات ہوئی تو سات فروری کو چارسدہ میں اے این پی کے جلسے میں اسفند یار ولی خان کا کہنا تھا کہ فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم نہ کیا گیا تو اسلام آباد میں ایسا دھرنا ہوگا کہ سب پچھلے دھرنے بھول جائیں گے۔ فاٹا کو محض مٹی کا ایک ٹکڑا سمجھا جاتا ہے اسے 2018 کے انتخابات سے پہلے کے پی میں ضم کیا جائے۔ خان صاحب کے مطالبے پر جب سے صوبہ سرحد (این ڈبلیو ایف پی) کا نام بدل کر خیبر پختونخوا رکھا گیا ہے وہ اسے بڑی کامیابی قرار دیتے ہیں حالانکہ نام بدلنے سے اس علاقے کی اتنی ہی قسمت بدلی ہے جتنی ملک کے دیگر حصوں کی بدلی ہے۔ اسفند یار ولی کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب وزیراعظم نوازشریف خیبر پختونخوا کو پختونخوا کہتے ہیں تو انہیں مزہ آتا ہے۔ اب اگر یہ ان کے اندر کے بچے کی خواہش ہے کہ فاٹا کو خیبر پختونخوا کا حصہ بنایا جائے تو اس پر ضرور سوچنا چاہئے کہ آخر قومی سیاست میں اے این پی کا ایک مقام ہے اور اس سے ان کا مزہ دو آتشہ بھی ہوسکتا ہے۔

اے این پی کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف، مسلم لیگ ن، پاک سرزمین پارٹی اور دیگر جماعتیں بھی فاٹا کو خیبر پختونخوا میں شامل کرنے کےحق میں ہیں، تاہم وزیراعظم کے دو سیاسی دوست اصل رکاوٹ ڈال رہے ہیں جن میں سے ایک پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے محمود خان اچکزئی ہیں تو دوسرے جمعیت علمائے اسلام کے مولانا فضل الرحمان۔ مولانا صاحب فاٹا کو ضم کرنے کی بجائے الگ صوبہ بنانے کے حق میں ہیں۔ اس سلسلے میں ان کی جانب سے ریفرنڈم کی بھی تجویز پیش کی جارہی ہے۔ پارٹی کے دیگر قائدین بھی اس حوالے سے زمین ہموار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دوسرے محمود خان اچکزئی، جن کی جماعت بلوچستان کی اہم پارٹی ہے، بھی حکومتی فیصلے کے خلاف ہیں جس پرچارسدہ کے جلسے میں اسفند یار ولی نے ان کی قوم پرستی پر سوالیہ نشان بھی اٹھایا تھا۔

فاٹا کے معاملے پر پشتونوں کی سیاسی جنگ شروع ہو چکی ہے اور رمضان المبارک سے پہلے شاید یہ بیل منڈھے چڑھ بھی جائے تاہم بیل کے سب سے زیادہ طفیلی کون کون سی جماعتیں ہوں گی اس کا فیصلہ بعد میں ہو گا۔ البتہ جس معاملے کے لئے ساری جدوجہد ہو رہی ہے اس کے پیچھے قبائلی عوام کا مفاد وابستہ ہے۔ فاٹا خیبر پختونخوا میں ضم ہو یا الگ صوبہ بنے پارلیمنٹ ہی اس سلسلے میں بڑا فیصلہ کرے گی تاہم مجھے یہاں ایک فرنگی دانش ور کی بات یاد آ رہی ہے جس نے کہا تھا کہ جمہوریت ہو، بادشاہت یا آمریت،نظام وہی اچھا ہے جس میں عوام کا فائدہ ہو اس لئے بھلے فاٹا، صوبہ قبائلستان بنے، خیبر پختوںخوا میں شامل ہو یا موجودہ حالت میں ہی رہے، فائدہ بہرحال قبائلی عوام کو ملنا چاہئے۔

شہزاد اقبال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شہزاد اقبال

شہزاد اقبا ل دشتِ صحافت کے پرانے مسافر ہیں۔ وہ صحافت اور سیاست کی گھڑیاں اٹھائے دو دہائیوں سے حالت سفر میں ہیں۔ ان دنوں 92 نیوز چینل میں ان کا پڑاؤ ہے۔

shahzad-iqbal has 38 posts and counting.See all posts by shahzad-iqbal

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments