جب ایک خوبصورت لڑکی نے کیفی اعظمی کے لیے اپنی منگنی توڑ دی

ریحان فضل - بی بی سی ہندی


कैफ़ी आज़मी, शबाना आज़मी, शौकत आज़मी
azmikaifi.com
حیدرآباد کے ایک مشاعرے میں جب کیفی اعظمی اپنا ایک گیت سنا رہے تھے تو ان کے گانے کے انداز نے ایک حسینہ کو مجبور کر دیا کہ وہ کسی اور سے ہو جانے والی اپنی منگنی توڑ دیں۔

اس محفل میں خوبصورت خواتین نے اس دن سفید ہینڈلوم کرتے، سفید شلوار اور دھنک رنگ کا دوپٹہ پہن رکھا تھا۔ اطہر علی رضوی المعروف کیفی اعظمی، ایک لمبے، دبلے پتلے، خوبصورت نوجوان نے اس دن اپنی گرج دار آواز میں یہ گیت سنایا تھا، جس کا عنوان تھا ‘تاج’۔

بعد میں وہی حسینہ جس کا نام شوکت ان کی بیوی بن گئیں۔ اس مشاعرے کو یاد کرتے ہوئے شوکت اعظمی نے بی بی سی کو بتایا کہ جب مشاعرہ ختم ہوا تو لوگوں کا ہجوم کیفی، علی سردار جعفری اور مجروح سلطان پوری کی طرف آٹوگراف بک کے ساتھ جمع ہو گیا۔‘

انھوں نے کہا کہ ‘کالج کی لڑکیاں کیفی پر شہد کی مکھیوں کی طرح لپک رہی تھیں۔ میں نے کیفی پر اڑتی ہوئی نگاہ ڈالی اور سردار جعفری کی طرف متوجہ ہو گئی۔ جب ہجوم کم ہوا تو میں نے بہت ادا سے اپنی آٹوگراف بک کیفی کی طرف بڑھا دی۔ اس پر انھوں نے ایک بہت معمولی سا شعر لکھ دیا۔ بعد میں جب مجھے موقع ملا تو میں نے اس سے پوچھا کہ آپ نے میری کتاب پر اتنا خراب شعر کیوں لکھا؟

कैफ़ी आज़मी, शबाना आज़मी

www.azmikaifi.com

وہ کہتی ہیں کہ کیفی نے مسکرا کر کہا: 'آپ نے پہلے جعفری صاحب سے آٹو گراف کیوں لیا؟' میں ہنس پڑی اور یہیں سے ہمارا پیار شروع ہوا۔

اٹھ مری جان

اسی دوران ایک اور محفل میں کیفی نے کانپتے ہاتھوں سے سگریٹ جلائی، بال پیچھے کیے اور اپنی مشہور نظم 'عورت' شروع کی۔

قدر اب تک تری تاریخ نے جانی ہی نہیں

تجھ میں شعلے بھی ہیں، اشک فشانی ہی نہیں

تو حقیقت بھی ہے دلچسپ کہانی ہی نہیں

تیری ہستی بھی ہے اک چیز جوانی ہی نہیں

اپنی تاریخ کا عنوان بدلنا ہے تجھے

اٹھ میری جان! میرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے

یہ نظم سن کر حسینہ شوکت نے اپنے والد سے کہا کہ اگر وہ شادی کریں گی تو صرف کیفی سے۔ تب تک ان کی منگنی اپنے ماموں کے بیٹے سے ہو چکی تھی۔ جب لڑکے کو اس بات کا علم ہوا تو اس نے اپنے والد کے ریوالور سے خودکشی کرنے کی کوشش کی۔

شوکت کیفی نے کہا کہ کہ میرے والد بہت ذہین اور ترقی پسند آدمی تھے، انھوں نے مجھ سے کہا کہ میں تمہیں بمبئی لے جاؤں گا۔ وہاں تم دیکھو کہ کیفی کیسی زندگی گزار رہے ہیں۔ پھر تم حتمی فیصلہ کرنا۔ وہاں کیفی سے ملاقات کے بعد اباجان مجھے سیر کے لیے چوپاٹی لے گئے، وہاں انھوں نے میری رائے پوچھی، میں نے ان کی آنکھوں میں دیکھا اور کہا کہ اگر کیفی مٹی بھی اٹھائيں گے اور مزدوری بھی کریں گے تو بھی میں ان کے ساتھ کام کروں گا اور ان سے ہی شادی کروں گی۔’

اگلے ہی دن دونوں کا نکاح ہو گیا۔ معروف شاعر جوش ملیح آبادی، مجاز لکھنوی، ساحر لدھیانوی، سکندر علی وجد سے لے کر بمبئی ریڈیو اسٹیشن کے سٹیشن ڈائریکٹر ذوالفقار بخاری اور کرشن چندر نے بھی اس نکاح میں شرکت کی۔

دیر رات تالیوں کی آواز

AZMIKAIFI.COM

azmikaifi.com
کیفی اعظمی

کیفی اور شوکت کی بیٹی شبانہ اعظمی آج بھی وہ دن نہیں بھولتیں جب وہ اپنے والد کے ساتھ مشاعروں میں جاتی تھیں۔

شبانہ کہتی ہیں کہ دراصل میری والدہ تھیٹر میں کام کرتی تھیں اور انھیں اکثر دوسرے شہروں میں جانا پڑتا تھا۔ پھر یہ ابا ہی تھے جنہوں نے ہمارا خیال رکھا۔ گھر میں پیسے نہیں تھے، اس لیے ہم آیا رکھنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے۔ ابا ہم دونوں کو مشاعروں میں اپنے ساتھ لے جایا کرتے تھے، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہمیں سٹیج پر ہی گاؤ تکیے (مسند) کے پیچھے سلا دیا جاتا تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ جب رات گئے زور سے تالیاں بجتیں تو ہمیں معلوم ہو جاتا تھا کہ ابا کے نام کا اعلان ہو رہا ہے۔ ہم جاگ کر ان کا کلام سنتے تھے۔ وہ ہمیشہ مشاعرہ کے آخر میں پڑھتے تھے۔

فنِ ادائیگی

اعظمی

شاعری صرف کتابوں میں نہیں پڑھی جاتی بلکہ سنی بھی جاتی ہے۔ لکھنے کی طرح اس کی ادائیگی بھی ایک فن ہے اور یہ کہے بغیر نہیں رہا جا سکتا کہ کیفی اس فن کے ماہر تھے۔

مشہور شاعر ندا فضلی نے ایک بار بی بی سی کو بتایا کہ ہندی میں اس وقت سب سے زیادہ اثر انگیز شاعری شیو منگل سنگھ سمن کی تھی۔ ان میں سامعین کو مسحور کرنے کی حیرت انگیز صلاحیت تھی۔ لیکن اردو میں ان کے مقابلے کا صرف ایک شاعر تھا۔ اس کا نام کیفی اعظمی تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘کیفی جب سٹیج پر آتے تھے تو ان کی آواز، ان کے انداز اور ان کی پیش کش اتنی اچھی ہوتی تھی کہ ان کے سامنے اونچی سے اونچی آواز میں شعر سنانے والے پانی مانگتے تھے۔

सरोजिनी नायडू

سروجنی نائیڈو

سروجنی نائیڈو کی نصیحت

شروع میں کیفی اپنے شعر ترنم میں پڑھا کرتے تھے۔ لیکن ایک بار سروجنی نائیڈو سے ملاقات کے بعد انھوں نے ترنم میں شعر پڑھانا چھوڑ دیا۔

ندا فاضلی کہتے ہیں کہ ایک بار جب کیفی اعظمی اور علی سردار جعفری سروجنی نائیڈو سے ملنے گئے تو انھوں نے ان سے کچھ سنانے کو کہا۔ جب انھوں نے اپنی ایک غزل گا کر سنائی تو انھوں نے کہا کہ خدا کے لیے آئندہ اپنی غزل مجھے ہی نہیں کسی کو بھی ترنم میں نہ سنانا۔

ان کا کہنا ہے کہ ‘وہ دن تھا کہ اس دن کے بعد سے کیفی اور علی سردار جعفری نے ہمیشہ اپنے شعر سنائے، گائے نہیں اور اسی کی بنیاد پر انھوں نے اپنے مداحوں کے دلوں میں جگہ بنائی۔

گاؤں میں بجلی اور پانی نہیں ہے

شادی کے بعد کیفی اپنی بیوی شوکت کو لے کر پہلی بار اپنے گاؤں مجواں گئے جہاں ان کے گھر میں نہ بجلی تھی نہ پانی۔

شوکت کے مطابق وہاں بہت گرمی تھی۔ چھت پر ہاتھ سے کھینچنے والا ہوا پنکھا تھا۔ میں اور میرا بچہ دوپہر کو ایک بستر پر سوتے تھے۔ کیفی میز پر ٹیک لگائے نظمیںلکھنے میں مصروف ہو جاتے۔ انھوں نے اپنی نظمیں ‘ٹیلیفون’ اور ‘تلنگانہ’ وہیں لکھی۔ اس دوران وہ اپنی ٹانگ سے رسی کھینچتے رہے اور ہمیں ہوا ملتی رہی۔ گھر کے لڑکے کیفی کا مذاق اڑاتے تھے اور رسی کھینچنے کی نقل کرتے ہوئے انھیں پریشان کرتے تھے۔

شبانہ کو سکول میں داخلہ کیسے ملا؟

کیفی ہمیشہ کرتا پاجامہ پہنتے تھے۔ جب کانونٹ سکول میں ان کی بیٹی شبانہ کے داخلے کی بات آئی تو وہ اس سکول میں نہیں جا سکے کیونکہ انھیں انگریزی بولنا نہیں آتی تھی۔

مزید پڑھیے

جب ساحر لدھیانوی نے ’بھیس بدلا‘ اور پاکستان چھوڑ کر انڈیا چلے گئے

فیض کی آمریت مخالف نظم ’ہندو مخالف‘ کیسے بن گئی

شبانہ اعظمی یاد کرتی ہیں کہ اگر والدین کو انگریزی نہ آتی تو بمبئی کے کوئین میری اسکول میں والے بچے کو داخلہ نہیں دیتے تھے۔ ان دنوں سلطانہ جعفری سکول کی انسپکٹر تھیں۔ وہ سکول میں میری ماں یعنی شوکت کیفی بن گئیں۔ اور منیش نارائن سکسینہ جو کیفی صاحب کے بہت اچھے دوست تھے، میرے والد بن گئے، چونکہ وہ دونوں انگلش بول سکتے تھے اس لیے ہمیں وہاں داخلہ مل گیا۔

شبانہ نے کہا کہ اس کے کئی سال بعد میری ہندی ٹیچر نے مجھے بتایا کہ جو لوگ یہاں پیرنٹس میٹنگ میں آتے ہیں ان سے ان کی مشابہت نہیں جنھیں میں نے کل مشاعرہ میں اپنا کلام سناتے ہوئے دیکھا تھا۔ میں حوفزدہ ہو گئی اور کہانی گھڑ لی کہ میرے والد کو ٹائیفائیڈ ہو گیا تھا، جس کی وجہ سے وہ کمزور ہو گئے تھے، اس لیے آپ انھیں پہچان نہ سکیں۔

دو پیسے گلاسپانی

کیفی اور شوکت اکثر بھٹے کھاتے ہوئے چوپاٹی کی طرف پیدل ہی نکل جاتے۔ ایک اتوار کو کیفی کو فلم دیکھنے کی خواہش ہوئی اور انھوں نے شوکت سے اپنی خواہش کا اظہار کیا اور وہ فلم دیکھنے جانے کے لیے تیار ہو گئے۔

شوکت کیفی یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ اس وقت کیفی کی جیب میں صرف ڈھائی روپے تھے۔ Roxy سنیما ہال میں چیتن آنند کی فلمی سفر دکھائی جارہی تھی۔ ہم نے سوا سوا روپے کے دو ٹکٹ لے کر فلم دیکھی۔ مجھے پیاس لگی، وقفے میں، میں نے کیفی سے پانی مانگا۔ ان دنوں دوپہر کو سارے نل بند ہو جاتے تھے۔

وہ کہتی ہیں کہ ایک بوڑھی عورت Roxy’s کے کونے پر ایک برتن میں پانی لے کر دو پیسے گلاس میں پانی بیچتی تھی۔ ہمارے پاس اور پیسے نہیں تھے۔ کیفی نے کہا کہ جاؤ اس بوڑھی عورت سے پانی لے کر پی لو۔ جب پیسے مانگے تو کہنا کہ میرا شوہر وہاں ہے، میں اس سے پیسے لے کر آتی ہوں۔

لیکن پیسے دینے کے بجائے وہ دونوں وہاں سے بھاگ گئے۔

شوکت کہتی ہیں کہ بعد میں جب بھی ہمیں وہاں سے گزرنا ہوتا تو کیفی مجھے چھیڑتا کہ دیکھو، وہ بوڑھی عورت اپنے دو پیسے کے لیے تمہارا انتظار کر رہی ہے۔

مونٹ بلاں قلم کے شوقین

کیفی کو قیمتی چیزوں سے کوئی لگاؤ ​​نہیں تھا لیکن وہ ہمیشہ مہنگے مونٹ بلاں قلم سے لکھتے تھے۔

شبانہ اعظمی کہتی ہیں کہ ان کے پاس کوئی ذاتی چیز نہیں تھی۔ لیکن ایک چیز جس کا انھیں واقعی شوق تھا وہ مونٹ بلاں قلم۔ میں جب بھی باہر جاتی تو ان کے لیے وہ قلم ضرور لاتی۔ ایک بار میرے پاس قلم تھا۔ جب ایک دوست نے مجھے مونٹ بلاں قلم پیش کیا تو انھوں نے اسے ایک بہت اچھا خط لکھا جس میں لکھا کہ یہ قلم میری بیٹی کے مقابلے میں میرے پاس زیادہ محفوظ رہے گا۔

پین

وہ کہتی ہیں کہ وہ ہمیشہ نیلی سیاہ روشنائی سے لکھتے تھے اور اپنے قلم کا بہت خیال رکھتے تھے۔ نیویارک میں قلم کا ایک ہسپتال ہے۔ وہاں اپنے قلم 'مینٹیننس' کے لیے بھیجتے تھے۔

شبانہ کے لیے سموسے لائے

ڈاکٹر کیفی کو ہمیشہ ٹھنڈی چیزیں کھانے یا پینے سے منع کرتے تھے لیکن وہ ہمیشہ صرف ٹھنڈا پانی پیتے تھے۔ 14 جنوری سنہ 2002 کو شبانہ اپنی سالگرہ منانے کے لیے کیفی کے آبائی گاؤں مجوان گئیں۔

شوکت بتاتی ہیں کہ پورے گاؤں کے لوگ ان سے ملنے کے لیے جمع ہو گئے۔ سہ پہر چار بجے، کیفی کسی طرح بستر سے اٹھے اور مجھ سے کہا، مجھے کچھ پیسے دو۔ میں نے پوچھا، کیوں؟ کہا، حجت مت کرو۔ میں نے ان کے ہاتھ میں سو روپے تھما دیے، وہ ہمارے ڈرائیور گوپال کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گئے۔

समोसा

وہ کہتی ہیں کہ وہ ایک گھنٹے کے بعد واپس آئے۔ شبانہ کو اپنے کمرے میں بلایا اور کہا، صبح میرے گاؤں والے میری چڑیا کا دماغ کھا رہے ہیں، دیکھو، میرے پاس تمہاری پسند کے سموسے ہیں، یہ گرم ہیں، کھا لو۔ شبانہ نے خوشی خوشی سموسے چٹ کر لیے۔ شاید ایک آدھا کیفی کے منہ میں بھی ڈال دیا ہو۔ یہ آخری موقع تھا جب کیفی خود بستر سے اٹھ کر کہیں باہر گئے تھے۔

بیس سال تک فالج کےمریض

شبانہ اعظمی، جاوید اختر

شوکت کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنی زندگی میں کیفی جیسا شخص نہیں دیکھا، جو مرد اور عورت میں فرق نہیں کرتا اور اپنی بیوی کا احترام کرتا تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے مجھے آپ کے علاوہ کبھی نہیں بلایا۔ وہ فالج کے بعد بیس سال تک زندہ رہے۔ میں نے ہمیشہ ان کی آنکھیں پڑھیں اور وہ سب کچھ کیا جو کیفی چاہتے تھے۔ بایاں ہاتھ بیکار ہو گیا تھا۔ وہ پاجامہ بھی نہیں باندھ سکتے تھے، نہ وہ خود نہا سکتے تھے۔ انھیں نہلانا، ان کے کپڑے استری کرنا، ان کے ساتھ سیر کو جانا، یہ سب کام میں کرتی تھی۔ ان کے جیسا آدمی میرے سامنے سے آج تک نہیں گزرا۔

عجیب آدمی تھا وہ

کیفی اپنے دکھوں کی منڈیروں میں گھر کر نہیں رہ جاتے بلکہ اپنے دکھ کو دنیا کے تمام لوگوں سے جوڑ دیتے۔

कैफ़ी आज़मी

azmikaifi.com

پھر ان کی بات صرف دنیا کے کسی ایک فرد کے دل کی نہیں بلکہ دنیا کے تمام لوگوں کے دل کی ہو جاتی ہے اور آپ محسوس کرتے کہ ان کی شاعری میں صرف ان کا، ہمارا، آپ کا ہی نہیں، سب کا دل دھڑک رہا ہے۔

ان کے داماد اور معروف شاعر جاوید اختر نے ان کے بارے میں بجا لکھا ہے۔

عجیب آدمی تھا وہ

محبتوں کا گیت تھا، بغاوتوں کا راگ تھا

کبھی وہ صرف پھول تھا کبھی وہ صرف آگ تھا

عجیب آدمی تھا وہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32297 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments