مردوں کے لیے جنت میں 72 حوروں کا گفٹ مگر عورت کے لیے کیا


خواتین میں سوال پوچھنے کا جذبہ ذرا کم ہوتا ہے مگر تابعداری کرنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہوتا کم ازکم برصغیر کے کلچر میں تو اس قسم کے شواہد بڑے شد و مد سے ملتے ہیں بنیادی وجہ صدیوں کا استحصال اور عورت کو پیدا ہوتے ہی گھر کی چار دیواری میں قید کر کے گھر کی لکشمی بنانے کی تربیت کا آغاز ہوتا ہے۔ مرد کے لیے عورت کو آزادی دینے کا مطلب اپنی مردانگی کی دھجیاں اڑانے کے مترادف ہوتا ہے اور مردانگی کے لحاف میں کس قسم کا بزدل چھپا ہوتا ہے اس کی اصلیت آشکار ہونے کا اسے دھڑکا لگا رہتا ہے۔

خواتین کو یہ کہہ کر چپ کروا دیا جاتا ہے اگر تم نے اپنے شوہر کی نافرمانی کی اور خدانخواستہ اسی نافرمانی کے بوجھ کے ساتھ سو گئی تو فرشتے ساری رات لعنت ملامت کرتے رہتے ہیں۔ یعنی شوہر کی خوشنودی کے لیے اسے اپنی ذاتی شخصی تمناؤں اور خواہشات کی بلی چڑھانا پڑتی ہے لیکن اب وقت بدل رہا ہے اور بہت ساری باشعور اور نڈر خواتین سوالات کے بنڈل کے ساتھ سوشل میڈیا پر نمودار ہو چکی ہیں۔ موجودہ وقت میں تین خواتین ایسی ہیں جنہوں نے اپنی کاٹ دار لہجہ کے بل پر معاشرتی پنڈتوں کو تگنی کا ناچ نچوایا ہوا ہے۔

ان بہادر خواتین میں سرفہرست ڈاکٹر طاہرہ کاظمی ہیں جو ”ہم سب“ ویب سائٹ پر ”ون ویمن آرمی“ کا رول بڑے اچھے سے نبھا رہی ہیں اور اپنی نشتر زبانی کی وجہ سے ہمیشہ تنقید کی زد میں رہتی ہیں۔ ان پر معاشرتی پاک بازوں کی طرف سے یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ ڈاکٹر صاحبہ گندے شبدوں کا استعمال کرتی ہیں اور معاشرے میں فحاشی کو فروغ دے رہی ہیں۔ منافقت کا لیول دیکھیں کہ معاشرتی پاک بازوں کو ڈاکٹر صاحبہ کی تحریروں میں تو فحاشی دکھ جاتی ہے مگر اپنے کمنٹس کی صورت میں بکواس بازیاں اور گھٹیا بیانی بالکل دکھائی نہیں دیتی۔

ڈاکٹر صاحبہ تو بڑے آرام سے کوئی بھی مقبول روحانی خول یا چغہ پہن کر اپنے گرد خوشامدیوں کا حلقہ قائم کر سکتی تھیں اور اشفاق احمد یا بانو قدسیہ کی طرح صبر و اطاعت کی تبلیغ کر کے روحانی گرو بننے کا اعزاز حاصل کر سکتی تھی کیونکہ اس فیلڈ میں نام کمانے کے لئے کوئی محنت درکار نہیں ہوتی اور ہماری مٹی ایسی شعبدہ بازیوں کے لئے بہت زرخیز ہے۔ ڈاکٹر طاہرہ نے ہوا کے مخالف سمت جا کر معاشرتی پاکبازوں کو آئینہ دکھانے کا فیصلہ کیا اور خواتین کو جگانے کی کوشش کی اب ڈاکٹر صاحبہ کی کاٹ دار تحریریں پڑھنے سے کسی کے عضو تناسل میں تناؤ آتا ہے تو اسے اپنے نفسیاتی علاج کروانے کی طرف توجہ دینی چاہیے۔

دوسری ”ون ویمن آرمی“ کا کردار نبھانے والی خاتون کا نام آرزو کاظمی ہے جن کا ایک یوٹیوب چینل ہے جس پر بڑی بہادری سے وہ انتہائی بولڈ سوالات اٹھاتی رہتی ہیں اور گزشتہ دنوں انہوں نے اپنے چینل پر انڈیا کے ایک عالم دین مولانا ساجد راشد کا انٹرویو لیا جس میں انہوں نے ایک بہت اہم سوال جو صدیوں سے خواتین کے ذہن میں موجود رہا ہے مگر مردانہ برتری اور معاشرتی گھٹن کی وجہ سے وہ کبھی یہ سوال کسی سے پوچھ نہ پائی وہی سوال آرزو کاظمی صاحبہ نے بڑے دلکش انداز میں پوچھ کر فرض کفایہ ادا کر دیا کیا ہے۔

انہوں نے مولانا ساجد سے پوچھا کہ

”مولانا صاحب یہ بتائیں کہ جنت کی ساری ایٹریکشن“ میل سینٹرڈ ”ہے اور مردوں کو نیک اعمال کے عوض 72 حوروں کا تحفہ ملے گا اور ہزار گنا جنسی طاقت کے ساتھ وہ اپنی جنسی پیاس بجھانے میں مصروف رہیں گے۔ میں بطور خاتون اگر تمام نیک کام کرتی ہوں تو مجھے وہاں کیا ملے گا؟ کیونکہ وہاں نہ تو لائبریری ہوگی اور نہ ہی شاپنگ مال تو پھر ہمارا وہاں کیا کردار ہو گا؟“

یہ سوال سنتے ہی مولانا صاحب نے وہی گھسا پٹا جواب دے ڈالا کہ محترمہ آپ وہاں حوروں کی سردار بنیں گی اور آپ اپنے دنیاوی شوہر کے نکاح میں ہوں گی۔

جواب بالکل سٹیج ڈرامہ کے ایک مقبول ڈائیلاگ کی مثل تھا۔
”بڑی گل کیتی اے“ مطلب بہت بڑا تیر مارنا۔

مولانا کے اس جواب پر آرزو کاظمی نے کہا کہ ”مولانا صاحب دنیا میں حادثاتی طور پر جس مرد سے شادی ہو گئی اور چار و ناچار اس سے نبھا بھی کر لیا مگر جنت میں ایک بار پھر اس کے عقد میں جا کر پھر سے اسے بھگتنا پڑے گا یہ تو بڑی نا انصافی والی بات لگتی ہے یعنی ہمارے حصہ میں وہی دنیا وی گلا سڑا شوہر اور شوہر حضور کو اپنی نیکیوں کی عوض 72 حوریں مل جائیں گی اور ہمارے حصہ میں چند غلمان بھی نہیں؟“ جس پر مولانا صاحب ہنسے اور آرزو بھی ہنس دی مگر مولانا کی ہنسی میں بے بسی اور بے چارگی بالکل واضح تھا جب کہ آرزو کی ہنسی میں اعتماد اور بلند نظری جھلک رہی تھی۔

مولانا نے کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے کہا کہ آپ کا یہ سوال مجھ سے نہیں بنتا بلکہ یہ سوال آپ کو اللہ سے کرنا چاہیے اور اس کے بعد پھر وہی قصہ خوانی شروع کر دی جس میں یہ بہت مہارت رکھتے ہیں اور اسی مہارت کا فیض ان کو ملتا رہتا ہے۔ آرزو کے اس اہم سوال کو ان کی ویڈیو کی صورت میں ملین لوگوں نے دیکھا، جواب تو وہی ملنا تھا جس کی توقع تھی مگر آرزو نے کروڑوں خواتین کے ذہن کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اور صدیوں کے مدفون سوالوں سے گرد ہٹانے کی طرف پہلا قدم اٹھا دیا اور اب مزید باشعور اور پڑھی لکھی خواتین کو آگے آنا چاہیے اور صدیوں کے اس مکروہ جال کو سوالات کی چوٹ سے ہٹانے کی کوشش کرنی چاہیے۔

یہ کتنی المناک بات ہے کہ دنیا میں بھی ”وجائنا سنٹرڈ ذہنیت“ کے زیر سایہ بے بسی کی زندگی اور آخرت میں پھر۔ ؟ وجائنا کے سوراخ کے علاوہ وہ ایک مکمل انسان بھی ہے مگر دنیا و آخرت میں آدھی اور وجائنا کے علاوہ مثل مردہ اور اپنی انفرادی خواہشات کی گورکن اور جسے خود کو صاحب کردار رکھنے کے لیے خود اپنی آرزوؤں کو اپنے ہاتھوں سے دفن کرنا پڑتا ہے۔ چونکہ مرد کو کریکٹر سرٹیفکیٹ کی ضرورت کہیں نہیں پڑتی مگر عورت کو جگہ جگہ اپنے کردار کو ثابت کرنا پڑتا ہے۔

تیسری دبنگ خاتون کا نام حریم شاہ ہے جو تھوڑے تھوڑے عرصہ بعد مخصوص ویڈیو کلپ بنا کر ہمارے معاشرے کو جھنجھوڑتی رہتی ہیں۔ کافی عرصہ پہلے ایوان اقتدار کے دروازے پاؤں سے کھولتے کھولتے پردھان منتری کی نشست پر براجمان ہو کر اس نے ویڈیو بنائی تھی اور بڑے فخر سے کہا تھا کہ اسے ایسا کرنے سے کسی نے نہیں روکا۔ اس کے علاوہ ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران پاکستانی مردوں کو ہوس زدہ قرار دے کر بڑے دبنگ انداز میں ان کو آئینہ دکھایا تھا اور واضح طور پر کہا تھا کہ یہ اتنے ہوس زدہ ہیں جو قبر میں لیٹی خاتون تک کو نہیں چھوڑتے اس کے علاوہ خواجہ سرا، چھوٹے بچوں حتیٰ کہ جانوروں تک کو نہیں چھوڑتے۔

اب حال ہی میں حریم شاہ نے ایک بھاری رقم کے ساتھ برطانیہ میں ایک ویڈیو بنائی اور بتایا کہ وہ کیسے اتنی بڑی رقم لے کر برطانیہ پہنچ گئی اور اسے کسی نے نہیں روکا اور نہ کسی میں ایسا کرنے کی جرات تھی۔ اب یہ ویڈیو بھی ہمارے انتظامی امور کی بے بسی کی تصویر پیش کرتی ہے اور اب ان کے خلاف کارروائی شروع کرنے کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ یہ بات دعویٰ کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہے حریم شاہ کے جادوئی موبائل میں بڑوں بڑوں کی عزتیں محفوظ ہوں گی جس دن موبائل کا فرانزک ہوا بڑے بڑے ننگے ہو جائیں گے۔ خواتین کے معاشرتی پنڈتوں کو سرعام ننگا کرنے کے اس عمل کے بعد معاشرتی پرہیزگار غصہ میں ہیں اور یوں لگتا ہے جیسے وہ یہ کہنا چاہتے ہوں کہ

”ذات دی کمزور عورت تے فاحشہ فیر وی معاشرتی پرہیزگاراں نوں جھپے“
مطلب اپنی اوقات سے بڑھ کر کوئی بڑا کام سر انجام دینا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments