پاکستانیوں کے ساتھ ہونے والا بڑا کرپٹوکرنسی فراڈ


ایک خبر جو سانحہ مری کے باعث اس لیول پر ڈسکس نہیں ہوئی جس قدر ہونی چاہیے تھی وہ پاکستانی نوجوانوں کے ساتھ گزشتہ دنوں ہونے والا کرپٹو کرنسی فراڈ ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق 9 فیک موبائل ایپلیکیشنز نے کرپٹو کرنسی ٹریڈنگ کی لیڈنگ ایپلیکیشن ”بینانس “ کے ساتھ فیک لنک پیدا کر کے کچھ پاکستانی نوجوانوں سے 100 ملین ڈالرز یا تقریباً 18 ارب روپے کا فراڈ کیا ہے۔ جس میں متاثرین کے ساتھ اوسطاً 2000 ڈالرز فی کس کے حساب سے فراڈ ہوا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اب ایف آئی اے اور دیگر ایجنسیز ایکشن لے رہی ہیں اور بینانس کے پاکستان میں موجود اہلکاروں سے بھی تحقیق و تفتیش کی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بینانس سے یہ درخواست بھی کی گئی ہے کہ وہ اپنی بلاک چین کے ذریعے ملزمان تک پہنچنے میں مدد کرے۔ جس پر بینانس نے بھی تعاون کی یقین دہانی کروائی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ان لوگوں کو بھی شامل تفتیش کیا جا رہا ہے جنہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی مدد سے ان فیک ایپلیکیشنز کو پروموٹ کیا تھا۔

دوسری طرف سندھ ہائیکورٹ میں طویل عرصہ سے زیر سماعت وقار ذکا کی اپیل پر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی ڈپٹی گورنر نے اپنی تفصیلی رپورٹ میں کرپٹو کرنسی کو کسی قسم کی قانونی حیثیت دینے، اسے لیگل ٹینڈر بنانے یا اس کے کاروبار اور اس کے ساتھ ٹریڈنگ کی اجازت دینے سے معذرت کر لی ہے۔ باقی سٹیک ہولڈرز جیسے وزارت خزانہ اور ایف آئی اے وغیرہ نے بھی یہی موقف اپنایا کہ اس بزنس کو قانونی حیثیت نہیں دی جا سکتی۔ جس پر عدالت نے کوئی فیصلہ نہیں کیا اور سماعت اپریل تک ملتوی کر دی گئی ہے۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر فیک ایپلیکیشنز کے ذریعے اس فراڈ کو پروموٹ کرنے والے وہی لوگ ہیں جنہیں میں ”نام نہاد کرپٹو ٹریڈرز“ یا ”شارٹ کٹ مارکھ“ کہتا ہوں، کیوں کہ یہ لوگ مسلسل محنت اور لگن کے ساتھ کام کرنے، نئی سکلز سیکھنے اور پائیدار ترقی کے فلسفہ پر بالکل یقین نہیں رکھتے۔ اس کے برعکس یوٹیوب پر چند کامیاب لوگوں کی ویڈیوز دیکھ کر ان کی کوشش صرف یہ ہوتی ہے کہ کسی طرح راتوں رات امیر اور کروڑ پتی ہوا جائے۔

اب میں اپنے قارئین کو خود کے ساتھ پیش آنے والا ایک واقعہ سنانا چاہتا ہوں۔ میرے بلاگز اور کالمز پڑھنے والے قارئین جانتے ہیں کہ میں نے کچھ ماہ پہلے کرپٹو کرنسی پر بلاگز کی ایک سیریز لکھی تھی جس میں پاکستانی نوجوانوں کو کرپٹو کرنسی کی حرکیات بتانے کے ساتھ میں نے قائل کرنے کی کوشش کی تھی کہ کرپٹو کرنسی کی ٹریڈنگ کی بجائے اپنی توانائی اس کی مائننگ میں لگائی جائے تو ناصرف ذاتی نقصان کا رسک نہیں ہے بلکہ ملک کو زر مبادلہ بھی کثیر مقدار میں حاصل ہو گا۔ اس سے اضافی فائدہ یہ ہوتا کہ بہت سے نوجوان ہنرمند ہو جاتے اور ہو سکتا ہے حکومتی سطح پر بھی پذیرائی ہوتی اور بجلی وغیرہ کی مد میں سپورٹ ملتی۔

یہی سوچ کر میں نے کالم کا ایک حصہ ”نام نہاد کرپٹو ٹریڈرزِ” کے ایک فیسبک گروپ میں نوجوانوں کی رہنمائی کے لئے پوسٹ کر دیا۔ بس پھر کیا تھا کہ بہت سے ”شارٹ کٹ مارکہ“ نوجوانوں نے مجھے جاہل اور کمائی کے جدید علوم سے ناآشنا انسان قرار دیا اور پوسٹ ڈیلیٹ کرنے کا حکم صادر کیا۔ میں نے چونکہ پوسٹ اچھی طرح تصدیق کے بعد شائع کی تھی اس لیے ڈیلیٹ نہ کی۔ مگر ایک سینئر فیلو سے جب ذکر کیا تو انہوں نے بھی یہ کہ کر پوسٹ ڈیلیٹ کرنے کا مشورہ دیا کہ یہ راتوں رات امیر ہونے کے خواب دیکھنے والی کام چور پارٹی ہے۔

ان کو مالی نقصان برداشت کیے بن یا ”ڈبل شاہ“ ٹائپ سکینڈل فیس کیے بن آپ کی باتیں سمجھ نہیں آئیں گی۔ یہ لاجک سن کر میں نے تب پوسٹ تو ڈیلیٹ کر دی مگر اب تقریباً 18 ارب روپے کے مالی نقصان کی خبر سن کر مجھے رتی بھر افسوس نہیں ہوا۔ افسوس ہوا تو صرف اس بات پر کہ عام لوگوں کی رائے میں اور حکومتی سطح پر کرپٹو کرنسی ایک لحاظ سے بدنام ہو گئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments