ابن انشا کے تعاقب میں ، مسٹر مناف سے ملاقات !


یہ کہنا ذرا مشکل ہے کہ ادب ( اور خصوصاً شاعری ) سے شغف رکھنے والوں میں، اس بات کا کتنے لوگوں کو علم ہے کہ ایک تھے شخص مناف میاں۔ البتہ جو یہ جانتے ہیں کہ ایک تھے شخص مناف میاں، ان کے حوالے سے یہ دعوی کرنا بہت آسان ہے کہ جب وہ یہ جانتے ہیں، تو یقیناً یہ مانتے بھی ہوں گے کہ کتنے کمال کے شخص تھے مناف میاں!

اب سوال یہ ہے کہ مناف میاں، کمال کی شخصیت کیوں تھے، یہ جاننے کے لئے ہمیں ایک اور صاحب کمال سے ملنا ہو گا، مگر اس سے پہلے مناسب ہو گا کہ وہ، جو مناف میاں کو نہیں جانتے، ان کے لئے، مناف میاں کا تعارف کرا دیا جائے کہ ایسا نہ کرنا، مناف میاں ( اور ان کے دلچسپ طور اطوار ) سے بھی زیادتی ہوگی اور ان کو نہ جاننے والوں سے، اس سے بھی زیادہ زیادتی۔

مناف میاں ایک ایسی شخصیت، جنہوں نے خود کو خود تنہا کر رکھا تھا۔ اس عالم تنہائی میں موصوف نے اپنے اوپر، جی بھر کے موٹاپا چڑھنے دیا اور ستم در ستم یہ کہ ان کے سر کے بال بھی بے وفا نکلے۔ شادی کی مخالفت کے خبط میں وہ اپنی خاصی عمر، رفتہ بنا چکے تھے اور جبراً ابھی تک کنوارے کہلاتے تھے۔

پھر کسی دن اپنا بگڑتا حلیہ دیکھ کر اور یہ سوچ کر کہ اگر یوں ہی تنہا رہے تو دنیا میں کوئی ان کا نام لیوا نہ ہو گا، ارادہ باندھا کہ ماضی کے دوستوں اور پرانے تعلقات کو چھانتے ہوئے، ایک سے دو ہونے کا اہتمام کیا جائے۔ بس ضد یہ باندھی کہ گھر گر ہستی، خیالوں میں چھائی، متوالی صورت سے مشابہ ہو۔

اس مہم کو آگے بڑھانے کے لئے، انھوں نے شادی شدہ دوستوں کے تجربوں سے یہ راز جاننے کی کوششیں شروع کیں کہ من پسند، کیوں کر ملے، اور پھر، کیسے اسے رام کیا جائے۔ اس تحقیقی (اور کھوجی) سفر میں انھیں شادی شدہ زندگی کے مختلف پہلووں کے بارے میں چشم کشا تجربے حاصل ہوئے۔

یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ مناف میاں کے یہ سارے تجربات، انکشافات اور کمالات ہم تک، ہم سب کے پسندیدہ انشا جی کے توسط سے پہنچے۔ اب سوال پھر یہ ہے کہ مناف میاں، ابن انشا تک کیسے پہنچے یا اسے یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ ابن انشا، میاں مناف تک کیسے پہنچے!

نہیں معلوم، مزاح شناس (اور اس قبیل کے کرداروں کے مزاج شناس) ، ابن انشا نے مناف میاں کو کہاں سے اور کیسے ڈھونڈا مگر یہ کہنا مبالغہ نہ ہو گا کہ انھوں نے اس کردار کو جس سلیقے اور ہنر مندی کے ساتھ مقامی رنگ میں ڈھالا ہے، اگر اس کے جرمن مداح یہ سب، اردو میں سمجھ سکتے، تو وہ اس مغالطے کا شکار ہو سکتے تھے کہ کہیں یہ نظم اردو سے ان کی زبان میں تو منتقل نہیں ہوئی۔

اس تاثر کا آغاز اس نظم کے بنیادی کردار سے ہی شروع ہوجاتا ہے جسے انھوں نے قصہ ایک کنوارے کا عنوان دیا ہے۔ جرمن زبان میں اس کردار کا نام TOBIAS KNOPP تھا مگر ابن انشا کے تخیل کی پرواز دیکھیے کہ وہ جانے کہاں سے اس کی شناخت کے لئے مناف تخلیق کر بیٹھے۔ اس کردار کا جرمن نام وہاں کی ادبی اور ثقافتی روایت میں اس کردار کے لئے شاید موزوں ترین ہو مگر اس کے مصور تخلیق کار  نے تصویری شکل میں اس کردار کا جو حلیہ بنایا ہے اور جو جثہ دکھایا ہے، مناف کا نام دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے اسم با مسمی اسی کو کہتے ہیں۔

Wilhelm Busch

اس رنگا رنگ کردار کے عظیم تخلیق کار ولہلم بش WILHELM BUSCH جرمنی کے نامور اور مقبول ترین قدیم کارٹونسٹ مانے جاتے ہیں۔ شاعری اور نثر نگاری میں بھی انھوں نے خوب نام کمایا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ انھوں نے خود کو شادی کے بکھیڑے سے دور رکھا تھا، اس لئے شاید اس منظوم کہانی میں ان کی فنکارانہ منظر کشی نہایت متاثرکن اور بہت حقیقت پسندانہ دکھائی دیتی ہے۔

دوسری طرف ہمارے ابن انشا تھے جو چاند نگر کے باسی ہوتے ہوئے، اس بستی کے ہر کوچے سے بھی باخبر دکھائی دیتے ہیں۔ وہ اپنے پڑھنے والوں کو تو چین، چلنے کی ترغیب دیتے رہے اور خود مناف میاں کی تلاش میں جرمنی جا پہنچے۔ سیاحت اور آوارہ گردی کے اسی طرز عمل کو غالباً وہ ”دنیا گول ہے“ سے تشبیہ دیتے تھے۔ جبھی تو، نکلے ابن بطوطہ کے تعاقب میں اور جب یہ دیکھا کہ اردو کی پہلی کتاب لکھنا تو اب ممکن نہیں، اپنی نوعیت کی انوکھی ”اردو کی آخری کتاب“ تخلیق کر ڈالی جس کے قاری پر لازم ہے کہ مسکراتے ہنستے کتاب کے نصابی سوالوں کی تردید اور تائید بھی کرے۔

اسی طرح، اس نظم میں جرمن ادب سے تعلق رکھنے والے مناف میاں کی اردو میں کردار سازی، ابن انشا کی ہم جہت ادبی شخصیت کا منہ بولتا شاہکار کہا جاسکتا ہے۔ جس باریک بینی کے ساتھ، ادبی اور لسانی نزاکتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس کردار کو انھوں نے قومیایا ہے، ایسے لگتا ہے جیسے مناف میاں کا کبھی جرمنی سے کوئی تعلق ہی نہ رہا ہو اور یہ ہمارے ہی اردگرد کا کوئی چلتا پھرتا کردار ہو۔

ibne insha

نظم کی ابتدا میں مناف میاں کا تعارف اس قدر دلچسپ اور رواں ہے کہ جی خود بہ خود چاہتا ہے کہ ان کا مکمل احوال سنا جائے :

ایک تھے شخص مناف میاں
شادی کے تھے خلاف میاں
بیس ہوا پھر تیس ہوا
آخر سن چالیس ہوا
جانے کس کے چیلے تھے
اب تک میاں اکیلے تھے
مشکل تھا ان کو سمجھانا
جورو جاتا؟ نا نا نا!

یوں یہ دلچسپ بپتا، اسی خوب صورت اور مزیدار لہجے کے ساتھ آگے بڑھتی ہے اور پڑھنے والے کو اپنے سے الگ ہونے نہیں دیتی :

اس دن تو ٹہلا دی بات
سن لی اور اڑا دی بات
آگے کے حالات سنو
اک دن کی اب بات سنو
دیکھا کیا آئینے میں
ہوک سی اٹھی سینے میں
بولے خود سے مناف میاں
آگا تو تھا صاف میں
اب گدی کے پیچھے بھی
کیسی چٹیل ٹانٹ ہوئی
کہانی کے مختلف مراحل میں ہونے والے واقعات اس قدر پر لطف ہیں کہ پڑھنے والے کی توجہ بٹنے نہیں دیتے :
بھاگ گیا خود تو ملعون
پھٹ گئی حضرت کی پتلون
دیکھ کے ہوا خلاف میاں
بکتے لام اور کاف میاں
کھسکے واں سے مناف میاں

اگر ابن انشا کے کسی مداح یا مزاح سے لگاؤ رکھنے والے نے ابھی تک مناف میاں سے ملاقات نہیں کی تو یقین مانیے ابھی بھی تاخیر نہیں ہوئی کہ یہ نظم اپنے مزاج کے اعتبار سے سدا بہار ہے۔

( جنوری ہی وہ مہینہ ہے جب مسکراہٹ بکھیرنے والے انشا جی، عمر کی نقدی تمام ہونے کا اعلان کر کے، اس شہر عارضی سے کوچ کر گئے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments