عالمی بنک اور آئی ایم ایف کا ”نیو لبرل ازم“


کسی اور شخص کو ”بزرگ“ پکارتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے کیونکہ میں خود بھی بڑھاپے والی عمر میں پہنچ چکا ہوں۔ بہرحال دو دن قبل مجھے ایک ایسے نمبر سے فون آئے چلے جا رہا تھا جو مجھ سے رابطہ کرنے والوں کی فہرست میں شامل نہیں تھا۔ ویسے بھی سوکر اٹھا تھا۔ نظرانداز کرنا مناسب کیا۔ فون کی گھنٹی مگر ایک بار پھر بجی۔ نمبر وہی تھا۔ میرے ہیلو کہنے کے بعد دوسری جانب سے تصدیق مانگی گئی کہ یہ میرا ہی نمبر ہے۔ میں نے اقرار کیا تو دوسری جانب موجود شخص انتہائی شفقت سے مجھے ڈانٹنا شروع ہو گئے۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ وہ کئی برسوں سے میرے باقاعدہ قاری ہیں۔ کچھ دنوں سے انہیں مگر دکھ ہو رہا ہے کہ اس کالم میں خود کو میں تواتر سے ”دوٹکے کا رپورٹر“ لکھ رہا ہوں۔ ایک آڈیو لیک کی وجہ سے میری ذات کے خلاف اچھالے سکینڈل کی بابت میری جانب سے اپنائے پھکڑپن سے بھی وہ نالاں سنائی دیے۔ ہمارے دین کے طے کیے چند اصولوں کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے تلقین کی کہ میری توجہ اپنے بنیادی فریضے یعنی صحافت ہی پر مرکوز رہنا چاہیے۔ بدخواہوں کی دشنام طرازی یہ سوچتے ہوئے نظرانداز کردی جائے کہ ان جیسے کئی قارئین میری تحریرکو سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ مشفقانہ ڈانٹ اور پرخلوص تلقین کے بعد انہوں نے فون بند کر دیا۔ اپنا نام بتانا بھی مناسب نہ سمجھا۔ مجھے البتہ ایک واضح پیغام مل گیا۔

جو تلقین ہوئی اس کا دل سے احترام کرتے ہوئے بھی اس اعتراف کو مجبور ہوں کہ میرا جی اکثر پھکڑپن کو مچل جاتا ہے۔ دوسروں کا مذاق اڑانے کے بجائے اپنی ہی ذات پر جگتیں لگاتے ہوئے رانجھا راضی رکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ معاشرہ ہمارا اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہو چکا ہے۔ عمران خان صاحب کی طرز سیاست سے میں کبھی متاثر نہیں ہوا۔ اس کے بارے میں ثابت قدمی سے تحفظات کا اظہار کرتا رہا ہوں۔ تحریک انصاف کے جنونی متوالوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے حساب برابر کرنے کی مہم چلائی۔ اگست 2018 ء میں ان کی جماعت برسراقتدار آئی تو میں ایک ٹی وی چینل پر ”مالی بوجھ“ بھی ثابت ہو گیا۔ ان دنوں ”پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں“ والا عالم ہے۔ نیشن اور نوائے وقت کے لئے کالم لکھ کر رزق کمانے اور اپنے شعبے میں زندہ رہنے کی کوشش کر رہا ہوں۔

تحریک انصاف کے جنونی متوالوں کے ہاتھوں ہوئی درگت کے باوجود میں اس امر کو مجبور نہیں ہوا کہ ان کی مخالف سیاسی جماعتوں کی حمایت میں ڈٹ کر کھڑا ہوجاؤں۔ سیاسی امور کی بابت رپورٹنگ کے طویل تجربے کی بنیاد پر تواتر سے بلکہ دہراتا رہتا ہوں کہ ہماری تاریخ میں کسی بھی حکومت کو ایسی کمزور اور نئے خیالات سے محروم اپوزیشن کبھی نصیب نہیں ہوئی۔ یہ بڑھکیں لگاتی رہتی ہے اور حکومت ایک ہی دن میں عوام پر بھاری بھر کم ٹیکس لگانے والا بجٹ ہی نہیں بلکہ دیگر 15 قوانین بھی بآسانی منظور کروالیتی ہے۔

اس حقیقت کا دیانت داری سے اس کالم میں ذکر کرو تو اپوزیشن جماعتوں کے حامی مجھ پر مایوسی پھیلانے کا الزام لگانا شروع ہو جاتے ہیں۔ مذکورہ الزام کا میرے پاس فقط ایک ہی جواب ہے اور وہ یہ کہ میں امید ایجاد کرنے کے قابل نہیں۔ سیاسی جماعتیں متحرک اور منظم تحاریک کے ذریعے متبادل کے امکانات دکھاتی ہیں۔ وہ برسرزمین نظر نہ آرہے ہوں تو صحافی کے لئے امید گھڑنا ناممکن ہوجاتا ہے۔

عمران حکومت کی مخالف سیاسی جماعتوں کے چلن پر ٹھنڈے دل سے غور کریں تو سادہ ترین الفاظ میں پیغام یہ ملتا ہے کہ وہ ریاست کے دائمی اداروں میں بیٹھے زمینی خداؤں کو بہت احترام اور اخلاص سے سمجھانا چاہ رہی ہیں کہ ان کی جانب سے عمران خان صاحب کا بطور وزیر اعظم مبینہ انتخاب درست فیصلہ ثابت نہیں ہورہا۔ ہماری خطاؤں کو لہٰذا دل بڑا کرتے ہوئے نظرانداز کیجئے اور نئے انتخاب کے انعقاد کے ذریعے ہمیں ملکی معیشت کو بحال کرنے اور اسے سنوارنے کا موقعہ عنایت کیجئے۔ ان کی یہ التجا پاکستان کے بے بس ولاچار عوام سے ہرگز نہیں ہورہی۔ محض ایک صحافی ہوتے ہوئے میں اس التجا کو اجتماعی فریاد میں تبدیل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔

حقیقی سیاست دان دنیا بھر میں اپنے عوام کو متحرک کرتے ہیں۔ ہم سے بہت دور مثال کے طور پر لاطینی امریکہ کا ایک ملک ہے۔ نا م ہے اس کا چلی۔ 1973 ء میں اس ملک کے ایک دیدہ ور جنرل پنوشے نے امریکہ کی ایما پر وہاں کے منتخب صدر آلندے کو صدارتی محل پر حملے کے بعد ہلاک کیا اور 1990 ء تک اقتدار پر مسلط رہا۔ پنوشے کے 23 سالہ دور اقتدار میں ایسا معاشی نظام مسلط کرنے کی کوشش ہوئی جسے ”نیولبرل ازم“ کہا جاتا ہے۔ اس نظام میں مارکیٹ یعنی منڈی کو کسی معاشرے کی ترقی کا کلیدٹھہرایا جاتا ہے۔ بازار میں ”استحکام“ یقینی بنانے کے لئے شہری حقوق عیاشی تصور ہوتے ہیں۔ لوگوں کے ذہن میں ”تخریبی خیالات“ اجاگر کرنے والوں کو ”مسنگ پرسن“ بنا دیا جاتا ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے بنائے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے اداروں کی خواہش رہی کہ پاکستان جیسے ممالک بھی اپنی ترقی اور خوش حالی کو یقینی بنانے کے لئے چلی میں پنوشے کے متعارف کردہ نظام کی پیروی کریں۔

اس نظام کی بدولت تاہم چلی میں بالآخر یہ ہوا کہ وہاں کی 25 فی صد دولت اور وسائل فقط ایک فی صد پر مبنی اشرافی طبقے کی دسترس میں چلے گئے۔ امیر اجارہ داروں کی کثیر تعداد پنوشے کے فدویانہ حامیوں پر مشتمل تھی۔ معاشی عدم مساوات ناقابل برداشت ہونا شروع ہوئی تو چلی میں احتجاجی تحاریک کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس کے بعد اقتدار میں باریاں لینے والے سیاستدانوں نے تاہم ”نیولبرل ازم“ والے اقتصادی نظام کے بنیادی اصولوں کو تبدیل کرنے کی جرات نہیں دکھائی۔ آج سے دس برس قبل مگر مفت اور اعلیٰ تعلیم کو یقینی بنانے کے لئے طلبہ کی ایک تحریک کا آغاز ہوا۔ اس کی بدولت گبرائیل بورک نامی ایک نوجوان متبادل قیادت کی صورت ابھرنا شروع ہوا۔ چند ہی ہفتے قبل وہ براہ راست صدارتی انتخاب کی بدولت چلی کی تاریخ کا سب سے کم عمر صدر منتخب ہو گیا ہے۔ عمر اس کی 35 سال ہے۔ اس نے چلی کی تاریخ میں اپنی حمایت میں ریکارڈ سازووٹ بھی حاصل کیے ہیں۔

گبرائیل بورک کی حیران کن کامیابی نے امریکہ میں دنیا کی رہ نمائی کو اپنے تئیں متعین ہوئے کئی طاقت ور حلقوں کو پریشان کر دیا ہے۔ چلی میں جولہر ابھری ہے اس کا اثر وہ برازیل کی جانب مڑتا ہوا دیکھ رہے ہیں جو آبادی کے اعتبار سے لاطینی امریکہ کا سب سے بڑا ملک ہے۔ 2002 ء میں وہاں لولادی سلوا نامی ایک رہ نما ابھرتھا۔ وہ غریبوں کا پرجوش حامی تھا۔ اس نے کم آمدنی والے طبقات کی مدد کے لئے ریاست کی جانب سے نقد رقم دینے کی وہ سکیم متعارف کروائی تھی جو ہمارے ہاں ”بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام“ کی صورت لاگو ہوئی۔ ان دنوں اسے ”احساس پروگرام“ کہا جاتا ہے۔

لولادی سلوا کی غریب پروری سے اکتا کر برازیل کی اشرافیہ اس کے خلاف یکسوہوکر متحرک ہو گئی۔ اس کے خلاف کرپشن کے الزامات لگے۔ برازیل کی سپریم کورٹ نے اسے جیل بھیج دیا۔ بعد ازاں مگر دریافت یہ ہوا کہ سپریم کورٹ طاقت ور حلقوں کی جانب سے آئے ”واٹس ایپ“ پیغاموں کا اتباع کر رہی تھی۔ لولا اب جیل سے باہر آ کر دوبارہ متحرک ہو چکا ہے۔ اپریل میں اس کے ملک میں صدارتی انتخاب ہونا ہے۔ سروے بتارہے ہیں کہ اس کا بھاری اکثریت سے صدارتی منصب پر لوٹنا یقینی ہے۔

لولا کے برازیل کے صدارتی منصب پر لوٹنے کو ناممکن بنانے کے لئے سابق امریکی صدر ٹرمپ کے بے تحاشا مالدار حامی بھی اب متحرک ہوچکے ہیں۔ انہیں یہ خوف لاحق ہے کہ امریکہ کے پچھواڑے میں واقعہ لاطینی امریکہ کے سب سے بڑے ملک میں اگر لالو جیسا غریب پرور بھاری اکثریت سے ایک بار پھر صدر منتخب ہو گیا تو دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ایسے رہ نماؤں کی کشش بڑھ جائے گی۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کا لاگو کیا ”نیولبرل ازم“ نئی لہر کی وجہ سے اپنا وجود برقرار نہیں رکھ پائے گا جس کی بدولت امیر امیر سے امیر تر اور غریب غریب سے غریب تر ہو رہے ہیں۔ عمران حکومت اس تناظر میں خوش نصیب ہے کیونکہ ہمارے ہاں گبرائیل بورک جیسا کوئی اولعزم نوجوان موجود نہیں۔ نہ ہی کوئی لولا جیسا غریب پرور ہے جس کی اقتدار میں واپسی کا بے چینی سے انتظار ہو رہا ہو۔
بشکریہ نوائے وقت۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments