کیا آپ نے کبھی اپنے بچوں کے ساتھ سنو مین بنایا ہے؟


میں نے اپنے پاکستانی دوست جان محمد سے پوچھا کہ آپ پچھلے دس برس سے کینیڈا میں رہ رہے ہیں کیا آپ نے کبھی اپنے بچوں کے ساتھ سنو مین بنایا ہے؟

جان محمد نے مجھے پہلے تو ایسے گھور گھور کر دیکھا جیسے میں کسی اور سیارے کی مخلوق ہوں پھر وہ زور زور سے ہنسا اور کہنے لگا

’ڈاکٹر صاحب آپ بھی عجیب مذاق کرتے ہیں۔ میں تو کینیڈا کی برف سے گھبراتا ہوں‘ ڈرتا ہوں ’خوف زدہ رہتا ہوں‘

’ آپ کس بات سے گھبراتے ہیں؟‘ میں متجسس تھا۔
’ڈاکٹر صاحب جب صبح کے وقت بیڈ روم کی کھڑکی سے برف نظر آتی ہے تو میں سر کھجاتے ہوئے سوچنے لگتا ہوں
پہلے اوور کوٹ پہننا ہو گا
پھر مفلر لپیٹنا ہو گا
پھر برف کے بوٹ پہننے ہوں گے
پھر دستانے پہننے پڑیں گے
پھر بیلچے سے ڈرائیو وے صاف کرنی ہوگی اور
پھر سکریپر اور برش سے گاڑی پر جمی برف صاف کرنی ہوگی۔

ڈاکٹر صاحب میں اس بات سے خوف زدہ رہتا ہوں کہ اگر پاؤں پھسل گیا تو کہیں سر بازو یا ٹانگ کی ہڈی نہ ٹوٹ جائے اور میں دس ہفتوں کے لیے پلستر لگا کر معذور نہ ہو جاؤں۔ ’

میں نے جان محمد کو بتایا کہ میری کینیڈین دوست جنیفر ساری گرمیاں برف کا انتظار کرتی رہتی ہے اور پہلی برف باری پر گاتی ہے ناچتی ہے جشن مناتی ہے۔ میں نے جشن منانے کی وجہ پوچھی تو کہنے لگی

اب میں سکیینک کروں گی بچوں کو لے جا کر سکیٹنگ کراؤں گی۔ ٹوبوگننگ کراؤں گا۔ آئس ہاکی کھلاؤں گی اور سب سے زیادہ مزے کی بات یہ کہ بچوں کے ساتھ سنو مین بناؤں گی۔

جان محمد نے کہا یہ سب ہمارے بس کی بات نہیں۔

میں نے سوچا کہ زندگی کتنی دلچسپ ہے۔ جو برف جان محمد کو ناخوش کرتی ہے وہی برف جنیفر کو خوش کرتی ہے۔ ایک برف سے دور بھاگتا ہے ایک اسے گلے لگاتا ہے۔

کینیڈا آنے سے پہلے تو ہمیں یہ بھی پتہ نہ تھا کہ برف کئی قسم کی ہوتی ہے۔ ہم تو بس بچپن میں گرمیوں کے موسم میں شکنجبین میں برف ڈال کر پیتے تھے۔ وہ برف جو کارخانے میں بنتی تھی۔ ہم نے کبھی آسمان سے برف گرتی نہ دیکھی تھی۔

پھر پتہ چلا کہ برف کے روئی کی طرح گالے سنو فلیکس کہلاتے ہیں۔ سنو جم جائے تو آئس اور بارش کے ساتھ آئے تو فریزنگ رین کہلاتی ہے۔

میں نے زندگی میں پہلی بار آسمان سے برف کے روئی کی طرح مرغولے گرتے دیکھے تو اس منظر سے اتنا مسحور ہوا کہ اس وقت تک برف میں کھڑا رہا کہ سارے کپڑے ہی نہیں کالی داڑھی بھی سفید ہو گئی اور چہرے پر چند لمحوں کے لیے مصنوعی بزرگی آ گئی۔

آج کینیڈا میں سترہ جنوری 2022 ہے اور کل ساری رات اتنی زیادہ برف گرتی رہی ہے کہ صبح اٹھ کر دیکھا تو چاروں طرف برف کی پہاڑیاں نظر آئیں۔ میری سیکرٹری مارسلینا نے صبح سویرے فون کیا کہ اس کی گاڑی برف میں دب گئی ہے وہ کلینک نہیں آ سکتی۔

میں نے سوچا کہ مجھے کوئی مسئلہ نہ ہو گا کیونکہ میری گاڑی رات کو گرم و سرد زمانہ سے بے نیاز بڑے سکون سے انڈر گراؤنڈ پارکنگ میں سوتی ہے۔ لیکن وہ میری خوش فہمی تھی۔ میں نے گاڑی انڈر گراؤنڈ پارکنگ لاٹ سے نکالی تو وہ ریمپ سے تو نکل گئی لیکن پہاڑی کی چوٹی پر پہنچ کر برف میں دھنس گئی۔ نہ آگے جائے نہ پیچھے آئے۔ مسئلہ یہ تھا کہ میری گاڑی نے نہ صرف سڑک بلاک کر دی تھی بلکہ پارکنگ لاٹ کا انٹرنس اور ایگزٹ بھی بلاک کر دیے تھے جس کا مطلب یہ تھا کہ میرے ہمسائے میں رہنے والے سینکڑوں شہری جو سو بلڈنگوں میں رہتے تھے اور انڈر گراؤنڈ میں اپنی گاڑیاں پارک کرتے تھے نہ باہر جا سکتے تھے نہ اندر آ سکتے تھے۔

میں چند منٹ گاڑی میں بیٹھا سوچتا رہا اور حالات کی ستم ظریفی پر مسکراتا رہا۔
پھر مجھے ایک اجنبی ہمسائے راہ چلتے دکھائی دیے۔ میں نے انہیں مدد کے لیے پکارا اور کہا
محترم! کیا آپ میری مدد کر سکتے ہیں؟

’ضرور کیوں نہیں‘ کہہ کر وہ میری طرف بڑھے۔
قریب آئے تو پتہ چلا کہ وہ محترم نہیں محترمہ ہیں۔

میں اپنے چالیس سالہ تجربے کی بنیاد پر بڑے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اکثر کینیڈین ہمدرد اور دوست منش انسان ہیں۔ میں نے پہلے انہیں گاڑی میں بیٹھنے کو کہا اور میں نے گاڑی کو پیچھے کی طرف دھکا دیا کہ وہ واپس انڈر گراؤنڈ چلی جائے۔

پھر وہ محترمہ کچھ گھبرائیں کہ کہیں میری سرخ مزدا گاڑی دیوار سے نہ ٹکرا جائے۔ چنانچہ میں گاڑی میں بیٹھا اور محترمہ نے دھکا لگایا اور چند منٹوں کے لیے گاڑی کو آگے پیچھے کرنے کی کوشش سے ہم نے مل کر گاڑی کو برف کے بھنور سے باہر نکالا میں نے گاڑی کا رخ موڑا اور اسے انٹرنس سے دوبارہ انڈر گراؤنڈ پارکنگ میں لے جا کر پارک کر دیا۔

کچھ دیر کے بعد برف صاف کرنے والے آئے اور انہوں نے بڑے سلیقے سے سڑکوں کو صاف کر دیا اور برف کو کناروں کی طرف دھکیل دیا۔

جب میں سیر کرنے نکلا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہی ہمسائی جس نے صبح میری مدد کی تھی وہ اپنے بچوں کے ساتھ سنو مین بنا رہی تھیں۔ بچے خوشی سے ہنس رہے تھے۔ اس ہمسائی نے میرا تعارف بچوں سے کروایا اور صبح کی کہانی سنائی۔ بچے اس کہانی سے بہت محظوظ ہوئے۔ وہ مسکراتے ہوئے مجھ سے پوچھنے لگے کہ آپ کہاں رہتے ہیں؟ میں نے ہمسائی سے کہا کہ اسے بچوں کے ساتھ کھیلتے اور برف سے لطف اندوز ہوتے دیکھ کر مجھے اپنی پرانی نظم۔ سنو مین۔ یاد آ گئی ہے۔ میں نے کہا کسی دن بچوں کو لے کر میرے گھر آنا میں آپ لوگوں کو ہاٹ چاکلیٹ بھی پلاؤں گا اور نظم بھی سناؤں گا۔ کہنے لگی اب ہم دونوں سنو سٹارم فرینڈز بن گئے ہیں۔

سنو مین والی نظم آپ بھی سن لیجیے جو مہجری ادب کا حصہ ہے۔

(وہ مہجری ادب جس کی عمارت روایتی نوسٹلجیا پر نہیں بلکہ غیر روایتی کینیڈین تجربوں اور مشاہدوں کی بنیادوں پر استوار ہوتی ہے۔ )

سنو مین
شہر کے کھیلتے کودتے ننھے منے سے بچوں نے مل کر مجھے
برف کی اک پہاڑی سے کاٹا
تراشا
مرے ہاتھ پاؤں سجائے
مجھے برف کے چھوٹے چھوٹے سے گولوں سے مضبوط کر کے
بڑے پیار سے
ایک چوراہے پہ لا کر کھڑا کر دیا
مجھ سے کچھ دیر اٹکھیلیاں
دل لگی کا بہانہ بنیں
اور پھر
جانے کیوں
چند بچوں کے ابرو اٹھے
شور و غوغا ہوا
میرے سر میرے پاؤں مرے جسم کے
چند گولے بنے
اور گولوں کو بچوں نے معصوم ہاتھوں سے خود
ایک اک کر کے اڑتی ہوا کے حوالے کیا۔
۔ ۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail