صدارتی نظام کی حقیقت



گزشتہ کچھ سالوں سے پاکستان میں صدارتی نظام کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ پچھلے ساڑھے تین سالوں میں یہ بحث بہت زیادہ ہوئی ہے اور ہر سال ایک ایسا موقع آتا ہے جب افواہیں گردش کرتی ہیں کہ موجودہ نظام کے لپیٹنے کی تیاری ہو چکی ہے۔

پاکستان نے اپنا زیادہ وقت یا تو مارشل لاء کی صورت میں گزارا ہے یا پھر ٹو پارٹی سسٹم نافذ رہا ہے۔ بار بار نظام بدلتا رہا۔ نہ تو صدارتی نظام اپنی اصلی حالت میں نافذ ہو سکا اور نہ ہی پارلیمانی نظام مکمل جمہوری ہو سکا۔ ایک طرف آمریت رہی جبکہ دوسری جانب دو پارٹیاں ملک پہ قابض رہیں۔ ملک کے تمام بڑے طاقتور خاندان ان دونوں پارٹیوں سے مل کر ملک کے نظام پہ حاوی ہو گئے۔ یوں ہمارا نظام مفاد پرستانہ ہوتا گیا۔ یہاں جمہوری قدریں پھل پھول نہ سکیں۔

پاکستان تحریک انصاف ایک نئے نعرے کے ساتھ میدان میں اتری تاہم 2013 کی شکست کے بعد اس نے بھی انھی الیکٹ ایبلز کا سہارا لیا اور اگلا الیکشن جیت لیا۔ دیکھا جائے تو پاکستان تحریک انصاف کے اندر بھی بہت بڑی تعداد میں وہی لوگ موجود ہیں جو اس نظام پہ حاوی رہے ہیں۔ اقتدار کسی بھی پارٹی کا آ جائے، عنان اقتدار انھی لوگوں کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔ پی ٹی آئی تبدیلی کے نعروں کے باوجود انھی لوگوں کے ہاتھ میں یرغمال ہو کر رہ گئی ہے۔ عوامی نمائندوں کی وہی عیاشیاں اب بھی جاری ہیں۔ سب کو خوش رکھنے کے چکر میں وزرا اور مشیروں کی ایک پوری فوج رکھنی پڑی ہے۔

موجودہ حکومت نے اگر چہ ملک کے لیے کئی ویژنری پالیسیاں شروع کی ہیں اور کئی شعبوں میں قابل فخر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے جو آنے والے وقت میں پاکستان کو معاشی اور سفارتی سطح پہ زبردست کامیابیاں دلائے گا تاہم پی ٹی آئی اپنے احتساب اور نظام کی بہتری کے بنیادی نعرے پہ عمل درآمد کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ پولیس اور عدلیہ میں ہونے والی اصلاحات اس قابل نہیں کہ وہ عوامی مسائل حل کر پائیں اور نظام بدلا ہوا محسوس ہو۔ عوام اس لحاظ سے پہ ٹی آئی سے مایوس نظر آ رہی ہے۔ ایسے میں پھر سے صدارتی نظام کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔

صدارتی نظام کے حامیوں کا خیال ہے کہ پاکستان میں صدارتی نظام نافذ کرتے ہی تمام مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے۔ ملک کا نظام انصاف آئیڈیل ہو جائے گا۔ کرپشن کا خاتمہ ہو جائے گا۔ تمام ادارے ٹھیک ہو جائیں گے بلکہ ایسا تاثر دیا جاتا ہے کہ پاکستان کے تمام مسائل کا حل صدارتی نظام میں ہے۔

پاکستان کے مسائل کی جڑ پارلیمانی یا صدارتی نظام نہیں ہے بلکہ جمہوری قدروں کا نہ پنپنا ہے۔ اصولی طور پر یہ دونوں جمہوری نظام ہیں لیکن کوئی نظام بھی اپنی اصلی حالت میں نافذ العمل نہیں ہو سکا۔ صدارتی نظام کے نفاذ سے الیکٹ ایبلز کا مسئلہ تو حل ہو سکتا ہے، چھوٹی اور کارآمد کابینہ بھی بن سکتی ہے لیکن قانون سازی تو پارلیمنٹ نے کرنی ہوتی ہے۔ اگر پارلیمنٹ میں انہی لوگوں کو دوبارہ چن کر بھیجا جانا ہے تو پھر صدارتی نظام بھی کچھ خاص فرق نہیں ڈالے گا۔

پارلیمانی نظام کی ایک خامی یہ سمجھی جاتی ہے کہ یہاں وزیر اعظم کو ہر وقت اپنی کرسی کا خدشہ لاحق رہتا ہے۔ پارلیمنٹ میں کسی وقت بھی تحریک عدم اعتماد لائی جا سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم کو ایم این ایز کی حمایت درکار رہتی ہے۔ ان کو خوش کرنے کے لیے وزیر اعظم انھیں عہدے بھی دیتا ہے۔ جس پارٹی کے ساتھ اتحاد ہوتا ہے وہ بھی بلیک میل کرتی رہتی ہے۔ اس صورت میں اپنی پارٹی کے ممبرز اور اتحادی پارٹیوں کے ارکان کا احتساب کرنا ممکن نہیں رہتا۔

اس میں کافی حد تک سچائی بھی ہے اور یہی اس نظام کی اصلی خامی ہے تاہم دوسری جانب یہ ایک خوبی بھی ہے۔ اس صورت میں وزیر اعظم عوامی نمائندوں کو جوابدہ رہتا ہے۔ اسے پانچ سال تک مزے سے اپنے طریقے سے اقتدار کا موقع نہیں ملتا بلکہ ایسی صورت میں پارلیمنٹ اسے ہٹا سکتی ہے۔ موجودہ پارلیمانی نظام کی وجہ سے صدر کے اختیارات محدود ہو چکے ہیں۔ اٹھاون ٹو بی جیسی شق کا خاتمہ ہو چکا ہے لہذا صدر نظام کو لپیٹ نہیں سکتا۔

نئے قوانین کے تحت پارٹی ارکان کے لئے سیاسی وفاداری تبدیل کرنا بھی آسان نہیں رہا۔ ایسے میں پارلیمانی نظام میں مسلسل بہتری آ رہی ہے۔ جہاں تک صدارتی نظام کا تعلق ہے، وہ نہ تو کسی بڑی سیاسی پارٹی کا مطالبہ ہے، نہ ہی اس کا نفاذ موجودہ حالات میں ممکن ہے اور نہ ہی کوئی اس بارے میں سنجیدہ ہے۔ لہذا یہ بازگشت غیر اہم ہے۔

پاکستان ایک تجربہ گاہ ہے اور اس میں ہر طرح کے تجربے ہوتے رہتے ہیں۔ ہم نے بہت شروع کے تجربات سے سمجھ لیا تھا کہ ہمیں پارلیمانی نظام ہی نافذ کرنا ہے۔ جب پہلی دفعہ ایوب خان نے صدارتی نظام نافذ کیا تو اس کی سخت مخالفت کی گئی تھی۔ محترمہ فاطمہ جناح نے الیکشن ہی پارلیمانی نظام کے نفاذ کے نام پر لڑا تھا۔ اس کے بعد 1971 کے الیکشن کے بعد بھی پارلیمانی نظام کے نفاذ کی تیاریاں کی جا رہی تھیں کیونکہ صدارتی نظام ایک خاص طبقے کو نواز رہا تھا تاہم ملک کے ٹوٹ جانے کی وجہ سے کوئی لائحہ عمل نہ بن سکا۔

1973 میں تمام پارٹیوں کی مشترکہ رائے سے پارلیمانی نظام کو اپنایا گیا۔ مارشل لاء کے ادوار میں پھر سے سخت گیر صدارتی نظام نافذ رہا ہے تاہم قومی دھارے کی کسی سیاسی پارٹی کا مطالبہ صدارتی نظام نہیں رہا۔ صدارتی نظام کی صورت میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب کو زیادہ فائدہ ہو گا لہذا اس سے باقی صوبوں میں احساس محرومی بڑھ سکتا ہے۔ ایسے میں کوئی جماعت بھی اس نظام کے حق میں نہیں ہے۔

اگر نظام بدلنا ہے تو عوام کے اندر شعور کو بیدار کرنا ہو گا۔ عوام کو اپنے نمائندے چنتے ہوئے ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھنا ہو گا۔ جب پارلیمنٹ میں حقیقی عوامی نمائندے پہنچیں گے تو نظام خود بخود بدل جائے گا ورنہ جو پچاس لاکھ لگا کر پہنچے گا، وہ اسے پورا کیے بغیر عوامی مفاد کو مقدم رکھنے سے تو رہا۔ اٹھارہویں ترمیم کے تحت صوبوں کو بہت زیادہ اختیارات دے کر وفاق کو تقریباً بے اختیار کر دیا گیا ہے۔ صوبوں کی کارکردگی اور وفاق کو درپیش مسائل کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ وفاق کو مضبوط بنانا پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔

اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کا یہ مطلب نہیں کہ تعلیم و صحت جیسے اہم شعبے بھی صوبوں کے سپرد کر دیے جائیں۔ نچلی سطح تک منتقلی بھی ایک ڈھونگ ہے کیونکہ صوبوں نے یہ اختیارات مقامی حکومتوں تک پہنچنے ہی نہیں دیے۔ پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی اس بدانتظامی کی جیتی جاگتی تصویر ہے جہاں میئر کو کچرا تک اٹھانے کے اختیارات نہ مل سکے۔ بالآخر وفاق کو آگے آنا پڑا۔ مقامی حکومتوں تک اختیارات کی عدم منتقلی سے مرکز کے نیچے الگ الگ مرکز بن چکے ہیں۔

اس کے علاوہ صوبے آج بھی کل ملکی آمدنی میں سے اپنے ذرائع سے صرف دس فیصد خرچ کرتے ہیں۔ اوپر سے صوبے کا ٹیکسیشن نظام بھی کمپرومائزڈ ہے۔ یہ جی ڈی پی کا صرف 1.1 فیصد ٹیکس اور نان ٹیکس ریونیو دیتے ہیں۔ صوبائی بجٹ میں ترقیاتی بجٹ صرف بیس فیصد ہوتا ہے باقی بوجھ وفاق اٹھاتا ہے۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں ایک تو اختیارات کو حقیقی معنوں میں نچلی سطح تک منتقل کرنا ہے اور دوسرا صوبوں کے اختیارات کم کر کے وفاق کو حقیقی معنوں میں مضبوط بنانا ہے۔ اس کے لیے کسی الگ نظام حکومت کی چنداں ضرورت نہیں۔

صدارتی نظام کا چرچا کرنے والے ساتھ مذہب کا تڑکا لگاتے ہیں اور اسلامی صدارتی نظام کے نعرے لگاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسا کوئی نظام نہیں ہے۔ اسلامی نظام کا صدارتی یا پارلیمانی نظام سے کوئی تعلق نہیں۔ اسلام نے کسی فکس نظام کی نشاندہی نہیں کی۔ اسلام تمام اقلیتوں اور اکثریت کے حقوق کو محفوظ رکھتے ہوئے ایک منصفانہ نظام کا مبادلہ کرتا ہے جو فلاح، رحم، عدل و انصاف اور ترقی پسند ہو۔ پاکستان میں شریعت کے نفاذ کا نعرے لگانے والی جماعتیں جب بھی اقتدار میں آئی ہیں، انھوں نے اسی نظام کو فالو کیا ہے۔

نہ تو ایم ایم اے خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت کی صورت میں کوئی آئیڈیل نظام پیش کر سکی اور نہ ہی ماضی میں مذہب کو سیاسی ہتھیار بنا کر بینظیر کے خلاف نفاذ شریعت کے نعرے لگانی والی نون لیگ وفاق میں ایسا کچھ کر پائی ہے۔ شریعت کا نفاذ انسانوں پہ ہوتا ہے۔ ریاست زبردستی لوگوں کی طرز زندگی نہیں بدل سکتی۔ اس کا کام منصفانہ نظام انصاف کی فراہمی اور متوازن معاشی نظام دینا ہے جو قوم و ملک کے وسیع مفاد میں ہو۔ لہذا نظام صدارتی ہو یا پارلیمانی کوئی فرق نہیں پڑتا۔

اس وقت صدارتی نظام کی بحث فضول ہے۔ کوئی جماعت نہ تو اس نظام کے حق میں ہے اور نہ ہی قومی دھارے کی کوئی جماعت اس وقت اس نظام کو نافذ کرنے کی حالت میں ہے۔ نئے نظام کے نفاذ کے لیے پارلیمنٹ کی دو تہائی اکثریت درکار ہے۔ اسمبلیاں تحلیل کر کے عوامی ریفرنڈم بھی ایک حل ہے لیکن اس کے حق میں بھی کوئی جماعت نہیں ہے۔ پارلیمنٹ میں ابھی تک اس موضوع پہ کوئی بحث نہیں ہوئی لہذا سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پہ چلنے والی بحث خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں۔ سب سے بڑے بھولے بادشاہ وہ ہیں جو ایک تیسرے نظام ”اسلامی صدارتی نظام“ کے راگ الاپ رہے ہیں۔ یقیناً یہ طبقہ زمینی حقائق کو نظر انداز کر رہا ہے۔ قصہ مختصر فی الوقت موجودہ پارلیمانی نظام کے اندر خرابیوں کو دور کیا جائے اور جمہوری قدروں کو فروغ دیا جائے بصورت دیگر کوئی نظام بھی ملک کو ٹھیک نہیں کر سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments