انعام یافتہ فوٹوگرافر کی خودکشی


یہ 1993 کا واقعہ ہے کہ جب مشہور فوٹوگرافر کیون کارٹر ( Kevin Carter) کو ساتھی فوٹوگرافر رابرٹ ہیلی نے پیشکش کی کہ وہ اقوام متحدہ کی ٹیم کے ساتھ سوڈان چلے اور سوڈان میں قحط کی صورتحال کی تصویر بندی کرے۔

کیون کارٹر ساوتھ افریقہ کا رہنے والا تھا۔ اسے جب یہ پیشکش موصول ہوئی تو پہلے وہ ہچکچایا کیوں کہ جنوبی سوڈان اس وقت شدید خانہ جنگی کا شکار تھا۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو عوام کی پرواہ نہیں تھی اور اس کے نتیجے میں جنوبی سوڈان میں انتہائی درجے کی خوراک کی کمی واقع ہو گئی۔ آپس کی لڑائی میں صحافی اور ان کی ٹیمیں بھی محفوظ نہیں تھیں۔

لوگ اور بچے سینکڑوں کی تعداد میں مرنے لگے۔ اقوام متحدہ نے اپنے کیمپ لگائے اور تھوڑی بہت خوراک کا انتظام کیا جو کہ نا کافی تھا۔ اسی لئے اقوام متحدہ نے کچھ صحافیوں اور کیون کارٹر جیسے فوٹوگرافرز کا انتظام کیا جو ان حالات کی منظر کشی کریں اور دنیا کو حالات کی سنگینی سے آگاہ کریں۔ کیون نے آخر کار سوڈان جانے کا فیصلہ کر لیا۔

مختلف جگہوں اور مقامی لوگوں کی تصویریں لیتے لیتے، کیون کارٹر کو ایک دن ایک ویران جگہ پر ایک بچہ دکھا جو ہلکے ہلکے زمین پر رینگ رہا تھا اور پھر تھوڑی دیر بعد وہ تھک کر گر گیا۔ اس بچے کے تن پر کوئی لباس نہ تھا اور جسم پر گوشت نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ اچانک کیون کارٹر نے دیکھا کہ ایک بہت بڑا گدھ اس بچے کے قریب آ کر بیٹھ گیا ہے۔ گدھ انتظار کر رہا ہے کہ کب بچہ دم توڑے اور کب وہ اسے نوچنا شروع کرے۔

کیون کارٹر تیزی سے ایک جگہ پوزیشن لے کر بیٹھ جاتا ہے اور بیس منٹ تک اس گدھ کے پر کھولنے کا انتظار کرتا ہے تاکہ مرتے ہوئے بچے کی ایک مکمل تصویر لے سکے۔ کیون اور انتظار نہ کر سکا کیونکہ اس کو کافی دیر ہو چکی تھی لہذا اس نے بچے کی تصویر لی جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ گدھ اس کے مرنے کا انتظار کر رہا ہے۔

کیون کی یہ تصویر نیو یارک ٹائمز میں 1993 میں شائع ہوئی اور چند ہی دنوں میں یہ دنیا کی توجہ کا مرکز بن گئی۔

کیون کی اس تصویر کو 1994 میں فوٹوگرافی کی دنیا کا سب سے بڑا انعام یعنی پلیٹزر ایوارڈ سے نوازا گیا اور اس کو ہر طرف سے مبارکباد کے پیغامات آنے شروع ہو گئے۔ یہ تصویر ابھی بھی اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر میں لگی ہوئی ہے۔

کیون کارٹر خود لکھتا ہے کہ اس کے دوستوں نے اس سے پوچھا کہ تصویر لینے کے بعد اس نے کیا کیا؟ جواب میں اس نے اپنے دوستوں کو بتایا کہ تصویر لینے کے بعد اس نے سگریٹ سلگائی، خدا سے بات کی اور پھر وہ بہت رویا۔

کیون کو دنیا بھر میں تعریفی کلمات سے نوازا گیا۔ اس کے ہنر اور کام کی تعریف کی گئی۔ اس کے دوستوں نے اس سے پوچھا کہ تم نے اس بچے کی مدد کیوں نہیں کی؟ کیون نے جواب دیا میں کتنے بچوں کو اٹھا کر اقوام متحدہ کے کیمپ تک جا سکتا تھا؟

ایوارڈ ملنے کے تھوڑے عرصے بعد کیون کارٹر کو ایک خط موصول ہوا جس میں اس کی اس تصویر کے ساتھ بھیجنے والے نے لکھا تھا ” مجھے اس تصویر میں ایک نہیں دو گدھ نظر آ رہے ہیں“

کیون کارٹر نے پھر کچھ ہی ہفتے بعد خودکشی کر لی۔ اس کی عمر صرف 33 سال تھی!

اسی طرح 2015 میں ترکی کے ساحل پر ایک تین سالہ بچے کی لاش کی تصویر نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا جس کے بعد ترکی، جرمنی اور یورپ کے دیگر ملکوں نے شامی مہاجرین کے لئے اپنی سرحدیں کھول دی تھیں۔

کبھی کبھی سمندر بھی رو پڑتا ہے۔ اس دن ایسا ہی ہوا۔ سمندر بھی اس دکھ کو سمو نہیں پایا اور اس نے بچے کی لاش ساحل پر رکھ دی۔

کہتے ہیں کہ اس تین سالہ بچے کے آخری الفاظ یہ تھے
” میں اپنے خدا کو سب کچھ بتاؤں گا“
I am gonna tell God everything

(ایلان کردی کی لاش ملی تھی۔ اس کے آخری الفاظ محفوظ کرنے والا کوئی شخص موجود نہیں تھا۔ یہ الفاظ ایک اور شامی بچے سے سوشل میڈیا پر منسوب کیے گئے تھے مگر اس کی تصویر اتارنے والے فوٹوگرافر نے بتایا تھا کہ اس بچے نے ایسے کوئی الفاظ نہیں کہے تھے: مدیر)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments