سڈنی پوٹیئر ۔ نسلی تفریق کے خلاف لڑنے والا عظیم اداکار


پوری دنیا بالخصوص امریکی فلمی دنیا ہالی ووڈ کے لیے 6جنوری 2022 ء کا دن یادگار قرار پایا ہے کہ جب 94سالہ عظیم اداکار سڈنی پوٹئیر نے لاؤس انجلس (کیلی فور نیا) میں اپنی آخری سانسیں لیں۔ اس قد آور سیاہ فام اداکار نے امریکہ کی فلمی دنیا میں اس وقت قدم رکھا کہ جب امریکہ میں نسلی تفریق کے لاگو جم کرو قوانین کے خلاف قوم شہری حقوق کی تحریک جاری تھی۔ کالوں کو معمولی بات پہ درختوں سے لٹکا کے مارنے اور انکے ساتھ ہر شعبہ میں انتہائی غیر انسانی رویہ عام تھا۔

ایسے میں ایک سیاہ فام فنکار روشنیوں کے شہر میں پوری آب و تاب سے اجاگر ہوتا ہے اور اپنی اداکاری سے پردہ اسکرین پہ وہی فریضہ انجام دیتا ہے جو سول رائٹس (شہری حقوق ) تحریک میں مارٹن لوتھر کنگ، مالکم میکس، روزا پارک اور جیکی رابنسن جیسے لوگوں نے انجام دیا۔ سڈنی پوٹئیر امریکی سینما کی تاریخ کے پہلے سیاہ فام ایفرو امریکی اداکار تھے جنہوں نے 1964ء میں بہترین مرد اداکار کا آسکر ایوارڈ حاصل کر کے تاریخ رقم کی۔

سڈنی پوئیٹر کی فنکارانہ زندگی ایک مشکل سفر ضرور تھی لیکن سچائی، ثابت قدمی، لگن اور انسانی اصولوں کو اپناتے ہوئے انہوں نے آنے والوں کالے اور افرو امریکی اداکاروں کی راہیں اجال دیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ سڈنی پوٹئیر کے والدین کا تعلق امریکہ سے نہیں بلکہ ملک بہامہ کے شہر کیٹ آئرلینڈ سے تھا۔ جہاں سے ان کے کسان والدین اپنی فصل کے ٹماٹر بیچنے میامی فلوریڈا آیا کرتے تھے۔ خلاف توقع اسی دوران ان کی اولاد کی پیدائش متعین وقت سے تین ماہ قبل ایک گھر میں ہی ہو گئی۔ دائی نے کمزور سانسیں لیتے بچے کی زندگی سے مایوسی کا اظہار کیا۔ ان کے باپ نے تو بچے کی لاش کو جوتے کے ایک ڈبے میں دفنانے کا انتظام بھی کر لیا۔

جس پر بچے کی ماں اس قدر ناراض ہوئی کہ مدد کے لیے اکیلے ہی گھر سے نکل گئی مدد تو نہ ملی البتہ ایک قسمت کا حال بتانے والی عورت نے پیشن گوئی کی کہ یہ بچہ زندہ رہے گا۔ دنیا کے ہر کونے میں گھومنے جائے گا۔ بہت مشہور ہو گا اور اس کے پاس بہت دولت ہوگی۔ یہ بات سڈنی پوٹئیر نے بیاسی سال کی عمر میں اپنے ایک انٹرویو میں بتائی۔ ان کی پیدائش کی تاریخ 22 فروری 1927 ( میامی، فلوریڈا) کی تھی۔ اور وہ ساتویں اولاد تھے۔

جب سڈنی پندرہ سال کے ہوئے تو والدین نے انہیں اپنی سکھائی ہوئی اعلی انسانی قدروں اور کچھ ڈالرز کے ساتھ اپنے سب سے بڑے بیٹے کے گھر میامی، فلوریڈا بھیج دیا۔ اس وقت سڈنی کا قد لمبا، جسم مضبوط اور انگریزی پڑھنے کی استعداد دوسری یا تیسری جماعت کی تھی۔

وہ وقت میامی، فلوریڈا میں کالوں کے خلاف سفید فام قوم کی کی نسلی برتری اور منافرت کا تھا۔ جب جمکرو قوانین کی صورت ملک میں مروج تھے۔ یہ وہ غیر انسانی سلوک تھا کہ جو سڈنی پوئیٹر کے دیس میں رائج نہ تھا جہاں اکثریت کالوں کی تھی۔ اس رویہ سے بچنے کے لیے سڈنی پوئیٹر نے نیویارک کا راستہ پکڑا۔ جہاں انہیں کالوں کے ایک علاقے ہرلم کے ایک ریسٹورنٹ میں برتن دھونے کی ملازمت مل گئی۔ گوانکا اداکاری کا ہرگز کوئی ارادہ نہ تھا مگر اخبار میں امریکن نیگرو تھیٹر میں اداکار کی جگہ نکلی تو اداکاری کے تجربہ کا جھوٹ بول کے جب انہوں نے اٹک اٹک کر چند سطریں پڑھیں تو مینیجر نے غصے میں آ کر باہر جانے کا راستہ دکھاتے ہوئے کہا کہ ”دوسروں کا وقت مت برباد کرو۔

تم جاکر برتن دھو۔“ یہ جملہ ایک چیلنج ثابت ہوا۔ سڈنی پوئیٹر نے سوچ لیا کہ ایک دن وہ اداکار بن کر اس بات کو ثابت کریں گے کہ ان کی منزل برتن دھونا نہیں بلکہ اداکار بننا ہے۔ مگر اداکاری کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ پڑھنے کی اہلیت میں کمی تھی۔ جسے خوش قسمتی سے ریسٹورنٹ میں کام کرنے والے ایک بزرگ مہربان یہودی بیرے نے روزانہ کی بنیاد پہ پڑھا کے پورا کیا۔

بالا آخر ان کے کیریر کی ابتدا 1946ء نیویارک، براڈ وے میں کامیڈی اسٹیج پلے ”لیسسٹرا“ سے ہوئی اور پھر وہاں سے فلموں کے لیے راہیں کھل گئیں۔ چھہ فٹ دو انچ قد اور متاثر کن آواز و انداز میں مکالمہ ادا کرنے والے ہینڈ سم سڈنی پوٹئیر نے فلم انڈسٹری کے مشہور ہدایت کاروں اور پروڈیوسرز کو اس قدر متاثر کیا کہ انہیں فلموں میں اہم کردار ملنے لگے۔ لیکن انہوں نے کسی بھی کردار کو اپنے متعین اصولوں سے متصادم نہ ہونے دیا۔ گو انہوں نے نسلی تفریق کے خلاف ہونے والی سول رائیٹس تحریک کے احتجاجی جلوسوں میں بھی مارچ کیا، فنڈ جمع کیا، مگر اداکاری کے میدان میں نسلی برتری کے خلاف جنگ لڑنے والے وہ سب سے اہم جری و نڈر سپاہی ثابت ہوئے۔

سڈنی پوٹئیر نے اپنے انسانی اخلاقی اصولوں پہ سمجھوتہ نہ کرتے ہوئے صرف ان کرداروں کو قبول کیا جو سیاہ فام نسل کی توہین نہ کریں۔ اس طرح انہوں نے سماج میں کالوں کے مخصوص کرداروں کی نفی کرتے ہوئے ایسے مثبت کردار ادا کیے جو آنے والے سیاہ فام نوجوان اداکاروں کو تحریک اور حوصلہ دے سکیں۔

1950ء میں ہالی ووڈ فلم ”نو وے آؤٹ“ سے ابتداء کی اور ایک ایسے کالے ڈاکٹر کا کردار ادا کیا کہ جو سفید نژاد مجرموں کا علاج کرتا ہے۔ اس کے بعد 1951 ء میں ”کرائی دی بیلووڈ کنٹری“ اور پھر مزید فلمیں ملیں۔ مگر ایک ایسا وقت بھی آیا کہ اپنے اصولوں کی بناء پہ سڈنی پوئیٹر نے ایک ایسے غریب خاکروب باپ کے کردار کی ادائیگی مسترد کی جو ایک قتل کا عینی شاہد تھا اور جس کا منہ بند کرنے اور خوفزدہ کرنے کے لیے قاتل اسکی بیٹی کو قتل کر کے اس کے لان میں پھینک دیتے ہیں۔

فلم کا نام تھا۔ ”دی فینکس سٹی اسٹوری“ ۔ اس فلم کے لیے سڈنی کو 750 ڈالرز کی پیشکش تھی مگر انہوں اس کردار کو منع کرتے ہوئے کہا کہ ”میں نے اپنے باپ کو دیکھا ہے۔“ وہ سال تھا 1955ء کا ۔ اس وقت دوسری بیٹی کی پیدائش کے سلسلے میں پچھتر ڈالرز کا بل کی ادائیگی ان کی ذمہ داری تھی۔ یہ بل انہوں نے قرض لے کر ادا کیا اور فلم نہ ہونے کی صورت میں دوبارہ ریسٹورنٹ میں برتن دھونے کے کام کو ترجیح دی۔ جس پر ان کا ایجنٹ مارٹی بومب اس قدر متاثر ہوا کہ اگلے پچاس سال بھی ان کے ساتھ ہی کام کرتا رہا۔ 1958ء میں ایک اور اہم فلم ”دی ڈیفاینڈونس“ نے امریکی سماج کی نسلی تعصب کو چیلنج کیا۔ جس میں سڈنی نے ٹونی کر ٹس کے ساتھ جیل سے بھاگے ہوئے قیدی دوست کا کردار ادا کیا۔

1964ء میں بالا آخر وہ تاریخی لمحہ آ گیا جب اکیڈمی ایوارڈ کی تقریب میں سڈنی پوائیٹر کا نام بہترین اداکار پکارا گیا۔ فلم کا نام تھا ”لیلیز آف دی فیلڈ“ ۔ اس وقت جب امریکہ کے جنوب میں سیاہ فام افراد کی لاشیں درختوں پہ لٹکائی جا رہی تھیں۔ سڈنی پوائیٹر کا ایوارڈ اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ سماجی سوچ میں تبدیلی کا عمل واقع ہو چکا ہے۔ اور کچھ ماہ بعد یہی وہ سال تھا کہ جب لنڈن جانسن نے سول رائٹس ایکٹ پہ دستخط کی۔

سڈنی پوئیٹر کی چند اہم اور کامیاب ترین فلمیں ”دی ہیٹ آف دی نائٹ“ ، ٹو سر وتھ لو، اور گیس ہو ازکمنگ ٹو ڈنر ہیں۔ جو 1967ءمیں ریلیز ہوئیں۔ ان فلموں نے سماج کی سوچ میں تبدیلی کا وہ کارنامہ ادا کیا ہے جو اکثر بڑی تحریکیں ادا کرنے سے قاصر رہئیں۔ کیونکہ ان فلموں میں کالی رنگت والوں کو طاقتور، قدآور اور پر احترام اور رتبہ کردار دیے گئے تھے۔ مثلاً ٹو سر وتھ لو میں گورے مڈل بچوں کے استاد کا کر دارجو شروع میں تمسخرانہ اور تذلیل آمیز رویہ کے باوجود بالا آخر ان بچوں کا اعتماد اور عزت حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔

ہیٹ آف دی میں سڈنی پوٹئیر کا کردار ایک جاسوس افسر ”مسٹر ورچل ٹبس“ کا تھا مگر ساؤتھ کا پولیس چیف کو اس بات کا یقین نہیں آتا۔ فلم کا وہ سین اہم ہے کہ جب گورا پولیس افسر کالے پولیس کو تھپڑ لگاتا ہے۔ اور جو اباً کالا بھی اسے اسی شدت سے تھپڑ رسید کرتا ہے۔ جبکہ دراصل اس منظر میں یہ دکھایا جانا تھا کہ کالا پولیس والا تھپڑ کھا کے غصہ میں باہر چلا جاتا ہے۔ لیکن سڈنی نے اس رویہ پہ احتجاج کیا اور جوابی تھپڑ پہ اصرار کیا اور اس بات کو بھی حتمی بنایا کہ جنوب میں فلم پیش کرتے وقت جوابی تھپڑ کا منظر نہیں کاٹا جائے گا۔ اس فلم کو بہترین فلم کا آسکر ایوارڈ ملا۔

اسی طرح گیس ہو از کمنگ ٹو ڈنر میں ایک کالے ڈاکٹر کا کردار ادا کیا کہ جس کو ایک گوری لڑکی شادی کے لیے منتخب کرتی ہے اور اپنے پرانی اقدار والے والدین کی مخلوط نسل میں شادی کے خلاف قدروں کو چیلنج کرتی ہے۔

سڈنی پوئیٹر نے اہم فلموں کی ہدایت کاری کی اور انہیں پروڈیوس بھی کیا۔ ان کی سوانح عمری ”دی میزر آفائے مین“ بھی منظر عام پہ آ چکی ہے۔ گو ان کو بہت سے اہم ایوارڈز اور اعزازات سے نواز گیا ہے بشمول1964ء میں ملنے والے اکیڈمی ایوارڈ، صدارتی ایوارڈ آف فریڈم (2009ء) اور گریمی ایوارڈ 2002ء کے۔

لیکن تمام ایوارڈز اور اعزازات بھی اس تاریخ ساز اثرات کے پھیلاؤ کا احاطہ کرنے سے سے قاصر ہیں جو انہوں نے سماجی سوچ کی تبدیلی میں ادا کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments