کیا جنسی گھٹن کا شکار فرد اپنے پارٹنر کو جسمانی طور پر مطمئن کر سکتا ہے


تدریسی پروفیشن سے تعلق ہونے کی وجہ سے اکثر دوستوں سے کسی نے کسی موضوع پر گفتگو ہوتی رہتی ہے اور اس بات کی کوشش ہوتی ہے کہ دوستوں کے درمیان ہر قسم کے معاشرتی ماسک  یا  بناوٹی  رکھ رکھاؤ کو ایک طرف کر کے  زندگی کے  چھوٹے یا بڑے معاملات پر چٹی ننگی گفتگو ہو تاکہ ذہنی قفل  ٹوٹیں، پرتیں کھلیں اور زندگی کی نئی حقیقتیں سامنے آئیں اور ہو سکے تو اپنی ڈسکشن کے ماحصل کو ایک مضمون کے قالب میں ڈھال کر شیئر کردیں تاکہ وہ ضرورت مند بھی استفادہ کر سکیں جو معاشرتی مجبوریوں کی وجہ سے کسی سے بات نہیں کر سکتے۔

چونکہ ہمارے معاشرے میں انفرادی ذہنی آسودگی، چاہے وہ جنسی ہو، سوال کرنے کی ہو یا پارٹنر منتخب کرنے کی ہو،  کے حصول کے لیے  ہر کسی کو  اپنے تیئں منافق بننا پڑتا ہے اپنی کھری پہچان کی بنیاد پر آپ کو آپ کا انفرادی حق  نہیں مل سکتا۔ روایتی سسٹم میں بہت سے صاحبِ بصیرت اور سوالات کھو جنے کا حوصلہ رکھنے والے حافظ و عالم موجود ہیں جو میرے بلاگ پڑھ کر بہت خوش ہوتے ہیں اور ان کا یہ ماننا ہوتا ہے کہ ہمارے ذہنوں میں تشکیکی سوالات پیدا ہوتے ہیں مگر اپنے طبقے کے خوف اور ان کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے کسی سے کچھ بھی نہیں پوچھ سکتے، کاروباری مجبوریوں  اور جبر کی وجہ سے اپنے ذہنوں میں پیدا ہونے والے سوالات کو یا تو دفن کرنا پڑتا ہے یا “فیک پرسونا” اختیار کرکے فیک آئی ڈی کے ذریعے مختلف چینل پر سوالات بھیجنا پڑتے ہیں۔ ہم اجتماعیت کے مارے ہوئے لوگ ہیں اور انفرادیت کے تصور سے بالکل عاری ہیں جبکہ جدید ترقی یافتہ دنیا  ایک انسان کی انفرادی حیثیت کو تسلیم کر چکی ہے اور اس کے انفرادی سرکل میں کسی کو بھی مداخلت کا حق نہیں ہوتا۔ گزشتہ دنوں دوستوں کے درمیان اس موضوع پر ڈسکشن ہو رہی تھی کہ” کیا دباؤ اور جوائنٹ فیملی سسٹم کے آئی سی یو جیسے ماحول میں دو شادی شدہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ  جنسی لمحات  انجوائے کرسکتے ہیں ؟”

 زیادہ تر دوستوں کا اس بات پر اتفاق تھا کہ جنسی لمحات کو انجوائے کرنے کے لیے جو آئیڈیل ماحول ہوتا ہے وہ جوائنٹ فیملی سسٹم میں ممکن نہیں ہو سکتا، بنیادی وجہ تنہائی کا فقدان اور خاندانی افراد کا ہر معاملہ پر گہری نظر رکھنا ہوتا ہے۔ جس ماحول میں پتہ بھی اپنی جگہ سے نہ ہل سکے تو وہاں دو زندہ انسان اپنے آزاد لمحات  کو مکمل ذہنی سکون کے ساتھ کیسے سیلیبریٹ کر سکتے ہیں؟ گھٹن کی درجنوں اقسام میں سے جنسی گھٹن سب سے زیادہ تکلیف دہ اور ذہنی انتشار کا باعث بنتی ہے۔ ایسا بندہ بظاہر تندرست اور ہٹا  کٹا دکھتا ہے مگر وہ ذہنی طور پر شدید بیمار ہوتا ہے اور المیہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی اس قسم کی ذہنی کیفیت کا صرف خود ہی شاہد ہوتا ہے اس کے علاوہ اس کے کرب کا کسی کو بھی پتہ نہیں چلتا۔

اگر کسی کو پتہ چل بھی جائے تو اسے شیطانی ذہن رکھنے والا قرار دے کر لاحول کی تسبیح پڑھنے یا جھاڑ پھونک کے ذریعے اس کے شیطانی جن کو اتارنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ شادی سے پہلے جنسی تسکین کا کوئی ذریعہ نہ ہونے کی وجہ سے مختلف قسم کے پارسائی  کے ڈرامے کرنا پڑتے ہیں حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے اور اس منہ زور جبلت   کے ہاتھوں مجبور ہوکر  پارسائی کے باوجود تنہائی میں وہ سب کچھ کرتے ہیں جن سے انہیں جنسی تسکین ملتی ہوگی۔ مگر معاشرتی بھرم کے ٹوٹنے کے ڈر سے منافقت کا خول پہن کر “اچھا بنے رہنے” کا کردار نبھانا پڑتا ہے۔ چونکہ ہماری معاشرتی قدروں میں فرد  کی انفرادی پہچان کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی اور انفرادی تقاضوں کو جانچنے کا ہمارا  پیمانہ صرف “ثواب یا گناہ” کی حد تک محدود ہوتا ہے اور اسی پیمانے کے مطابق ایک جیتے جاگتے انسان کی شخصیت متعین ہوتی ہے۔ ازدواجی زندگی کا فیصلہ گھر کے بڑے لیتے ہیں پارٹنرز کو زندگی کے اس اہم فیصلہ میں مداخلت کا کوئی حق نہیں دیا جاتا اور چار و ناچار جب یہ حادثاتی  رشتہ طے پاجاتا ہے تو شادی کے بعد بھی پارٹنرز کو ذہنی آسودگی کے لئے فری سپیس نہیں دی جاتی اور اپنے روم میں بند ہونے کے  لیے بھی انہیں رات تک کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔

دوسرے لفظوں میں، اگر دن کے وقت جنسی تسکین کا موڈ بن بھی جائے تو اسے مخصوص وقت تک کے لئے ملتوی کرنا پڑتا ہے۔ معاشرتی جبر دیکھیے کہ اپنی جائز جنسی ضرورت پوری کرنے کے لیے بھی خاندانی افراد کے درمیان سے اٹھ کر اپنے نجی کمرہ  میں جانے کے عمل کو بھی بے شرمی سمجھا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں کہیں تو اپنی جنسی پیاس بجھانے کے لیے سیکس کی کیفیت کو اپنے اوپر طاری کرنا پڑتا ہے جس کا نتیجہ بچوں کی بے  ترتیب پیدائش کی صورت میں سامنے آتا ہے اور پارٹنرز  ذہنی اطمینان حاصل نہ کر سکنے کی وجہ سے اپنی ازدواجی زندگی پورے طریقے سے انجوائے نہیں کر پاتے۔ ہمارا معاشرتی جبر رشتوں کی اوریجنلٹی کو قائم نہیں رہنے دیتا اور ہر طرح سے “جعلی رویوں” کو جنم دینے کا سبب بنتا ہے۔ مغربی کلچر میں ہر شخص کو انفرادی حق حاصل ہوتا ہے اور وہ اپنی ذات کے ساتھ مخلص رہ کر اپنے طریقے سے جی سکتا ہے مگر ہمارے ہاں منافق بن کر تو جیا جا سکتا ہے لیکن اوریجنل بن کر نہیں۔ اسی لئے کفارستان میں ہر بندہ اپنی اصل پہچان کے ساتھ اپنی زندگی جیتا ہے جبکہ ہمارے ہاں موقع کی مناسبت سے درجنوں ماسک پہن کر جھوٹی اداکاری کر کے جینے کی سعی کی جاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments