کالر والی: انڈیا کی سلیبرٹی شیرنی ’کالر والی‘، ایک وحشی شکاری بھی وفادار دوست بھی

شرایانہ ہریشیکیش - بی بی سی نیوز نئی دلی


Collarwali
Varun Thakkar
انڈیا کی شیرنی ‘سُپر مم‘ کوئی عام شیرنی نہیں تھی۔

ملک کے معروف ترین شیروں میں سے ایک، ’کالر والی‘ شیرنی گذشتہ ہفتے 16 برس کی عمر میں چل بسی ہے۔ مدھیا پردیش میں پنچ ٹائیگر ریزرو کی قسمت بدلنے میں اس شیرنی کا اہم کردار تھا۔

ایک ماہر کا کہنا تھا کہ شیرنی کا نام ’کالر والی‘ اس کے گلے میں پڑے ریڈیو کالر کی وجہ سے رکھا گیا تھا۔ اس شیرنی نے اپنی زندگی میں 8 مواقعوں پر کل 29 بچوں کو جنم دیا تھا۔

بی بی سی وائلڈ لائف کی دستاویزی فلم ’سپائی اِن دی جنگل‘ میں سامنے آنے کے بعد اس شیرنی کو انڈیا میں بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ یہ دستاویزی فلم چار شیر کے بچوں کی زندگی کے دو برسوں پر مبنی تھی۔

پینچ ریزرو میں 2004 سے کام کر رہے پرابیر پٹیل کا کہنا ہے کہ اس دستاویزی فلم کے بعد بہت سے لوگ اس پارک میں آنے لگے اور اکثر اس کا نام ’کالر والی‘ لے کر اسے تلاش کرنے کی کوشش کرتے تھے۔

سنیچر کو بڑی عمر کی وجہ سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کی وجہ سے اس کی موت ہوگئی۔

کالر والی کو سنہ 2008 میں ایک ریڈیو کالر پہنایا گیا تھا جس سے ان کا نام کالر والر پڑ گیا

Aniruddha Majumder
کالر والی کو سنہ 2008 میں ایک ریڈیو کالر پہنایا گیا تھا جس سے ان کا نام کالر والر پڑ گیا

ماہرین اور محکمہ جنگلات کے افسران نے اس شیرنی کو اس پارک میں بڑے ہوتے دیکھا۔ یہ وہی جنگلات ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ رُڈیاڈ کِپلنگ کی معروف کتاب ’دی جنگل بک‘ انھی کے بارے میں ہے۔

کالر والی 2005 میں پیدا ہوئی تھی اور اس وقت اس کا نام تھا ٹی 15۔ اس کی ماں کو ‘بڑی ماتا‘ کہا جاتا تھا اور وہ بھی ایک معروف شیرنی تھی۔ کالر والی کے والد کا نام ٹی ون تھا۔

بعد میں کالر والی وہ پہلی شیرنی بن گئی تھی جسے ریڈیو کالر لگایا گیا تھا تاکہ اس کی نقل و حرکت کے بارے میں معلومات جمع کی جا سکیں۔

اسے پیار سے ’ماترم‘ یا محترم والدہ‘ بھی کہا جاتا تھا۔

Collarwali

Varun Thakkar

پٹیل بتاتے ہیں کہ ’کالر والی کی پیدائش سے پہلے پینچ ریزرو میں شیر شاذ و نادر ہی نظر آتے تھے، لیکن وہ جلد ہی سب سے زیادہ دیکھی جانے والی شیرنی بن گئی۔‘

جنگلی حیات کے تحفظ کے کارکن ویویک میمن کہتے ہیں کہ یہ شیرنی ’پینچ کی پہچان‘ تھی۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ اس کے انوکھے مزاج کی وجہ سے ہی بہت سے لوگ اور فوٹوگرافر اس کے اور اس کے بچوں کے بارے میں جان سکے۔

اس ریزرو کے پاس ہی پرورش پانے والے محمد رفیق شیخ نے اس ریزرو میں سینکڑوں سیاحوں کو گائیڈ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کالر والی نے کبھی بھی وہاں آنے والے سیاحوں کو مایوس نہیں کیا۔

محمد رفیع کہتے ہیں کہ ‘وہ ایک انتہائی دوست پرور جانور تھی جو سیاحوں کی گاڑیوں کے انتہائی قریب بے خوف ہو کر جاتی تھی۔‘

انڈیا میں دنیا کے 70 فیصد ٹائیگر پائے جاتے ہیں۔ ان کی تعداد تیزی سے کم ہو رہی تھی تاہم حکومت کے تازہ ترین اندازوں کے مطابق یہ تعداد اب بڑھ کر 2976 تک پہنچ گئی ہے۔ ہر سال ہزاروں سیاح انڈیا بھر میں پھیلے 51 ٹائیگر ریزروز کا رخ کرتے ہیں اور انھیں امید ہوتی ہے کہ کسی شیر کا قریب سے نظارہ کریں گے۔

کالر والی کئی تناظر میں خاص شیرنی تھی۔ اپنے علاقے کے تعین کرنے کے بعد وہ شاید ہی کبھی اس سے باہر نکلی ہو اور اپنی موت تک وہیں راج کرتی رہی۔

پٹیل بتاتے ہیں کہ ‘وہ حجم میں اتنی بڑی تھی کہ دیگر شیر اس سے لڑنے سے ڈرتے تھے۔ کبھی کبھی دیگر پارکوں سے آئے ہوئے اہلکار اس کا حجم دیکھ کر اسے غلطی سے نر سمجھنے لگتے تھے۔‘

کالر والی کے 29 بچوں میں سے 25 زندہ بچ گئے جو انڈیا بلکہ شاید دنیا میں ایک ریکارڈ ہے۔

2008 میں اس کے پہلے تین بچے نمونیا کی وجہ سے مر گئے مگر پھر اس کے بچے ہوتے رہے اور 2010 میں اس نے ماہرین کو اس وقت حیران کیا جب اس نے پانچ بچوں کو اکٹھے جنم دیا جو کہ شیروں میں ایک قدرے غیر معمولی تعداد ہے۔

Collarwali

Varun Thakkar

عام طور پر شیرنیاں بچوں کو تقریباً دو سال تک اپنے قریب رکھتی ہیں، مگر کالر والی انھیں خود انحصاری سیکھاتی تھی اور کئی مرتبہ ایسے مقامات پر چھوڑ دیتی تھی جہاں ممکنہ حملہ آور ہوتے تھے۔

پارک میں جانوروں کے ڈاکٹر اکلیش میشرا نے کئی مرتبہ کالر والی کا علاج کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘وہ ایک طاقتور ماں تھی۔ کبھی کبھی وہ ایک ہی دن میں دو شکار کرتی تھی تاکہ اپنے بچوں کو کھلا سکے۔‘

Collarwali

Pench Reserve

وہ خود کو دنیا کے ان خوش قسمت لوگوں میں سے شمار کرتے ہیں جنھیں اس شیرنی کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔

ماحولیات کے تحفظ کے کارکن ویویک میمن کہتے ہیں کہ کالر والی کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ اس کی وجہ سے پینچ کو ایسے ریزرو کے طور پر جانا جاتا ہے جہاں ‘صحت کو عروج حاصل ہے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ یہ اس کی میراث کا حصہ ہے، اس کے پیدا کردہ بچوں سے شیروں کی تعداد بھی بڑھے گی۔

بی بی سی نے جس سے بات کی، کالر والی کے بارے میں ہر ایک کی کوئی نہ کوئی پسندیدہ کہانی تھی۔ پٹیل کو ایک واقعہ یاد تھا جب کالر والی اور اس کے تین بہن بھائیوں نے ایک بھوکے تیندوے کو اپنے علاقے میں گھسنے پر بھگا کر درخت پر چڑھنے پر مجبور کر دیا تھا۔

وائلڈ لائف فوٹوگرافر ورون ٹھاکر کے 2011 کا وہ منظر یاد گار ہے جس میں کالر والی اپنے بچوں کے ساتھ تھی۔ اس میں کل چھ شیر، پینچ ندی کے کنارے ایک چٹان پر اور اس کے آس پاس آرام کر رہے تھے۔ گیارہ سال بعد بھی وہ منظر ان کے ذہن میں تازہ ہے۔

ڈاکٹر مشرا کا کہنا ہے کہ ذہین کالر والی اکثر جب پریشان یا زخمی ہوتی تھی باہر کھلے میں لیٹ جاتی تھی، جیسے کہ وہ اپنی دیکھ بھال کرنے والوں کی مدد کے منتظر ہو۔

ایک شخص کے مطابق، اس نے اپنی موت سے ایک دن پہلے بھی ایسا کیا تھا، جب وہ ‘اتنی کمزور تھی‘ وہ بمشکل چل سکتی تھی۔

کالر والی کو اتوار کے روز ریزرو کے ایک کھلے میدان میں عملے اور مقامی دیہاتیوں کی طرف سے پھولوں اور دعاؤں کے بعد بطور آخری رسومات جلایا گیا۔

ڈاکٹر مشرا نے کہا کہ ‘کالر والی ایک نایاب شیرنی تھی۔ وہ اس کی موت پر افسوس کے بجائے اس کی زندگی کا جشن منانا چاہتے ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments